تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر
حکومتِ پاکستان کی طرف سے 2009 ء میں تمام تعلیمی اداروں کو یہ آرڈر جاری کیے گئے تھے کہ ادارے کی بائونڈری کم از کم آٹھ فٹ اونچی ہو اور اس پر تین فٹ کھاردار تار لگائی جائے۔ تمام تعلیمی اداروں کے مین گیٹس کے سامنے زِگ زیگ بیرئیر ہوںاور ٹرینڈ سکیورٹی گارڈزتعینات ہوں، لیکن حکومت کے اس آرڈر پہ چند ایک اداروں نے عمل کیا باقی اداروں نے اس حکومتی آرڈر کوہوا میں اڑا دیا۔ جن اداروں نے عمل کیا انہوں نے بھی محدود عرصے کے لیے ہی کیابعد میں اس کو پیسے کا ضیاع اور فضول گردانتے ہوئے ترک کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پشاور میں 16دسمبر 2014 ء جیسا المناک سانحہ پیش آیا، جس پر ہر آنکھ اشکار بار ہے اور اس کا نشان پاکستان کی تاریخ پر ایک گہرے زخم کی مانند ہمیشہ رہے گا، یہ ایک ایسا افسوس ناک واقعہہے کہ تاریخ میں اس سے پہلے ایسا واقعہ کہیں بھی رونما نہیں ہوا۔ کاش !ہم نے اپنی سکیورٹی کو بروقت مضبوط کیا ہوتا تھا تو ملک و قوم کے ان معصوم معماروں کی جانوں سے ہاتھ نہ دھونا پڑتا۔ 43سال قبل 16دسمبر 1971ء کو پاکستان کو پہلے ہی بہت گہرا زخم ”سقوطِ ڈھاکہ” کے طور پہ لگا، مشرقی پاکستان ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ ہو گیا۔ پاکستانی قوم کا یہ زخم ابھی تک بھرا نہیں تھا کہ امن دشمن عناصر نے زخم پہ ایک اور زخم ”سانحہ پشاور” لگا دیا۔ مگر اس سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے، ہمارے طلباء خوف زدہ نہیں ہیں، ہمارے اساتذہ اور والدین بھی اس گھنائونے فعل سے دلبرداشتہ نہیں ہیں بلکہ ہمارے طلباء پہلے سے زیادہ پر عزم نظر آ رہے ہیں،
لگتا ہے انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم نے تعلیم حاصل کر کے امن دشمن عناصر کے سفاک ارادوں کو مٹی میں ملانا ہے، اپنے ساتھی طلباء کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینااور ہمارے اساتذہ اور والدین بھی جان گئے ہیں تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے معاشرے سے دہشت گردی جیسے ناسور کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کو تعلیمی جہاد سے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ تعلیم ہی سے امن دشمن عناصر کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے۔ امن وسلامتی کے لیے پوری قوم سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ہے۔ سکیورٹی کے نام پہ چھٹیاں ہی چھٹیاں اچھی پالیسی نہیں ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد پہلے وفاقی حکومت نے تعلیمی اداروں کی چھٹیاں بڑھائیں پھر حکومت پنجاب نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے چھٹیوں میں اضافہ کر دیا۔ پہلے قبل از وقت موسم سرما کی چھٹیاں کروائی گئیں۔ پھر 12 ربیع الاول کی تقریبات کی سکیورٹی کے پیشِ نظرتعطیلات میں 12 جنوری تک اضافہ کیا گیا،
امکانات ہیں کہ مزید چھٹیاں 31 جنوری تک بڑھا دی جائیںگی۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پہلے ہی پڑھائی کے دن کم اور چھٹیوں کے دن بہت زیادہ ہیں ۔ حکومت کو سکیورٹی کے نام پہ چھٹیاں بڑھانے کی پالیسی چھوڑ کر سکیورٹی بڑھانے کی پالیسی پہ عمل در آمد کروانا چاہئے۔ اس طرح زیادہ عرصہ تعلیمی ادارے بند رکھنے سے ایک طرف تو طلباء کا تعلیم کا حرج ہو رہا ہے، تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں یہ تعلیمی سال کے تکمیل کے ماہ ہیں، ان میں چھٹیوں کی وجہ سے طلباء کا سلیبس مکمل نہیں ہو پائے گا، دوسری طرف امن دشمن عناصر اس بات پہ خوش ہوں گے ، تعلیمی ادارے بند کروا کے وہ اپنے ناپاک عزائم میں خود کو کامیاب سمجھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے طلباء جن کے حوصلے پست نہیں ہوئے، جن کے عزائم اِن امن دشمن عناصر کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے پختہ ہیں، ہم خود ہی تعلیمی ادارے بند کروا کے ان کے دلوں میں دہشت گردوں کا خوف پیدا کر رہے ہیں، ان کے حوصلوں کو پست کر رہے ہیں، ان کے عزائم کو کمزور کر ے ہیں، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس سب سے بڑی سکیورٹی، سب سے بڑی فوج یہ مستقبل کے معمار ہی ہیں، ان سے بڑھ کے سکیورٹی اور کیا ہو سکتی ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ ضلعی سطح پر تمام تعلیمی اداروں کے سربراہان ، اساتذہ اکرام اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کے لیے تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کریں ان ورکشاپس میں تعلیمی اداروں کے سربراہان ، اساتذہ اکرام اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو سکیورٹی کے حوالے سے تربیت دی جائے اور پھر تعلیمی اداروں کے سربراہان ، اساتذہ اکرام اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اپنے اپنے اداروں میں طلباء کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کریں اور خود پہ بھروسہ کرتے ہوئے طلبہ کی صورت میں سب سے بڑی افرادی قوت، سب سے بڑی فوج کی تربیت کریں۔ سکیورٹی کے پیشِ نظر چند سفارشات ہیں جن پہ عمل پیرا ہو کر ہم امن دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو مٹی میں ملا سکتے ہیں اور آئندہ سانحہ پشاور جیسے ہولناک سانحہ سے بچ سکتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی بائونڈری وال کی اونچائی 8فٹ سے کم نہ ہو، اس پر خاردار دار لگائی جائے۔ داخلی گیٹ پر ٹرینڈ سکیورٹی گارڈ تعینات ہو، داخلی گیٹ کے طور پر صرف مین گیٹ کو استعمال کیا جائے۔
ایمرجنسی گیٹ صرف ایمرجنسی کی صورت میں استعمال کیا جائے۔ چھٹی کے وقت طلباء کو ایک ساتھ گیٹ سے باہر نہ نکالا جائے بلکہ 50, 50کے گروپس کی شکل میں وقفے وقفے سے نکالا جائے۔ ادارے کی حدود سے 30 میٹر کی دوری تک کوئی غیر متعلقہ شخص اور گاڑی نہ آئے۔ چار دیواری کے اندر یا باہر 3میٹر تک کوئی درخت نہ ہو۔ اے پلس اور اے کیٹگری کے سکولوں میں CCTVکیمرے نصب کیے جائیں۔
پانی کی ٹینکی اور کولر کو ہر روز اچھی طرح چیک کیا جائے، پانی کی ٹینکی پر لاک والا کور ہو۔ سکول میں پڑی ہر چیز پر نظر رکھی جائے۔ ان سفارشات پر عمل کر کے ہم اپنے تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ مزید تعطیلات بڑھانا بہتر نہیں ہو گاکیونکہ ہم پر عزم ہیں امن دشمن عناصر کے ناپاک ارادوں کو مٹی میں ملانے کے لیے، سانحہ پشاور سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے، ہمارے طلباء خوف زدہ نہیں ہیں۔
ہمارے اساتذہ اور والدین بھی اس گھنائونے فعل سے دلبرداشتہ نہیں ہیں بلکہ ہمارے طلباء پہلے سے زیادہ پر عزم نظر آ رہے ہیں، لگتا ہے انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم نے تعلیم حاصل کر کے امن دشمن عناصر کے سفاک ارادوں کو مٹی میں ملانا ہے، اپنے ساتھی طلباء کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینااور ہمارے اساتذہ اور والدین بھی جان گئے ہیں تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے معاشرے سے دہشت گردی جیسے ناسور کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کو تعلیمی جہاد سے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ تعلیم ہی سے امن دشمن عناصر کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے۔ امن وسلامتی کے لیے پوری قوم سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ہے۔
تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر
Mob: 0300-4695424
Email: aliqaisar_dr2007@hotmail.com