اسلام آباد;حقوق انسانی کمیشن نے انتخابی عمل میں مخصوص سیاستدانوں پر یکطرفہ اور انتقامی کارروائیوں اورمیڈیا پر دبائو کے حربوں سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے واقعات سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کردیا۔ پیر کو کمیشن کے وفد نے اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا
سے ملاقات میں تحفظات پیش کردئیے۔ چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ انہیں بھی بعض شکایات ملی تھیں جن کا ازالہ کردیاگیا ہے تاہم انتخابات میں مداخلت کے کچھ الزامات میں ایکشن نہیں لیا جاسکا ، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو موصولہ ہر شکایت پرکارروائی ہوتی ہے۔ حقوق انسانی کمیشن وفد کی قیادت حنا جیلانی کررہی تھیں۔حقوق انسانی کمیشن نے انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کےلئے کھلی اور جارحانہ مہم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن نے کہا کہ حالیہ اقدامات نے انتخابات کے منصفانہ انعقاد پر شکوک و شبہات پیدا کردئیے ہیں۔ حقوق انسانی کمیشن کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسزکو غیرمعمولی اختیارات دینے پر گہرے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ساڑھے تین لاکھ سکیورٹی عملہ پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر متعین کیا جارہا ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کو سٹیشنز کے اندر مجسٹریٹ کے اختیارات بھی دیے گئےہیں جس سےانتخابی عمل کے دوران سویلین اورغیر سو یلین ذمے داریوں میں ابہام پیدا ہوجائے گا۔اداروں کی جانب سے سول مینڈیٹ میں یوں ملوث ہونےکا عمل نہایت خطرناک ہوگاکیونکہ ایسے اقدامات کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔حقوق انسانی کمیشن نے الیکشن کمیشن سے کہاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ اتنی بڑی تعداد میں
سکیورٹی عملہ کی موجودگی میں ووٹرز کو خوف زدہ نہیں کیا جا ئے گا، ان پردبائو نہیں ڈالا جائے گااوران پراثرانداز نہیں ہوا جائے گا۔حقوق انسانی کمیشن پاکستان نے اس امر پربھی تشویش کااظہار کیا کہ مخصوص سیاستدانوں کو انتقام کانشانہ بنایا جارہا ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ(ن) سے وابستہ ارکان کو سیاسی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیاگیا اور امیدو ار و ں سے کہاگیا کہ وہ ن لیگ کے ٹکٹ واپس کردیں۔ ملک کی دوبڑی اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ(ن) کوپنجاب اور پی پی پی کو سندھ میں ایسی ہی صورتحال کاسامناہے۔ حقوق انسانی کمیشن نےالزام لگایا کہ عوامی تاثر ہے کہ انتخابی مہم میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کئے گئے۔ مسلم لیگ(ن)، پی پی پی اورعوامی ورکرز پارٹی کے امیدواروں کو لا انفور سمنٹ اور سکیورٹی عملے نے انتخابی مہم کے دوران ہراساں کیا ان کی آمدورفت کو کسی معقول جواز کےبغیرمحدود کیاگیا ۔ان کے الیکشن بینرز کو مبینہ طور پر سیکورٹی اہلکاروں نے اتارا، ایچ آر سی پی نے الیکش کمیشن پر زور دیا کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں سے پولیس کے رویے کو بھی مانیٹر کرے، اور اس امر کو یقینی بنائے کہ تمام امیدواروں کو برابر کے مواقع میسر ہیں،کمیشن نے خبردارکیاکہ بعض
کالعدم تنظیمیں نام بدل کر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ ریاست ا نہیں الیکشن میں حصہ لینے اجاز ت دےکر ان کو سیاسی طور پر قانونی جواز فراہم کر رہی ہیں۔ وہ مسلسل مذہب کا استعما ل کر رہی ہیں، انتخابی مہم میں مذہب کا استعمال خطرناک نتائج کا حامل ہوگا۔ الیکشن کمیشن تحقیقا ت کرے کہ کس طرح کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد کے کاغذات نامزدگی درست تسلیم قراردیےگئے۔ کمیشن کو شدت سے احساس ہے کہ کالعدم تنظیموں کو سیاسی مواقع دینا خطرناک ہے،اس سے شدت پسندی میں اضافہ ہوگا، پشاور اورمستونگ میں دہشت گردانہ واقعات اسی کا شاخسانہ ہیں جن میں دو امیدواروں عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون بلوراوربلوچستان عوامی پارٹی کر سراج ریئسانی سمیت 175افراد لقمہ اجل بن گئے،حقوق انسانی کمیشن نے مطالبہ کیا کہ تمام سیاسی امیدواروں کو مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے ،کمیشن نے میڈیا پر بعض پابندیوں پر بھی گہری تشویش کااظہار کیا اس طرح کی کئی ایک مثالیں ہیں جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے حامی خیال کیے جانے والے صحافیوں یاسیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کےناقدین کو سنسر شپ،ڈرانے دھمکانے،ہراساں اوراغواکےواقعات کاسامناکرناپڑا۔ بعض علاقوں میں ڈان اور دی نیوز کی تقسیم پر غیراعلانیہ پابندی عائدکردی گئی ہے۔ اس سے پہلے جیو ٹی وی کی نشریات بلاک کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ یہ سب اقدامات عوام کے حق رسائی اور انتخابی عمل کے تجزیےکے بنیادی حق کی نفی ہیں۔ میڈیا پر اس طرح کے دبائو سے عوامی رائے کو قابو کرنا،تنقید بھری بحث سے دور رکھنااورمقتدر اداروں کو عوام کے سامنے جوابد ہی سے روکناہے۔ دریں اثنا ایچ اے آر سی پی نے نے تمام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن قواعد کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ ضروری ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے ساتھ رابطہ کریں ۔