تحریر : مبارک علی شمسی
ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اور ہمارے دین اسلام نے ہمیں علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے اور تعلیم کا حصول مسلمانوں کے لیئے مذہبی فریضے سے کم نہیں ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاکیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے وطن عزیز کے نونہالوں کو علم سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ علم ایک ایسی قوت اور دولت ہے جسے نہ کوئی چوری کر سکتا ہے اور نہ دھوکہ دہی سے چھین سکتا ہے۔ علم کو جتنا خرچ کیا جائے یہ اتنا زیادہ برھتا ہے۔ یہ علم ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان ارتقاء کی منزلوں کو عبور کرتا ہوا موجودہ ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا ہے۔ علم ہی کی بدولت انسان نے سطح زمین پر بالا دستی حاصل کی ہے بلکہ زمین کا سینہ پھاڑ کر قیمتی معدنیات تک بھی رسائی حاصل کرتے ہوئے خلاء کو بھی تسخیر کر لیا ہے۔
پاکستان میںتعلیم کا پہلا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر شہری اپنے ملک کی فکر ی و سیاسی اسا س اور اسلامی نظریہ حیات کو اچھی طرح سمجھے اور اسے اپنائے ، وطن سے محبت اور ملک کے دوسرے شہریوں سے مساوات ، انصاف اور بھائی چارے کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے۔ تعلیم کا دوسرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کی مددسے شہری اپنے اندر حقوق و فرائض کا مکمل احساس اور شعور پیدا کرے تاکہ وہ اچھا شہری بنے اور اس طرح اس کی سوچ اور اسکا عمل معاشرے کی فلاح اور ترقی میں ممدو معاون ثابت ہو سکے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے ترقی کی منازل عبور کیں انہوں نے یہ سب راتوں رات ہی نہیں حاصل کیا بلکہ اس کے لیئے صدیوں تک حکمت عملی اور اصول واضع کیئے جن قوموں نے اپنے وجود کو تادیر قائم رکھنے کی روش اختیار کی انہوں نے اپنے نوجوانوں کی ترقی کو مقدم رکھا۔ پاکستان کو دنیا کے 200 سے زائد آزاد یا خود مختار ممالک میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ یہاں نوجوان آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں۔ وطن عزیز میں نوجوانوں میں تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحان کیوجہ سے حکومتی اورنجی سطح پر تعلیمی اداروں میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
جن میں گورنمنٹ سکولز سمیت پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن (PEF) ، نیو سکول پروگرام (NSP) ، نظریہ پاکستان سکول سسٹم (NPSS) سرفہرست ہیں ان میں نجی (پرائیویٹ) تعلیمی اداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جنکی وجہ سے ملک میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے۔ اقتصادی جائز ے کیمطابق ملک میں خواندگی کی شرح65 فیصد ہے لیکن 5 سال سے 9 سال کی عمر کے 67 لاکھ بچے سکول ہی نہیں جاتے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیئے سکول نہ جانے والوں میں 39 فیصد لڑکے اور 46 فیصد لڑکیاں ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیئے پنجاب میں 93 فیصد بچے سکول جاتے ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں یہ تناسب پنجاب سے کہیں کم ہے۔ پاکستان اپنی خام ملکی پیداوارکا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور2018 تک یہ فنڈ دگنا کر دیا جائے گا۔
ترقی یافتہ ، مذہب و جمہوری معاشروں میں اساتذہ کو ازحد عزت و احترام کا مقام حاصل ہوتا ہے ابتدائی اور ثانوی تعلیم جہاں قوم کے مستقبل کو تعمیر کرنے کی بنیاد رکھی جاتی ہے اسی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا رہاہے۔ اسکی ایک واضع مثال یہ ہے کہ پنجاب بھر میں صوبائی حکومت نے نئے پرائمری سکول کھولنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلہ کے بعد آئندہ پنجاب کے کسی بھی ضلع ، تحصیل اور یونین کونسل میں سرکاری پرائمری سکول نہیں کھولا جائیگا۔ یوں غریب اور نادار آدمیوں کے بچے ابتدائی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ وہ پرائیویٹ سکولوںمیںبھاری فیسوں کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ یوں ان بچوں کامستقبل تاریک ہو جائیگا۔ حکومت کی اس تعلیم کش حماقت کیوجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا اور ہمارا ملک ناکام ریاستوں میں سرفہرست کھڑا ہو گا۔ ترقی یافتہ قومیں وقت ضائع نہیں کرتیں اور اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ اپنے مفادپرست بے حس حکمرانوں کی وجہ سے ناکامیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
سانحہ پشاور نے ہمیں بہت گہرے زخم دیئے ہیں۔ جو کبھی بھی مندمل نہ ہو سکیں گے اور آرمی پبلک سکول کے شہدا کی یادیں ہمارے نہاں خانہ دلوں میں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔ سانحہ پشاور جیسے المناک واقعہ کے بعد بھی پنجاب حکومت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بارے موئثر اقدامات نہ کر سکی۔ اس اندوھناک سانحہ کے بعد حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کو دیئے جانیوالے 20 نکاتی حفاظتی پروگرام پر صیح طریقے سے عمل درآمد نہ ہو سکا۔ پنجاب کے اکثر پرائمری، مڈل اور سیکنڈری سکول چار دیواری جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں اور وہ بھی ایسے حالات میں جب دہشتگردعناصر تعلیمی اداروں (درس گاہوں) کو اپنی شرپسندانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں بدامنی ، بے یقینی اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے تعلیمی اداروں اور پبلک پلیس پر سخت حفاظتی انتظامات بنیادی اور انتہائی اہم ضرورت ہیں۔ مگر حکومتی مشنری کی ناکامی کیوجہ سے ملک کے مستقبل کے معمار سیکورٹی پر مامور ہیں۔ جو کہ حکومت کے لیئے شرم ناک بات ہے۔ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر حکومت سکولز میں سیکورٹی گارڈ ز بھرتی کر کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی یقینی بنائے تاکہ ہمارے ملک کا مستقبل اور مستقبل کے معمار محفوظ رہ سکیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق صوبائی دارلحکومت لاہور کے سرکاری سکولوں میں سے 20 فیصد چار دیواری سے محروم ہیں۔ اسی طرح صوبہ پنجاب کے اضلاع شیخوپورہ میں 25 فیصد ، ننکانہ صاحب 23فیصد، پاکپتن میں 36فیصد، ساہیوال میں 32فیصد، جھنگ میں 51 فیصد، وہاڑی میں 40فیصد، مظفر گڑھ میں 48 فیصد، جھنگ میں 51فیصد، بہاولنگر میں 60فیصد، خانیوال میں 30فیصد،رحیم یارخان میں 42فیصد،ملتان میں26فیصد،ڈی جی خان میں 40فیصد،راجن پور میں 69فیصد،لیہ میں 49فیصد،بھکر میں 43فیصد،میانوالی میں38فیصد،اٹک میں 19فیصد،چکوال میں 21فیصد،لودھراں میں 44فیصد،قصور میں 27فیصد،چنیوٹ میں 31فیصد،خوشاب میں 36 فیصد،جہلم میں 40 فیصد،سرگودھا میں 17 فیصد،منڈی بہاء الدین میں 50 فیصد،گوجرانوالامیں 23 فیصد،گجرات میں 39 فیصد،ناروال میں 24 فیصد،فیصل آباد میں 20 فیصداور بہاولپور میں 42 فیصد سکولوں کی چاردیواری کا نہ ہونا حکومتی نااہلی اور متعلقہ حکام کی کرپشن کا ایک جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ باقی حفاظتی انتظامات جن میں خاردار تار ، میٹل ڈیٹکٹر اور گارڈز وغیرہ تو بعد کی بات ہے۔ ایک طرف حکومت نے میٹروبس اور لیپ ٹاپ سکیموں پر اربوں روپے خرچ کر کے ملکی خزانے کا ضیاع کیا مگر تعلیمی اداروں کی حالت زار بارے نہ سوچا جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اللوں تللوں اور بے تکے منصوبوں پہ پیسہ برباد کرنے کی بجائے پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں پر خرچ کر کے انکو ہر لحاظ سے معیاری بنائے اور انکی سیکورٹی بارے ٹھوس اقدامات کر ے تاکہ ہمار ا مستقبل دہشتگردی سے بچ سکے اسی میں ہماری ترقی اور کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
تحریر : مبارک علی شمسی
mubarakshamsi@gmail.com