تحریر: محمد محبوب ظہیر آباد
علم روشنی ہے جس سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ انسان کو علم اس لئے حاصل کرنا چاہئے کہ اس کی زندگی چین و سکون سے بسر ہو سکے اور وہ اپنے علاوہ انسانیت کے لئے بھی کچھ فلاح و بہبود کا ایسا کام کر جائے کہ رہتی دنیا تک اس کے علمی فوائد دوسروں کو پہنچ سکیں۔ اچھے علم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس علم سے انسان کو فائدہ پہونچے۔ آج انسان ڈگری کے اعتبار سے بہت تعلیم یافتہ ہورہا ہے لیکن اس کے اخلاق و کردار کے بگاڑ کے سبب اس کی تعلیم کا اثر نہیں پڑ رہا ہے اور انسان بڑے بڑے جرائم میں ملوث ہورہا ہے۔ بات پیشہ طب کی ہو یا دیگر پیشوں کی ۔ تعلیم ایک تجارت بن گئی ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا ماہر ڈاکٹر بنے۔ اس کے لئے ایم بی بی ایس میں داخلہ ایک کروڑ دے کر کرایا جارہا ہے اور ایم ڈی کے لئے دو سے پانچ کروڑ لگائے جارہے ہیں۔ فیس دیتے وقت بچے کے ذہن میں یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ آج اس کی میڈیکل کی تعلیم پر جو کچھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے اسے بعد میں دگنی چوگنی کرنا ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ پیشہ طب سے اخلاقیات ختم ہوگئے اور ڈاکٹر سفید کوٹ پہنے لٹیرے بن گئے۔ ایک زمانہ تھا جب حاذق حکما اور اطبا صرف نبض دیکھ کر مرض کی کیفیت جان جاتے تھے اور علاج کرتے تھے آج کے کروڑوں روپے خرچ کرنے والے ڈاکٹر مرض کی کسی علامت سے واقف نہیں ہوتے اور مریض کے ان سے رجوع ہوتے ہی مختلف قسم کے معائنے کروائے جاتے ہیں جن کی آدھی رقم سیدھے ان کے کھاتے میں آجاتی ہے۔ غیر ضروری دوائیں لکھنا اور دواخانے میں شریک کرتے ہوئے مریض سے بل کی شکل میں بھاری رقم وصول کرنا پیشہ طب کے جرائم میں شامل ہے۔ یہی حال قانون ‘پولیس’اور دیگر شعبہ جات زندگی کا بھی ہے کہ لوگ بڑی بڑی ڈگریاں لے رہے ہیں لیکن اخلاقیات کا سبق صفر ہے۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ زما نے کی ترقی کے ساتھ تعلیم میں اضافہ ہورہا ہے یا گراوٹ۔
ہر سال ہندوستان میں5ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ جب کہ ہندوستان کے سابقہ صدر سروے پلی رادھا کرشنا کے ایک ٹیچر سے صدرجمہوریہ ہند بننے کی یاد میں ان کے یوم پیدائش پر یہ یوم منایا جاتا ہے اور اساتذہ کو اعزازات دئے جاتے ہیں۔یوم اساتذہ کی تقاریب ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہیں کہ ہمارے سماج میں اساتذہ کی کیا اہمیت ہے ۔ اساتذہ معمار قوم ہوتے ہیں۔ وہ قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور انہیں تراش خراش کر قیمتی ہیرا بناتے ہیں۔ موجودہ دور کا تعلیمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ایک طرف تو موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جب کہ تعلیم کے بنیادی ذرائع قلم کتاب بلیک بورڈ سے آگے بڑھتے ہوئے تعلیمی وسائل میں پروجیکٹر’کمپیوٹر’لیپ ٹاپ’ اسمارٹ فون بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بات ہر زمانے میں محسوس کی گئی کہ ایک استاد کے روبرو علم حاصل کرنے کے لئے آنے والے طلبا زمانے کی ترقیات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور استاد اور شاگرد کے درمیان ترقی کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اساتذہ جس دور کی تعلیم حاصل کئے تھے طلبا کو اس سے آگے کی تعلیم دینا پڑتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اب طلباء تیز رفتار دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اسمارٹ فون اور کمپیوٹر چلانا جانتے ہیں۔
آج بچے گوگل اور یوٹیوب پر بیٹھ کر کسی بھی قسم کا پراجکٹ کیسے کیا جائے دیکھ لیتے ہیں اور ان کی مناسب رہبری ہو تو وہ اپنے دور تعلیمی میں بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس لئے آج کے بدلتے تعلیمی منظر نامے میں اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی مختلف قسم کے ٹریننگ کورسز کرتے ہوئے اپنے آپ کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ اگر اساتذہ کو کمپیوٹر چلانا نہیںآتا تو وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بہت پیچھے ہیں۔ اس لئے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ موجودہ دور کے تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ ایک سائنس کاٹیچر اگر ہضمی نظام کا سبق پڑھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے طالب علموں کو وہ ایسا ویڈیو بھی دکھائے جس میں ہضمی نظام کو سمجھایا گیا ہے۔ آج یوٹیوب پر اردو اور انگریزی میں تعلیمی اسباق سے متعلق مختلف ویڈیوز دستیاب ہیں جن کی جانب اساتذہ اپنے طلبا کی رہبری کر سکتے ہیں۔ Khan Academyنامی ویب سائٹ پر امریکی نوجوان سلمان خان گزشتہ کئی سال سے اسکول اور کالج کی سطح پر آن لائن ریاضی’طبعیات اور کیمیا کے اسباق پڑھارہے ہیں۔ ورچول یونیورسٹی ویب سائٹ پر کالج کی سطح مختلف ویڈیوز موجود ہیں۔ نیشنل انفارمیٹک سنٹر سے ہندوستان بھر کے منتخب کالجوں میں ماہر اساتذہ کے لیکچر ٹیلی کاسٹ ہورہے ہیں۔ منا ٹی وی پر تعلیمی لیکچر پیش ہورہے ہیں۔
اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنے آس پاس موجود ان علمی سہولتوں سے واقف ہوں اور انہیں موثر طریقے سے طلبا تک پہونچائیں۔ عموما سرکاری مدارس کے اساتذہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تنخواہ کا انتظار کرتے ہوئے دن گذارتے ہیں۔ لیکن ایسے ہی سرکاری اساتذہ میں کچھ ہیرے جیسے قیمتی اساتذہ بھی ہیں۔ جو دل لگار کر تدریس کرتے ہوئے طلبا میں مقبول ہیں۔ ایک ایسے ہی استاد نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اپنے تعلیمی انداز کو مثال دے کر سمجھایا کہ انہوں نے اپنے جیب سے ایک اسمارٹ فون نکالا جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس فون کو خریدنے کے لئے ایک ماہ کی تنخواہ صرف کی ہے۔ اس فون کی خوبی یہ ہے کہ اس میں چھوٹا پروجیکٹر ہے جس کی مدد سے فون میں موجود کسی بھی ویڈیو کو دیوار پر پیش کیاجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس فون کو اپنے کمرہ تدریس میں استعمال کرتے ہیں اور طلبا کو سبق سے متعلق تصاویر اور ویڈیو دکھاتے ہیں جس کی مدد سے ان کی تدریس موثر ہوتی ہے۔ انہوں نے دیگر اساتذہ پر بھی زور دے کر کہا کہ جب تک وہ اپنے سبق کو دلچسپ اور موثر نہیں بناتے اس وقت تک وہ ایک کامیاب معلم نہیں بن سکتے ۔
موجودہ تعلیمی نظام میں کتابی تعلیم سے زیادہ فنی اور عملی تعلیم پر زور دیا جارہا ہے ۔ یہی وجہہ ہے کہ موجودہ نصاب میں طلبا سے اسباق سے متعلق عملی کام اور پراجکٹ کروائے جارہے ہیں اور پرچہ سوالات میں بھی طالب علم کے مشاہدات پر مبنی سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر جغرافیہ کے سبق میں ہندوستان کا جغرافیہ پڑھانے کے بعد طالب علم سے اس کے علاقے کے جغرافیائی حالات پوچھے جاسکتے ہیں۔ کسی حادثے کو دیکھنے کے بعد کئے جانے والے عملی اقدامات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اس لئے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا کو موجودہ دور کی عملی مثالیں دیتے ہوئے تعلیم دیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ سبق کی بلند خوانی کروادی جائے اور طلبا سے کہا جائے کہ وہ ورک بک یا گائیڈ سے جوابات یاد کر لیں۔ اب تو طلباسے گفتگو کرنے اور ان سے مسئلے کا حل دریافت کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ دور کے اساتذہ بغیر تیاری کے کمرہ جماعت میں نہ جائیں۔ اور وہ اپنی معلومات کو اس حد تک تازہ کرلیں کہ وہ آج کے دور کے طلبا کے مختلف سوالات کے موثر جوابات دے سکیں۔ کالج کی سطح کے طلبا کی تدریس کے لئے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبا کی نفسیات اور ان کے مشاغل پر توجہ دیں۔ آج کالج کا ہر طالب علم اپنے ساتھ اسمارٹ فون رکھتا ہے اب طلبا کو فون سے دور رکھنا مشکل ہے۔
ایسے میں اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبا کو اسمارٹ فون کے مثبت استعمال کی جانب توجہ موڑیں۔ آج اسمارٹ فون میں بہت سے تعلیمی اپلیکیشن دستیاب ہیں۔ اردو کی مثال ہی لیجئے گوگل پلے میں کلیات اقبال۔کلیات غالب ۔کلیات پروین شاکر ۔ حکایات سعدی۔ اردو لغت اور دیگر دلچسپی کی کتابیں اور دیگر مطالعے کی چیزیں موجود ہیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ فون رکھنے والے طلبا کو ان اپلیکیشن کے حصول یا شیر اٹ کے ذریعے منتقل کرنے کی ترغیب دلائیں اور اس کے مطالعے اور اس میں سے کچھ لکھوانے کی کوشش کریں۔ کلیات اقبال سے منتخب اشعار لکھوانے کی ترغیب دلائی جاسکتی ہے۔ منتخب حکایات نامی کتاب سے پسندیدہ حکایات لکھوائی جاسکتی ہیں۔ اردو زبان کے فروغ میں اسمارٹ فون بھی اہم رول ادا کررہا ہے۔ اب فون میں اردو لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ اردو میں گوگل سرچنگ کے ذریعے اردو کے بیش قیمت مواد تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح طلبا میں تحریری وتقریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بھی اسمارٹ فون کارگر ہوسکتا ہے۔ گوگل میں دستیاب وکی پیڈیا سے کسی بھی موضوع پر معلوماتی مضامین حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ان موضوعات کے ویڈیو یوٹیوب سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔اس طرح طلبا مشغلے کے ساتھ مطالعے کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آج کی دور کی سہولتوں کے تعلیمی استعمال سے ہم آہنگ ہوں۔
کالج اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ انٹرنیٹ کا بہتر استعمال کریں۔ اور طلبا کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں۔ طالب علم چار تا چھ گھنٹے اساتذہ کے سامنے رہتا ہے اس کے بعد بھی وہ اپنے استاد سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ اس کے لئے فیس بک اور واٹس اپ اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ فیس بک پر طلبا کے لئے علمی گروپ قائم کرتے ہوئے انہیں اساتذہ سے رابطے میں رہنے اور دیگر اساتذہ کے تجربات سے ہم آہنگ ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طالب علم اور استاد میں اگر دوستانہ رویہ رہے تو طالب علم کالج کے اوقات کے علاوہ بھی دیگر اوقات میں اپنے استاد سے رابطے میں رہ سکتا ہے اور فیس بک یا واٹس اپ سے رابطہ قائم کرتے ہوئے اپنے تعلیمی مسائل کا حل دریافت کر سکتا ہے۔ اساتذہ خود کے لیکچر کے علاوہ دنیا بھر کے کسی بھی ماہر تعلیم کے لیکچر آن لائن سہولت ک ذریعے کرواسکتے ہیں۔ کمرہ جماعت یا ای کلاس روم میں پراجکٹر کی مدد سے اسکائپ کالنگ کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی مقام سے کسی ماہر استاد کا لیکچر کرانا اب انٹرنیٹ کی بدولت عام ہوگیا ہے۔ طلباء اب کتب خانے کا رخ نہیں کرتے اور وہ اپنے کمپیوٹر اور فون پر ہی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اب اصل کتاب کی جگہ ای بک نے لے لی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ای بک کے خزانے سے واقف رہیں۔ اردو میں ریختہ نامی ویب سائٹ پر بیش قیمت قدیم و جدید کتابیں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایف کی شکل میں لاکھوں کتابیں نیٹ پر دستیا ب ہیں جو آسانی سے ڈائون لوڈ کرنے کے بعد فون یا کمپیوٹر کے اسکرین پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ اب کوئی طالب علم یا کوئی استاد یہ شکایت نہیں کرسکتا کہ اسے کسی موضوع پر کوئی کتاب یا مواد دستیاب نہیں ہے۔
بات اگر مقابلہ جاتی امتحانات کی ہو تو ہمارے ہاں ساکشی ایجوکیشن نامی ویب سائٹ ہے جہاں تمام مسابقتی امتحانات کے سابقہ پرچہ جات اور معروضی سوال جواب پر مبنی بیش قیمت مواد تلگو اور انگریزی میں دستیاب ہے۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ دستیاب مواد کی جانب طلبا کی رہنمائی کریں۔موجودہ دور کے تعلیمی نظام کا اہم مسئلہ وقت کی تنظیم بھی ہے کیوں کہ مواد زیادہ اور وقت کم ہے۔ ایسے میں اپنے لئے کیا ضروری ہے اور کیا ضروری نہیں اس بات کا فیصلہ طلبا اپنے اساتذہ کے مشوروں سے کریں۔ اساتذہ طلبا کو بار بار اس جانب متوجہ کریں کہ طالب علمی کے زمانے میں اسمارٹ فون اور کمپیوٹر کا بہتر استعمال ضروری ہے۔ فیس بک اور واٹس اپ کا علمی ضروریات کے لئے استعمال ہو۔ آج کا نوجوان ساری دنیا سے تو رابطے میں ہے لیکن اسے اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کا وقت نہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے اخلاقیات پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ اور اخلاقیات کے بارے میں طالب علموں اور اساتذہ دونوں کو مثبت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بات سرکاری مدارس کے اساتذہ کی چلی تھی۔ ان دنوں دوپہر کے کھانے کی اسکیم ہر سرکاری اسکول میں ہے۔ اور اکثر جگہ شکایت ہے کہ کم طلبا کو کھانا کھلا کر زیادہ طلبا کے نام سے چاول اٹھائے جارہے ہیں اور اِضافی چاول چوری سے باہر فروخت کئے جارہے ہیں۔ معلمی کے پیشے کے لئے یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ چوری کرے لیکن یہ ہورہا ہے اور اساتذہ معطل ہوکر پیشہ معلمی کو بدنام کر رہے ہیں۔ اساتذہ کا وقت پر اسکول نہ پہونچنا۔ اسکول نہ جاکر دستخط کردینا۔
رشوت دے کر دستخط کروانا اسکول میں کمرہ جماعت میں جانے کے بجائے فضولیات میں وقت برباد کرنا۔ اور سرکاری مراعات کو اپنی ذات کے لئے استعمال کرنا جیسی بیماریاں عام ہیں۔ خاتون اساتذہ بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ۔ اسٹاف روم میں گپیں مارنا طلبا سے کام لینا اور وقت سے قبل اسکول سے گھر چلے جانا ان کے لئے عام بات ہے۔ اساتذہ کے اس کردار کو دیکھ کر عوام سرکاری مدارس میں اپنے بچوں کو پڑھانے سے کترارہے ہیں۔ ایک طرف حکومت سرکاری مدارس کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے بھاری سرمایہ صرف کر رہی ہے دوسری طرف اساتذہ کے کردار کا یہ عالم ہے۔ تلنگانہ میں حکومت نے حاضری میں باقاعدگی لانے سرکاری ملازمین کے تھمب امپریشن پر مبنی بائیو میٹرک حاضری نظام جاری کیا اور دوسری طرف اسکالرشپ بے قاعدگیوں کو دور کرنے طلبا کے آن لائن داخلوں کا نظام شروع کیا گیا ہے۔ لیکن چور دروازوں سے حکومت کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ ہر دو جانب سے جاری ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اخلاقیات کی تعلیم کو عملی طور پر لاگو کیا جائے۔
آج انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں اخلاقیات اور انسانی قدریں اور ڈگری کے نصاب میں قدری تعلیم جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے لیکن اساتذہ اس نصاب کو دلچسپی سے نہیں پڑھا رہے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سماج سے ان افراد کو مدعو کی جائے جن کا سماج میں ادب اور مقام ہے اور لوگ ان کی بات کو مانتے ہیں۔ مذہبی رہنمائوں اور سماجی مصلحین کو مدعو کی جائے اور ان سے لیکچر کروائے جائیں۔ طلبا میں اپنے مذہب کا شعور بیدار کیا جائے۔ اساتذہ کی تربیت کے لئے شخصیت سازی کے لیکچر کروائیں جائیں۔ اساتذہ اور طلبا دونوں اقدار کی پابندی کریں تو امید ہے کہ تعلیمی نظام میں آئے بگاڑ کا خاتمہ ہو اور اقدار کے حامل صالح نوجوان ملک کی تعمیر کے لئے تیار ہوں گے۔ ورنہ تعلیم میں ترقی تو ہورہی ہے لیکن اقدار کے بگاڑ کے سبب تعلیم کے نتائج فرد اور سماج کو نہیں مل رہے ہیں۔ اس لئے اس یوم اساتذہ پر اساتذہ کے لئے یہی پیغام ہے کو وہ عصر حاضر کے تکنیکی اور سماجی تقاضوںسے واقف ہوں اور ان سے ہم آہنگ ہوکر ایک مثالی استاد بنیں۔
تحریر: محمد محبوب ظہیر آباد