تحریر : غزالہ عصمت خان
ہر سال ہی نیا کیلینڈر آتا ہے اور نیا تعلیمی سیشن شروع ہوتا ہے ۔ ہر سال ہی جماعت میں نئے طالب علم آتے اور جاتے ہیں۔ اسی طرح نئی کتابیں آتی ،نئے یونیفارم، نئی اسٹیشنری معمول کا حصہ ہوتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل تعلیمی نظام سے بے زار طالب علم کی خودکشی کا وقعہ سامنے آیا ہے جو دل رنجیدہ ہو گیا۔ جس نوجوان نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اگر وہی بے زار ہے تو مستقبل کا کیا ہو گا۔کیا واقعی تعلیم طالب علموں کیلئے بوجھ بن گئی ہے؟ کیا ہمارے ملک کے نوجوانوں کی زندگی غیر اہم اور سستی ہے؟ تعلیمی نظام کی ترقی اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لئے ہر سال تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کرنا محکمہ تعلیم کی ذمہ داریوں میں شامل ہے تاکہ جدید تقاضوں کے مطابق مقاصد کی تدوین ممکن ہو۔
ہمارے ملک میں 69 برسوں میں تعلیمی نظام میں کس قدر بہتری آئی یہ ایک الگ نکتہ ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے سالوں میں طالب علموں کی خودکشی کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ طالب علموں کا خودکشی کا ارتکاب ایک سنگین المیہ ہے۔ خودکشی کا فیصلہ فوری طور پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے پیچھے بے شمار ذہنی الجھنیں کارفرما ہوتی ہیں۔ خودکشی کا ارتکاب کرنے والا اپنے مسائل’ محرومیوں’ ڈر’ مشکلات اور خطرات کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد یہ قدم اٹھاتا ہے۔ یہ جائزہ لیتے وقت کبھی تو وہ زندگی کی اہمیت اور امید کے تمام پہلوؤں کو یکسر ہی فراموش کر دیتا ہے اور کبھی انہیں بے سود اور اپنی ذات کے حوالے سے غیر اہم سمجھنے لگتا ہے۔ وہ ہر امید اور بہتری کا موازنہ اپنی محرومی اور لوگوں کے رویوں سے کرتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ان محرومیوں’ مشکلات اور خطرات کے ساتھ رہتے ہوئے یہ امید کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔
یہ سوچ اسے انتہائی قدم اٹھانے پر اکساتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالب علم جو ابھی عملی زندگی میں داخل ہی نہیں ہوئے ہوتے تو آخر وہ زندگی کے کس موڑ پر ہوتے ہیں جہاں انہیں مایوسی اور لاچارگی کی اس کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے؟ طالب علموں کے حوالے سے یہ قدم دو طرح کی کیفیات میں اٹھا سکتے ہیں: اوّل تو یہ کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں بار بار ناکامی سے دوچار ہوتے ہوں، یعنی مسلسل فیل ہونا یا پوزیشن یا متوقع نمبر حاصل نہیں کر پانا، یا داخلہ میں ناکامی۔ دوئم یہ کہ تعلیم ان کے لئے بوجھ اور پاس ہونا یا اچھے نمبر لینا مجبوری ہو اور وہ ناکامی کے ڈر سے دوچار ہوں۔
بظاہر تو کمزور طالبعلموں کے لئے ہی تعلیم بوجھ نظر آتی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے لائق طالب علم بھی تعلیم کے بعجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ اگر ہم سال بھر پہلے کی بات بھی کریں تو پرانی لگے گی کیونکہ ہر نئے سال کے ساتھ بچّوں سے والدین اور اساتذہ کو توقعات بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اعلی نمبروں سے کامیاب ہونا کچھ طالبعلموں کے لئے تو ایک چیلنج ہے لیکن ہر ایک کے لئے نہیں کیونکہ چیلنج کو قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر مضبوط ہونا بھی ضروری ہوتا ہے یہ اس لئے کہ چیلنج قبول کرنے کا مطلب ہر حال میں کامیاب ہونا نہیں بلکہ ہر حال میں صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ اور سب بچّوں کا ذہنی معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔فیل تو بہت سے بچّے ہوتے ہیں، اعلی گریڈ سے کم گریڈ کی طرف تنزلی بھی بت سے بچوں کی ہوتی ہے، ہر کوئی تو دلبرداشتہ ہو کر خودکشی نہیں کرتا۔ یہ قدم وہی اٹھاتے ہیں جو جذباتی طور پر کمزور اور ناکامی کے خوف کو دل و دماغ پر حاوی کئے ہوتے ہیں۔
ایسی شخصیت کی تشکیل میں ماحول کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ کبھی 5 سال کے بچہ اسکول میں داخل ہوتا تھا آج اڑھائی تین سال کی عمر میں ہی بچّہ کو اسکول میں داخل کر دیا جاتا ہے، اسکول میں داخل کرنے کے ساتھ ہی اس کا موازنہ دوسرے بچّوں سے ہوجاتا ہے اور ساڑھے تین چار سال کی عمر میں ہی اس سے اوّل آنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یوں بچّے میں اپنی کتابوں سے دلچسپی کی بجائے بس اچھے نمبروں کی کوشش کی توقع کی جاتی ہے۔ یعنی pre-school عمر سے ہی بچّے کے دماغ پر تعلیم کو بحیثیت بوجھ مسلط کر دیا جاتا ہے۔
اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آج سے دس سال بعد اعلی پوزیشن لینے کے حوالے سے مقابلے کا رجحان کس نہج پر پہنچا ہوگا اور اس تناظر میں بچّوں کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ کبھی رزلٹ کارڈ پر پاس Pass کا لفظ دیکھ کر خوشی اور اطمینان کا ظہار کیا جاتا تھا مگر آج پاس ہونے پر نہ والدین نہ ہی خود بچّے خوش ہوتے ہیں۔ یعنی علم حاصل کرنے کا مطلب اچھی پوزیشن لینے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر کردار سازی اور ہمہ پہلو نشوونما کی بات تو بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ بس اعلی گریڈ لیناہی تعلیم یافتہ ہونے کی ضمانت ہے۔ اسی رجحان نے بچّوں کو نفسیاتی طور پر ناکامی کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
ایم اے کی ایک ذہین طالبہ جو ہمیشہ پوزیشن لیتی تھی اس سے اس کی ایک سہیلی نے مذاق میں کہ دیا کہ رزلٹ آگیا ہے اور تم فیل ہو گئی ہو۔ یہ سنتے ہی اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس واقعہ سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ناکامی کا خوف ایک ذہین طالب علم کے دل و دماغ پر بھی حاوی ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ناکامی محض کم نمبر کا فیل ہونے تک محدود نہیں رہی بلکہ والدین اور اساتذہ کی توقعات اور کامیابی کے نام نہاد جدید رجحانات نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ امتحان میں ناکامی، یا کم نمبروں کی وجہ سے داخلہ میں ناکامی نوجوانوں کواس حد تو مایوسی کا شکار کر دیتے ہیں کہ وہ موت کا راستہ ہی اختیار کر بیٹھتے ہیں۔
دراصل بڑھتا ہوا تقابلی رجحان نوجوانوں میں مثبت سوچ کو کم کرتا جارہا ہے۔ کامیابی یا اپنی امید کو پا لینا ہی ان کے لئے زندگی کا مقصد بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں اور علم کو کارآمد بنانے کی بجائے صرف اس دائرہ تک محدود ہوئے رہتے ہیں کہ آخر اتنے نمبر کیوں نہیں آئے، آخر فلاں کالج میں داخلہ کیوں نہ ہوا؟ ایسے طالب علم ہوتے ہیں علم کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن اسے گریڈ سے مشروط کر دیتے ہیں۔ ایک لائق طالب علم کا کم نمبر لینے پر خودکشی کا ارتکاب کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فقط لائق تھا حوصلہ مند نہیں۔
کمزور جذباتی کیفیت کی وجہ سے اس نے جدوجہد کرنے کی بجائے زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ خودکشی کی سوچ رکھنے والے طالبعلموں میں حوصلے کی کمی ہوتی ہے۔ وہ مسائل سے نمٹنے کی بجائے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ انہیں اگر اپنی مرضی کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ بہت آرام سے تعلیم کو خیرباد کہہ دیں۔ چونکہ یہ اختیار انہیں نہیں دیا جاتا اس لئے وہ انتہائی قدم کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔
تحریر : غزالہ عصمت خان