تحریر : عتیق الرحمن
تخلیق انسانیت کے فورا بعد ہی اللہ جل وعلاہ نے انسانیت کی رہنمائی و رہبری کا انتظام کردیا ۔چونکہ انسان کو دنیا میں اختیاردیا گیاکہ وہ خیر و شر میں سے جسے چاہے اپنی خوشی و رغبت سے اختیار کرلے۔مگر انسان کی فطرت میں سہوو غلطی کھانے اور ظاہری رنگ رلیوں سے متاثر ہوجانے کا مادہ موجود تھا اور ہے اس کے سبب یقینی امر تھا کہ انسان برائی و بدی اور شر جو بظاہر فائدہ مند معلوم ہوتاہے کی جانب متوجہ ہوکر اس کو اپنا لے۔ اسی امر کے پیش نظر اللہ رب العزت نے انسانو ں کی رہنمائی و رہبری کی خاطر انبیاء کرام کواپنا پیغام دیکر کائنات میں بھیجا تاکہ وہ انسانوں کو صحیح و غلط میں موجود فرق کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ حجت تام ہوجائے کہ اگر انسان برے راستے کو چاہتے ہوئے اختیار کرتاہے تو اس کے نتیجہ میں سزاکا مستحق قرار پائے اور اگر درست اور نیک کاموں پر عمل کرلے اور خیر کے راستے پر چل پڑے تو اس کو انعام و اکرام کے ساتھ جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے کااعزاز دیاجائے۔انبیاء کرام کی دعوت و رسالت کا لب لباب یہی ہی تھا کہ وہ لوگوں کو تذکیر و یاددہانی کرواتے تھے کہ عالم ارواح میں رب کے ساتھ کیا جانے والے عہد کسی صورت ٹوٹنے نہ پائے۔
انبیاء کی بعثت کا سلسلہ نبی مکرم ۖپر مکمل ہوا۔آپ کے بعد چونکہ کسی نبی نے نہیں آنا اس لئے آپ ۖپر اسلام کی دعوت کو ختم کردیا اب آپ ۖکے بعد آپ کی امت کے کندھوں پر یہ بشیر و نذیر کی ذمہ داری آن پڑی کہ وہ اس کو تاروز محشرانجام دیں۔بشیر و نذیر کے فریضہ و منصب کو نبھانے کے لئے ضروری و لازم تھا اور ہے کہ داعی کے پاس دین کا کافی و شافی ذخیرہ معلومات ہونا چاہیے ۔جس کے لئے لازمی ہے کہ ملت اسلامیہ کے داعی علم کی شمع سے قلوب و اذہان کو معطر کریں۔دین اسلام نے ابتداہی سے علم کی اہمیت و افادیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ماخذ و مصادر اور اس کے دائرہ کار کا بھی پہلی وحی میں تعین کردیا گیا۔جس کا بامحاورہ ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے”تو پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا،پیداکیا انسان کو لوتھڑے سے ،تو پڑھ عزت و کرم والے رب کے نام سے،وہ جس نے تعلیم دی قلم کے ذریعہ سے ،سکھایا انسان کو وہ علم جسے وہ پہلے نہیں جانتاتھا”سورہ علق کی یہ پہلی پانچ آیات ہی قرآن کا پہلا و اساسی پیغام و دعوت ہے۔مولانا ابولحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ ان آیات میں یہ واضح کردیا گیا کہ علم اور مسلمان کاچولی دامن کا ساتھ ہے کہ وہ اسکے بغیرسماج میں پنپ نہیں سکتا،علم سکھے بغیروہ ترقی وکامرانی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔اور ساتھ ہی انسان کو اس کی حیثیت سے بھی مطلع کردیا گیا ہے کہ وہ جتنا بھی بڑا بن جائے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی اصلیت و ابتدا ایک لوتھڑے سے ہی ہوئی ہے۔
دنیاوی مناصب و عہدوں کے آجانے کے بعد انسان اپنے سے کمزور و ناتوں لوگوں پر سرکشی کرتاہے اور مارے غرور کے ان پر اتراتے ہوئے انسانوں کی تحقیر کا عمل کرتاہے اس سے اجتناب کے لئے باور کرادیا گیاکہ اللہ کی ذات و الاصفات ہی سب سے زیادہ معززو مکرم ہے لہذا انسان کو مغرور و مقہور بننے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔مولانا فرماتے ہیں کہ علم کے حصول کے مختلف ذرائع ہوسکتے ہیں انسانوں سے ملاقات و گفت و شنید کے نتیجہ میں بھی علم حاصل ہوتاہے ۔مگر یہاں پرقرآن نے واضح بیان کردیا ہے کہ علم حقیقی وہی ہے جس کی تعلیم دی جارہی ہے وہ بذریعہ قلم یعنی لکھی ہوئی صورت میں حاصل ہو۔بدقسمتی سے آج کا انسان دنیا میں سائنسی ترقی و عروج کی وجہ سے ناتواں لوگوں پر ظلم و جور کا بازارگرم کرتے ہیں کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں جدید ٹیکنالوجی ،سائنس اور علوم کائنات کو مسخر کرچکے ہیں تو اس پر اظہار تفاخر کرنا ان کا حق ہے اسی لئے اللہ نے واضح کردیا کہ ان لوگوں کے پاس وہی علم ہے جو ہم نے سکھلایا اسے مگر وہ اس سے پہلے کچھ بھی نہ جانتا تھا۔
پہلی وحی کی روشنی میں یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ اسلام نے آغازاور اپنے پہلے ہی روز سے علم کی دعوت دترغیب دی۔اس طرح قرآن حکیم کی بے شمار آیات اور احادیث کے ذخیرہ میں بھی علم کے حصول کے فرض و لازم ہونے اور اس کے حصول میں مشغول و مصروف لوگوں کی منقبت بیان ہوئی ہے ۔مثال کے طورپر فرمایا گیا حدیث میں کہ”علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی پاتال تک”اور”علم حاصل کرنا ہر مردوعورت پر لازم قرار دیا گیا” عالم کو عابد پر وہ فضیلت دی گئی جو نبی کو عام انسانوں کے مقابل میں حاصل ہے۔اس طرح کے متعدد اقوال و فرامین موجود ہیں جن سے علم کی اہمیت اور اس کی افادیت اور اسلام میں اس کے اہتمام کا پیغام ملتاہے۔صحابہ کرام کو نبی کریم کی اطاعت کرنا اور آپۖ کے ہرحکم پر جانثار کرنے کا پیغام دیا گیا ۔غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت کعب ابن مالکاور ان کے دوساتھیوں نے جمعہ کی نماز شہر میں اداکرنے کی نیت سے سفر جہاد میں نبی کریم ۖکی مشارکت نہیں کی تو اللہ نے مسلمانوں کوان سے مقاطعہ کرنے کا حکم نازل فرما دیا۔
اسی اہتمام کی وجہ سے صحابہ کرام باوجود تجارت و زراعت اور دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے کے ایک لمحہ کے لئے دین کی تعلیم سے دور نہیں ہوئے جیساکہ حضرت انس بن مالک کی روایات سے معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام تعلیم و تعلم کا کس قدر اہتمام کرتے تھے۔وہ فرماتے ہیںکہ”کیا میں تمہیں تمہارے ان بھائیوں کے متعلق خبر نہ دوں جن کو ہم رسول اللہ کے زمانے میں ”قرائ”کے نام سے پکارتے تھے ،وہ تعداد میں ستتر تھے ،رات کو مدینہ میں اپنے استاد کے پاس جاتے اور صبح تک پڑھتے رہتے ،صبح کو ان میں سے جو طاقتور ہوتے وہ میٹھا پانی بھر کر لاتے اور مزدوری کرتے ،یا لکڑی کاٹ کر لاتے اور فروخت کرتے ،جن کو گنجائش ہوتی وہ جمع ہوکر بکری خرید لیتے،اس کو بنالیتے اور وہ رسول اللہ ۖ کے حجروں کے پاس لٹکی رہتی”۔اسی طرح کا واقعہ حضرت عمر اور ان کے پڑوسی کا بھی ہے کہ وہ ایک روز کام کرتے اور دوسرے روز حلقہ تعلیم میں شامل ہوجاتے،اور جو کچھ نبی کریم ۖکے اسنان مبارک سے سناہوتااپنے ساتھی کو بھی سکھا دیتے تھے۔
اسلامی تعلیم کی اہمیت و افادیت کو بیان کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم ملک پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کامختصراجائزہ لیں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملک پاکستان برصغیر کا وہ عظیم خطہ ارضی ہے جس کو انگریز کی غاصبیت اور ہندوئوں کے اثر و رسوخ سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی حاصل کیاگیا۔ اس امر کے متحقق ہونے کے لئے یہ صدابلند کی گئی کہ ہم مسلمانوں کے لئے آزادخطہ چاہتے ہیں اور اس کا ماٹو و نعرہ یہی ہوگا کہ ”پاکستان مطلب کیا لاالٰہ الااللہ”۔مگر باعث افسوس امر یہ ہے کہ ملک پاک میں ابتداہی سے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو منظم و بہتر بنانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایاگیا بعض اوقات شعبہ تعلیم وتربیت میں ترمیم و بہتری کے فیصلے ہوئے مگر عملا ان کا نفاذ نہ ہوسکا۔جس کا بدیہی نتجہ یہ ظاہر ہورہاہے کہ ملک پاکستان کا نوجوان اسلامی تعلیمات اور ارض مقدس کی محبت و مودت سے پہلوتہی کرچکا ہے۔جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی و سماجی قیادت میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کو قرآن مجید کی مختصر سورت کی تلاوت نہیں آتی اور اس کے ساتھ ہی اسلامی تعلیمات کے مفاہیم سے کوسوں دور ہیں۔جس کے نتیجہ میں آئے روز اسلام کے ٹھوس و بین احکامات کو بدلنے اور اس میں ترمیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہیں حدود آرڈیننس کے نام پر تو کہیں شعبہ مالیات کو بہتر بنانے کے لئے سودکی حلت یا اس میںمو جود سختی کو کم کرنے کا آوازہ لگایا جاتاہے اور پھر کہیں ناموس رسالت ایکٹ پر نظرثانی کا مطالبہ سامنے آتاہے۔اس طرح کے امور کا پیش آنا یہ ثابت کرتاہے کہ ہمارے سماجی و سیاسی ہستیوں کا اسلامی تعلیمات کو کسی انسانی و بشری صلاحیتوں اور کوششوں کا ثمر سمجھاجاتاہے اور اسے وحی ربانی اور نبی کریمۖ کی تعلیمات کا صدق دل سے اعتراف و احترام نہیں سمجھتے۔جبھی تو اس میں تغیر و تبدل کانعرہ لگاتا ہے۔
اس طرح کے سوالات اور شکوک و شبہات ہمارے قائدین کے ذہنوں میں کیوں پیداہوتے ہیں ؟اس کا صاف و کھراجواب یہی ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت درست خطوط پر نہیں ہوئی جبھی تو وہ اس طرح کے جاہلانہ مطالبے کرتے نظر آتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں تعلیم ادارے تین حصوں میں منقسم ہیں اول:دینی تعلیمی ادارے۔ثانی:سرکاری تعلیمی ادارے اور ثالث :پرائیویٹ و بیرونی تعلیمی ادارے۔اول درجہ میں دینی تعلیمی ادارے جن کی اہمیت و افادیت سے انکار ناممکن ہے بس المیہ کی بات یہ ہے کہ اسلام کے تصور تعلیم کو محدود مقید کردیاگیا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم اور اس کے مشتقات کو ہی صرف اختیار کیاگیا جبکہ مظاہر کائنات اور کائناتی علوم سے پہلوتہی کی گئی جس کا ثبوت کسی بھی اہل علم وصاحب ذی شعور اور اہل سلف کی حیات میں اس کی مثال نہیں ملتی۔البتہ جس امر پر اس تحریر کو مرتب کیا گیا وہ یہ ہے کہ سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارے جن کی خدمات کا اعتراف امر واجب ہے اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سائنسی و کائناتی علوم کی حفاظت اور اس میں تجدید کا فریضہ مسلم علماء ہی نے بااعتراف یونانیوں و دیگرمتطور تہذیبوںکے ساتھ کیا۔مگر بدقسمتی ہے کہ آج وہی مسلمان ایک طرف یاتو ان علوم سے غافل و دور ہے یا پھر انہی میں مشغول رہ کر اپنی زندگی بسر کردیتاہے اور اپنے مقصد تخلیق اور اس ابتکاری صلاحیت کے مصدر و ماخذ کو بھول بیٹھا ہے۔
پرائیویٹ وبیرونی تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تدریس کا سر سے انتظام ہی نہیں۔سائنسی مضامین کے اساتذہ کا تقرر مکمل قابلیت اور معیار کو چک کیا جاتا ہے اور پھر ان کی خدمت معاوضہ کی صورت میں بھی بہتر طور پر کی جاتی ہے مگر افسوس ہے کہ اسلامیات کی تدریس اور اس کا امتحان متعدد تعلیمی اداروں میں شامل نصاب ہے ہی نہیں جیسے کہ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے منتظمین صرف سائنسی مضامین کا ہی امتحان لیتے ہیں جس کے سبب وہ سکول جو اس ادارے کے زیرانتظام ہیں وہ اپنی اسلامی و ایمانی اور قومی ذمہ داری کو نبھانے سے اجتناب کرتے ہیں ان کا مقصود صرف پیسہ ہوتاہے اور وہ سائنسی مضامین میں اعلیٰ درجہ حاصل کرنے والے طلبہ کو ہی اداکیا جاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے عصری تعلیمی اداروں کی ترجیحات میں نقص و خلل موجود ہے کہ وہ سائنسی و تجرباتی علوم کے میدان میں اپنی خدمات و کوششوں کو بہتر سے بہتر بناکر پیش کرنے کی جدودجہد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہتمام بھی کرتے ہیں کہ ان کے پاس اساتذہ ماہرعلم و فن ہونے چاہیں مگر غیر سائنسی علوم اور خصوصا اسلامیات ایک ایسا مضمون بن چکا ہے کہ جس کی تعلیم کے لئے کسی بھی طرح کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔اسلامیات کی تدریس کے لئے ایسے اساتذہ کا تقرر کیا جاتاہے جو صرف زبانی یا بطور حفظ اس مضمون کو یادکرکے بچوں کے سامنے ریکارڈنگ و اپنی صوت وآوازکے ساتھ منتقل کردیں مگر خوداسے اس مضمون کی حقیقت و روح کو سمجھنا اور طلبہ کو تفہیم کراناضروری نہیں سمجھا جاتا۔اسلامیات کے مضمون کی تدریس کے لئے ماہر اسلامیات یا اس شعبہ کے متخصص اساتذہ کا اہتما م اور تلاش کرنا ناپید عنقا ہے بلکہ دیگر مضامین کے اساتذہ حصول برکت یا وقت گذاری کے لئے اس کی تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کو نصاب میں شامل کتاب ہی صرف یادکروائی جاتی ہے تاکہ وہ امتحان میں پاس ہوسکے مگر اس امرسے اعراض کیا جاتاہے کہ یہ ایک ایسامضمون ہے جس کا پڑھنا اور پڑھانادونوں عبادت ہے ۔مگر چونکہ مادیت اور تجارت کے عنصر نے ہمیں اندھاوبہرہ کردیا ہے کہ ہم اپنی عاقبت کی فکر سے غافل ہوگئے ۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ یہی تعلیم یافتہ نوجوان جس کی اسلامی و اخلاقی تعلیم و تربیت میں تغافل سے کام لیا تھا جہاں پر وہ اسلام و دین کی تفہیم و تعلیم سے جاہل ہوتاہے وہیں پر وہ معاشرہ میں فتنہ و فساد کے فروغ دینے کا موجب بھی بنتاہے۔وہ نہ تو والدین کا ادب کرتاہے ،نہ ہی چھوٹوں پر شفقت،نہ ہی انسانیت کا درد ہوتاہے اس کے سینے میں ،اس کے ساتھ وہ ایک بے حس و بے حیا اور خود غرض انسان بن جاتاہے ۔جس کا ظاہری ثمرکرپشن ،چورپازاری اور لوٹ مار،رشوت کی صورت میں ملتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اسلامیات کو بنیادی و اساسی حق دیا ہی نہیں جاتااس کی تدریس کے لیے مفت خدمات پیش کرنے والے حضرات کی جستجو کی جاتی ہے جب ایسا ہوگا تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ استاذ اس سبق اور مادہ پر اس حیثیت سے محنت نہیں کرے گا کیوں کہ اس کو اپنی ذاتی زندگی کے گذربسر کے لیے جیب خرچ کی تو ضرورت ہوتی ہی ہے جو اسے کسی دوسرے مقام پر کام کرکے حاصل کرنا پڑتی ہے۔یا پھر سکول و کالج میں موجود یگرمضامین کے اساتذة سے خدمات مسعار لی جاتی ہیں اور اس صورت میں بھی اساتذہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلوار کررہے ہوتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ سکول وکالج میں اساتذہ یا تدریس کے فرائض کماحقہ ادانہیں کرتے کہ ان کی حرس و ہوس ہوتی ہے کہ بچہ ان الگ فیس اداکرکے اکیڈمی میں ان سے استفادہ کرے ۔اسی طرح سکول وکالج کی انتظامیہ بھی طلبہ سے بھاری بھر فیسیں وصول کرلیتے ہیں مگر ان کی تعلیم و تدریس اور خصوصاً اسلامیات ،اردو،مطالعہ پاکستان جیسے مضامین کی معیاری تدریس کا انتظام نہیں کرتے اگر میں یوں کہوں کہ وہ ادارے طلبہ کے مستقبل کو تاریک بنانے میں اہم کردار اداکررہے ہوتے ہیں۔
اس سلسلہ میں مولانا ابوالحسن علی ندوی تعلیمی اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہاہے کہ ”عہد حاضر کے ماہرین تعلیم نے اتفاق کیا ہے کہ”تعلیم کوئی ایسا تجارتی سامان نہیں ہے جو درآمد یا برآمد کیا جاسکے ،مثلاًمصنوعات ،کچامال یا وہ ایجادات و ضروریات جو کسی ملک اور علاقہ کے ساتھ مخصوص نہیں ،وہ ایسالباس ہے جو ان اقوام کے قدوقامت و جسامت کی ٹھیک ناپ کے مطابق تراشااور سیاجاتاہے اور پسندیدہ و محبوب علم و فن اور ان مقاصد کو سامنے رکھ کرتیارکیا جاتاہے جن کے لئے وہ ہر طرح کی قربانی دے سکتی ہیں،تعلیم صرف اس عقیدہ کو مضبوط کرنے کا ایک مہذب و شائستہ طریقہ ہے جس کا حامل یہ ملک یا قوم ہے ،اس کا مقصد فکری طورپر اس کو غذا دینا،اس پر اعتماد کرنا اور اگر ضرورت ہو تو علمی دلائل سے اس کو مسلح کرنا ہے،وہ اس عقیدہ کے دوام و بقاکا وسیلہ اور بے کم وکاست آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہیت،نظام تعلیم کی بہترین تعریف یہ ہے کہ والدین اور مربیوں اور نگرانوں کی اس سعی پیہم کا نام ہے جو وہ اپنی اولاد کو اپنے دین و ملسک پر قائم رکھنے کے لئے کرتے رہتے ہیں ۔اور ان بچوں کی اسطرح تربیت کرنا کہ وہ ان کے ورثہ کے جسے انہوںنے اپنے اباو اجدادسے حاصل کیا تھا کے صالح و اہل وارث و امین ثابت ہوں،اور ان کے اندر اس ثروت میں اضافہ اور توسیع اور اس کو ترقی دینے کی پوری صلاحیت ہو۔
برطانیہ کے ماہرین تعلیم کی ایک رپورٹ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیاہے کہ”ریاست کا مفاد اس میں ہے کہ وہ دیکھے کہ اسکولوں کے ذریعہ قومی زندگی کے کامل اجزاء نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے ہیں ،اس کا کام ہے کہ یہ دیکھے کہ طلبہ قومی مفاد کے مقررہ معیار کی کارکردگی کو قائم رکھتے ہیں اور اسے ترقی دیتے ہیں ،ریاست کی ظاہری تعلیمی سرگرمی کے پس پشت غیرمرتب لیکن معاشرہ کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ بچے قومی اور اباکی خصوصیات کے جانشین بنتے ہیں۔
اسی پس منظر میں علامہ اقبال ،علامہ اسد اور مولانا ابولحسن علی ندویو دیگرعلماء جنہوں نے مغرب اور مغربی تعلیمی اداروں کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا جائزہ لیا وہ اس امر پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو مغربی نظام و نصاب تعلیم سے وہ کچھ حاصل کرنا چاہیے جس کی حاجت و ضرورت عصر حاضر میں لازم و مستلزم ہو ہاں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کو اختیار جکرنے سے اجتناب کیا جائے کیوں کہ وہ مادیت و نفسانیت کا درس دیتی ہے اور رب کریم کی رضاو منشاء سے دورکردیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ان حضرات نے پاکستان و مسلم ممالک کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ اپنے نظام و نصاب کا ازسرنو جائزہ لیں کہ جہاں پر اصلاح و تجدید کی حاجت ہو اس کو مکمل کریں اور یہ پیغام دینی و عصری تمام تعلیمی اداروں کو دیاگیا ہے۔کہ دینی ادارے عصری ضرورتوں کا احساس رکھتے ہوئے اپنے نصاب میں ترمیم کریں کہ مسلم عالم صرف مسجد و مدرسہ میں ہی اپنے فرائض انجام نہ دے بلکہ سماجی زندگی میں مشغول و مصروف انسانوں کی رہبری کی سیاسی و سماجی ،معاشی و معاشرتی قیادت کی باگ دور سنبھالنے کے ساتھ ان کو دعوت فکر و اصلاح بھی دے سکے ۔اسی طرح عصری اداروں پر بھی لازمی ہے کہ وہ سائنسی وتجرباتی علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی و نظریاتی علوم کا بھی اہتمام کریں کہ جس کے نتیجہ میں سعاد ت دنیوی کے ساتھ سعادت آخرت بھی متحقق ہوجائے اور سماج و معاشرہ سے بیماریوں اور فساد و انتشار کا خاتمہ ہوسکے۔
مندرجہ بالاتحریرمیں نہایت اختصار کے ساتھ میں نے تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تدریس و تعلیم پر بات کی ہے ۔جس سے واضح ہوجاتاہے کہ ادارے اسلامیات کے مضمون کی یا تو تدریس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے یا پھر وہ رعایتی و جزوقتی اساتذہ سے کام چلاکر طلبہ کے مستقبل کو برباد کرتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ جب ایساہوگا ہماریسماج و معاشرہ میں تو انسانیت و اخلاقیت کا جنازہ نکل جاناباعث افسوس و ندامت نہیں ہونا چاہیے۔اگر نوجوان بچہ کسی بھی طرح کی دہشت گردی و انتہاپسندی میں شامل ہوجاتاہے تو ہمیں متحیر ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہم نے خود اس کی تعلیم و تربیت کی فکر نہیں کی تھی۔ایک طرف اسلامیات و اخلاقیات اور انسانیت کی تعلیم و ترغیب نہیں اور دوسری طرف وہ نوجوان جو ان صفات سے متصف ہیں ان کو سماج میں باعزت روزگار فراہم نہیں کیا جاتاقریب ہے کہ جس کا نتیجہ کسی بڑے خطرہ کا پیش خیمہ ثابت ہوجائے ۔لہذا حکومت وقت اور تعلیمی اداروں کے سربراہان اور معاشرہ پر لازم و ضروری ہے کہ وہ اپنے معاشرہ میں اسلامیات کی تدریس کا اہتمام کرائیں اور جو تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ان کو باعزت روزگار دلوانے میں اپنا کردار اداکریں ورنہ یہ ہو کہیں دیر ہوجائے خبر لینے میں۔۔۔۔۔۔۔۔! اگرچہ یہ موضوع مزید گفتگوو تحقیق کا طالب ہے مگر وقت کی قلت کے باعث میں علامہ اقبال کے ان اشعار پر خاتمہ کرتا ہوں کہ:
ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذت کردار نہ افکار عمیق
حلقئہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں ہائے محکومی و تقلید و زوال تحقیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
تحریر : عتیق الرحمن (اسلام آباد)
0313-5265617
atiqurrehman001@gmail.com