تحریر : میاں طاہر سلیم چوہدری
ایجوکیشن ہر معاشرے کا اہم جز ہوتا ہے اور اس کی ہی بدولت انسان نے زمین سے چاند تک کا سفر اور پتھر سے ایٹم بم تک رسائی حاصل کی استاد کو ماں باپ سمجھا جاتا ہے اور آج ہم جس مقا م پر کھڑے ہیں ہمارے لیئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایجوکیشن اداروں میں ا ہم اپنے بچوں کو اچھی تربیت کے لئے بھجتے ہیں ؟؟ یا اس معاشرے میں معاملات کچھ اور بن گئے ہیں ؟؟کیا ہماری مائیں ،بہنیں (فیمل ٹیچرز) اداروں میں پڑھانے جاتیں ہیں ؟؟؟؟یا پھر انکو ہی پڑھانے والے سیاہ بھیڑئیے ہمارے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں ؟؟؟ آج میں چند ایسے اسکولوں اور دفتروں کاذکر کرنا چاہتا ہوں جسے جان کر میرے ساتھ ساتھ آپ کا خون بھی گرما جائے گا تحصیل گوجرہ کے نواحی گاؤں 246گ ب کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں اسی اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد رمضان نے تیسری کلا س کے طالب علم محمد عمر سے زبر دستی بدفعلی کی جسے گاؤں کے معزز لوگوں نے پنچائت میں بلوا کر خوب چھترول کی اور جوتوں کے ہار پہنا کر گاؤں سے بے دخل کر دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ استاد موصوف بغیر چھٹی منظور کروائے اسکول چھوڑ کر بھاگ گیا اور اسکول ایک ہی خاتون ٹیچر کے رحم کرم پر چھوڑ گیا کیونکہ اس اسکول میں 6کلاسوں کے لئے صرف دو ہی ٹیچرز تھے اب سوال یہ ہے کہ کیا ہیڈ ماسٹر رمضان کو اس کے جرم کی پوری سزا ملی ؟؟؟کیا بدفعلی کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ کو بغیر اطلاع کئے اسکول سے غائب ہو جانا جرم نہیں ؟؟؟ ہیڈ ماسٹر کے خلاف محکمانہ کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟؟؟محکمہ ایجوکیشن نے کیوں چپ سادھ لی؟؟؟ اس کی وجہ وآگے بتاتے ہیں۔
پھر ایک مرتبہ گورنمنٹ غوثیہ مسلم ہائی اسکول میں جانے کا اتفاق اس طرح ہوا کہ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہاں پر پڑھائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہاں کے استاد ان کے بچے احسان وارثی سے جو کہ چھٹی کلاس کا طالب علم تھا سے ٹانگیں دبواتے ہیں اور پڑھانے کی بجائے ان کا دھیان غلط کام کی جانب جا رہا ہے میں اپنے دوست کے ساتھ جب اس اسکول پہنچا تو دیکھا کہ اسی اسکول کا ایک اور استاد غلام مصطفےٰ ایک کلاس کو پڑھانے کی بجائے ایک موٹے ڈھنڈے سے مار رہا ہے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بچے کے ناک پر ڈھنڈا مار کر استاد صاحب نے اس کے ناک کی ہڈی ہی توڑ دی میں اور میرا دوست جلدی سے اسی جانب بڑھے اور استاد موصوف کے ہاتھ سے ڈھنڈہ پکڑ کر بچے کو اٹھایا اور اسپتال لے گئے اور اس کی ٹریٹمنٹ وغیرہ کروائی تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بچے کا نام سلمان تھا اور وہ آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔
جب سلمان سے ہم نے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ان کے استاد سبق یاد نہ کرنے پر روزانہ سب کو ایسے ہی مارتے ہیں ہمیں یہ سن کر بہت دکھ ہوا اور ہم نے چند میڈیا کے دوستوں کو ساتھ لیا اور ڈی او ایجوکیشن ٹوبہ ٹیک سنگھ چودھری محمد اکرم کے دفتر کا رخ کیا ہمارے جانے کا یہ مقصد تھا کہ اسکولوں میں ایسے معاملات کو ناصرف رکوایا جائے بلکہ ایسے استادوں کو لگام بھی ڈالی جائے جو انسانوں کے اسکول میں رہ کر ان پر گدھوں جیسا سلوک کرتے ہیں مگر ڈی او موصوف نے اپنے کلرک کے ذریعے ہم سے واقع جان کر اور ہمیں دو گھنٹے انتظار کروا کر خود پچھلے دروازے سے بھاگ گئے جس کی خبر ایک بڑے ٹی وی چینل نے بھی نشر کی،وہاں ہمیں ڈی او ایجوکیشن ٹوبہ چودھری محمد اکرم کے رویے پر بہت تعجب ہوا۔
ابھی ہم ڈی او کے آفس میں ہی موجود تھے کہ محکمہ ایجوکیشن کے اہلکاروں کا ایک اور اسکینڈل سامنے آ گیا وہاں پر کچھ لوگ بلند آواز میں بحث و تکرا کر رہے تھے قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی بھی ٹیچر ہے اور وہ کچھ اہلکار ان کی بیٹی کو بلیک میل کر رہے ہیں ہم نے فوراً اپنے ذرائع مزیدتیز کر دئیے اور ہمیں ڈی او ایجوکیشن آفس کے کلرک حسن شاہ کا پتہ چلا کہ وہ خاتون ٹیچرز سے چھیڑ چھاڑ اور بلیک میلنگ کا ماسٹر مائنڈ ہے جس نے خاتون ٹیچروں کو ہی بلیک میل کر کے لا تعداد شادیاں رچا ررکھی ہیں اور آئے دن کسی نئی کی تاڑ میں رہتا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی کی بہن ،بیٹی کو چھے ،آٹھ مہینے استعمال کر کے چھوڑ دو اور کوئی نیا ڈھونڈ لو ، کیونکہ حسن شاہ کافی عرصہ سے یہاں تعینات ہے، تقرر و تبادلے،امتحانات میں ڈیوٹی اور مختلف قسم کی میٹنگ کے بہانے سیدھی سادھی ٹیچروں کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے اور اب حالات یہ بن گئے ہیں کہ سیدھی سادھی خاتون ٹیچریں اپنے ہی محکمہ کے دفتروں میں جانے سے گھبراتیں ہیں اور سوچتی ہیں کہ وہ شکایات کس کے پاس لے کر جائیں؟؟ اور کس کے خلاف لے کر جائیں۔
کیا ان کی کسی شکائت پر کوئی کارروائی بھی ہو گی ؟؟؟یا پھر ذلیل و رسوا ہی ہونگی؟؟؟ حسن شاہ ایک کلرک کی ہے مگر درحقیقت وہ ہی ایجوکیشن کا ای ڈی اوبن کر بیٹھا ہے ماضی میں ان کے خلاف کرپشن کے اسکینڈل بھی رہے مگر کسی کی کیا مجال کہ اس کے خلاف آواز بلند کرے یہ جان کر تو ہم اپنے حوش و حواس کھو بیٹھے اور تب ہمیں اصل حقیقت کا علم ہوا کہ محکمہ ایجوکیشن میں کیا کیا ہو رہا ہے اور کیوں کوئی کسی کے خلاف ایکشن ہیں لیتا اوپر سے نیچے تک سب ایک ہی گاڑی کے بیل ہیں اور ایک دوسرے کی سیاہ کرتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بولے بھڑئیے ہی کافی ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔
جناب وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف آپ سے میرا سوال ہے کہ تعلیمی ادروں سے مذاق آخر کب تک چلتا رہے گا ؟؟؟جناب کیا یہ قوم کے مستقبل کا سرعام قتل نہیں ؟؟؟ استدعا ہے کہ اگر آپ نے پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کا نعرہ لگایا ہے تو اس پر عمل درآمد بھی کروائیں اور ایجوکیشن اداروں سے ایسے بھیڑیوں کا صفایا کیا جائے یہ نہ ہو کہ پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے اور زانی و کرپٹ لوگوں کی چل جائے اور ساتھ ہی محکمہ ایجوکیشن اور اسکول بند ہونے سے ہماری اگلی نسلیں تباہ و برباد ہو جائے قوم وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان کے نوٹس کی منتظر ہے۔
تحریر : میاں طاہر سلیم چوہدری