امراؤ جان ادا مرزا محمد ہادی رسوا لکھنوی کا معرکۃ الآرا معاشرتی ناول ہے۔ امراؤ جان پیدائشی طوائف نہ تھی وہ شریف ذادی تھی اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ دس برس تک شریف والدین کے زیرسایہ زندگی بسر کی۔ پھر ایک منتقم مزاج شخص کے انتقام کی بھینٹ چڑھ کر اغوا ہوکر خانم کے کھوٹے پر پہنچی ۔ جہاں تعلیم و تربیت پا کر طوائف بنا دی گئی۔ شاعرہ تھی۔ قبول صورت تھی ، رقص و سرور میں ماہر تھی۔ ان خوبیوں کی بنا پر مشہور ہوئی جہاں جاتی سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی۔
بر صغیر میں مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور تقدیر کی ستم ظریفی کی وجہ سے 1857 کی جنگ آزادی بھی مسلمان ہار چکے تھے انگریزوں نے چونکہ حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور غدر میں بھی مسلمان ہی پیش پیش تھے اس لیے انگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کرلیں اور لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے پھانسی دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ انگریز نے اپنی مکارانہ سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے ہندوستان کے مسلمانوں کو تعلیمی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی طور پر زوال پذیر کردیا تھا۔ دوسری طرف ہندو انگریز کی چاپلوسی کر کے انگریزوں کے نور نظر بن گے تھے
انگریز کی تمام مہر بانیاں ان پر تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو مفاد پرست جماعت کی تشکیل کے لیے انگریز قانوں دان ہیوم نے 1885 میں آل انڈیا نیشنل کانگرس بنائی جو بظاہر تو ہندو مسلم دونوں کی جماعت ہونے کا دعوی کرتی تھی مگر اصل میں وہ صرف ہندو مت کی نمائندہ جماعت تھی جو انگریز کے بعد ہندوستان مین ہندو راج قائم کر کے مسلمانان ہند کو اپنا غلام بنانا چا ہتی تھی- جلد ہی مسلمانان ہند کوہندو ذہنیت کی دوغلی پالیسی سمجھ میں آنے لگی۔ مسلم مفادات کو نظر انداز کرنا، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور بداعتمادی کے متعدد واقعات نے مسلمان لیڈروں کو مایوس کیا اسلیے مسلمانوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے 1906میں ڈھاکہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی۔
پھر اسی آل انڈیا مسلم لیگ نے آگے چلکر تحریک پاکستان کی بنیاد ڈالی اور 14 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ کچھ عرصہ تک دونوں ممالک میں آل انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ کے نام چلے۔ آج انڈیا میں تو یہ انڈین یونین مسلم لیگ کے نام سے موجود ہےاور فی الحال ریاست کیرلا ، تامل ناڈواور مہاراشٹر میں متحرک ہے۔پاکستان میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی ایسا رہنما نہ تھا جو مسلم لیگ کو زندہ رکھتا لہذا ایک سرکاری ملازم غلام محمد نے 1953 میں مسلم لیگ کواذیت دئے دئے کر کومے میں بھیج دیا جو آج تک کومے میں ہی ہے۔
اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور 1962 میں جب وہ صدر بناتو اسکو ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو اس نے مسلم لیگ کا نام استمال کیا اور کنونشن مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی ۔ 1964 میں جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑرہی تھیں تو وہ امیدوار تھیں متحدہ حزب اختلاف کی جبکہ ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کا۔ کیا یہ یقین کرنے والی بات ہے کہ اپنی ساری زندگی مسلم لیگ میں گذارنے والی محترمہ فاطمہ جناح مسلم لیگ کے خلاف الیکشن لڑرہی تھیں ، یقینا نہیں کیونکہ اصل مسلم لیگ تو 1953 سے کومے میں ہے۔
ایوب خان کو اقتدار میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جو اس کی مرضی سے ناچتی رہے۔ ایوب خان کی کنونشن لیگ میں ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الہی دونوں شامل تھے۔ جب ایوب خان کا سورج غروب ہوا تو ساتھ ہی کنونشن لیگ کا ناچنا بھی ختم ہوگیا اور 1970 کے الیکشن میں کنویشن مسلم لیگ کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار نہیں تھے۔ ایوب خان کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے بھی ایوب خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کونسل مسلم لیگ کی تشکیل دی جس کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ تھے بعد میں خان عبد القیوم خان نے کونسل مسلم لیگ سے پاکستان مسلم لیگ قیوم کو جنم دیا۔ دونوں کامقصد وہی تھا ایک ایسی سیاسی جماعت جو اُن کی مرضی سے ناچتی رہے۔
پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا قیام 1973 میں کونسل اور کنونشن مسلم لیگ کے انضمام سے عمل میں آیا اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں اقتدار پر قبضہ کیا اور 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کروائے مگر نام نہاد الیکشن کے بعد اسکو بھی ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو 1985میں پاکستان مسلم لیگ ج، یا جونیجوکے نام سے بنائی گئی۔ جونیجو دراصل پیر پگارا کے دیئے ہوئے تھے مگر جب ضیاء الحق نے تمام نام نہاد مسلم لیگوں کو اکٹھے کیا اور محمد خان جونیجو کو اس کا سربراہ مقرر کیا تواس صورتحال میں پیر پگارا نے 1985 میں اپنی مسلم لیگ ف کو علیدہ کرلیا۔ اب جونیجو یا ج لیگ ضیاء الحق کے دربار میں ناچ رہی تھی۔
ضیاء الحق کی موت کے بعد محمد خان جونیجو کی جونیجو یا ج لیگ پر نواز شریف نے قبضہ کرلیا اور پھر ج لیگ ن لیگ بن گئی۔ مگر 1993 میں حامد ناصر چٹھہ، منظور وٹو اور اقبال احمد خان نے اسے پاکستان مسلم لیگ ج کے نام سے دوبارہ بحال کرلیا۔ پاکستان مسلم لیگ جناح1995 میں منظور وٹو نے حامد ناصر چٹھہ سے اختلافات کے باعث تشکیل دی۔ جنرل پرویز مشرف نےنوازشریف کو 1999 میں ہٹا کر اقتدار پرقبضہ کیا تو اسکو بھی ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو چوہدری شجاعت حسین اورنواز شریف کے باغیوں نے مسلم لیگ ق مشرف کی جھولی میں ڈال دی ، پہلے اس کے سربراہ میاں محمد اظہر ہوے بعدمیں چوہدری شجاعت حسین اس کے سربراہ بنے جو آج تک ہیں۔
ضیاء الحق کی طرح پرویز مشرف نے بھی نام نہاد مسلم لیگیوں کو 2004 میں اکٹھا کیا لیکن چند ماہ بعد پیر پگارا نے اس مشترکہ مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنی ف کو پھر بحال کرلیا۔مشرف کے دربار سے فارغ ہونے کے بعدضیاء الحق کے بیٹے اعجازالحق نے اپنے باپ کے نام پر ضیا مسلم لیگ کا اجرار کیا۔ایوب خان سے لیکر آجتک ان نام نہاد مسلم لیگیوں میں جس کا جی چاہتا ہے وہ مسلم لیگ کا اپنا دھڑا بنا لیتا ہے۔مشرف کو جب چوہدری شجاعت نے ہری جھنڈی دکھائی تو مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ بناڈالی۔ تازہ خبر ہے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے بھی پیپلز مسلم لیگ بنالی ہے۔
ہمارئے جنرلوں اور سیاستدانوں نے نام نہاد مسلم لیگ کا وہ حال کیا ہےجو ایک طوائف کا ہی ہوتا ہے۔ اب اگر ایسے میں چوہدری شجاعت حسین نےایک نام نہاد مسلم لیگ کا سربراہ ہوتے ہوئے ثقافت کے نام پرایک طوائف کا ناچ دیکھ لیا اور ہاں جس سٹیج پر بیٹھ کر وہ یہ ناچ دیکھ رہے تھے اسکے پیچھے قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر آویزاں تھیں تو کیا ہوا۔ آپ ان سے کیونکر توقع کرتے ہیں یہ کوئی اچھا کام کرینگے، شاید ان کو تو ٹھیک طرح قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارئے میں بھی معلوم نہ ہو۔ ان کو کیا معلوم مسلم لیگ کیوں بنی کیسے بنی کس نے کیا قربانی دی، ان باتوں سے ان کو کیا مطلب یہ جو آج اپنے اپنے نام نہادی مسلم لیگ کےسربراہ بنے ہوئے ہیں ان کے باپ دادا میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کبھی قائد اعظم کی شکل بھی دیکھی ہو۔ یہ تو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کےلیے نام نہاد مسلم لیگ کو نچارہے ہیں، شاعرفقری نے کیا خوب کہا ہے
شور ہوتا رہا مے خانوں میں
حسن لٹتا رہا ایوانوں میں
رات ڈھل جانے کو تھی جب فقری
سسکیاں مل گئیں آذانوں میں
امراؤ کے کردار میں تدریجی تبدیلیاں دراصل اس کی فطرت کی شریفانہ جوہر کی پیداوار ہیں۔ یہ جو ہر اسے ورثہ میں ملاتھا۔ اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہ طوائف کے گھناونے ماحول سے متنفر ہو چکی تھی اور اسے طوائف بن کر جینا پسند نہیں تھا۔ اس کردار کا یہ ارتقاءاس کی شخصیت و کردار میں عجیب مقناطیسی کشش پیدا کر دیتا ہے۔
قاری کی نظر میں مطعون اور مقہور ہونے کی بجائے رحم اور ہمدردی کی مستحق ٹھہر تی ہے۔ آخری عمر میں وہ سب کچھ ترک کر دیتی ہے۔ اور عام لوگوں سے بھی ملنے جلنے سے احتراز کرتی ہے۔ اور نماز روزے کی سختی سے پابندی کرنے لگتی ہے۔ آخر ی عمر میں کربلا معلی کی زیارت سے بھی فیض یاب ہوئی۔ اس طرح اس کردار کی تشکیل میں رسوا نے گہرا نفسیاتی مطالعے سے کام لیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا لکھنو ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے۔
قائد اعظم کی مسلم لیگ بھی وہی تھی جس نے جمہوریت کے زریعے اس ملک کو ایک مقصد کے لیے بنایا تھا۔ قائد کا مقصد تھا کہ نہ صرف مسلمان مذہبی طور پر آزاد ہوں بلکہ وہ معاشی اور سماجی طور پر بھی آزاد ہوں۔ مگر افسوس جس مسلم لیگ نے ہم سب کو پاکستان دیا وہ تو کومے میں چلی گی ۔ امید تو مشکل ہے لیکن شاید اللہ تعالی ہم پر مہربانی کردئے اور کوئی ایسا لیڈر آجائے جو اصلی مسلم لیگ کو کومے سے باہر لاسکے اور اس ملک کے عوام کو وہی سب دیکھنے کو ملے جو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خواب تھے۔ مگر ابھی تک تو ہمارئے حکمراں جنرلوں اور سیاستدانوں نے امراؤ کے کردار کی طرح ایک نام نہاد مسلم لیگ بنابنا کر اپنے اپنے فاہدئے میں نچایا یا نچارہے ہیں اور اس سے وہ صرف اور صرف پاکستانی معاشرہ اور مقصد پاکستان کی زوال پذیری کررہے ہیں۔ آغا شورش کاشمیری نے شاید اسی بات کو سامنے رکھ کر کہا تھا۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
تحریر: سید انور محمود