جنرل پرویز مشرف اکثر مجھے ’’ہوئے تم دوست جس کے…‘‘ یاد دلانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ حال میں عزت و احترام کے ساتھ رخصت ہوئے راحیل شریف کے ساتھ ان کے سلوک پر غور کریں تو شاید آپ بھی میری طرح سوچنا شروع ہو جائیں۔
2013ء کے اختتامی ایام میں جب جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ قریب آرہی تھی تو میڈیا میں دفاعی امور کے ’’ماہر‘‘ بنائے صحافیوں کے ذریعے طولانی مضامین اور جناتی انگریزی کی بدولت ہمیں سمجھایا گیا کہ جانے والے کماندار نے اپنی پسند کے جانشین کی تعیناتی کو یقینی بنا لیا ہے۔ ان جانشینوں کو عصرِ حاضر کے جنرل منٹگمری اور پیٹن وغیرہ ثابت کرتے ہوئے کافی رعونت کے ساتھ جنرل راحیل شریف کو ممکنہ جانشینوں کی فہرست سے باہر رکھا گیا۔ ہمیں اطلاع دی گئی کہ موصوف کو ایک میڈی کور جنرل سمجھا جاتا ہے۔ نواز شریف نے مگر انتخاب ان کا کیا۔
وہ منتخب ہو گئے توان ’’ماہرین‘‘ کو فوراً یاد آگیا کہ راحیل صاحب کے خاندان کو ایک نہیں دو نشانِ حیدر نصیب ہوئے ہیں۔ وہ کھرے فوجی اور خاندانی محب وطن ہیں۔
پھر آپریشن ضربِ عضب شروع ہو گیا۔ آئی ایس پی آر کے کمپیوٹرز سے ٹویٹر کی برسات شروع ہو گئی۔ ’’ذرائع‘‘ دو ٹکے کے صحافیوں پر مہربان ہونا شروع ہو گئے۔ قوم کو اس بات پر قائل کرنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی پھیلانے والوں کو اپنے ’’بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ کہنے والے سیاستدان اس آپریشن کی حمایت کو تیار نہیں تھے۔ جنرل راحیل شریف نے ازخود قدم بڑھایا اور معجزانہ سرعت کے ساتھ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے ٹھکانوں کو ملیامیٹ کر دیا۔
شمالی وزیرستان کی صفائی کے بعد جنرل صاحب کی توجہ ان ’’معاشی دہشت گردوں‘‘ کا صفایا کرنے کی جانب مبذول ہوگئی جن کا مرکز کراچی تھا۔ وہ خود کو ’’لبرل‘‘ کہتی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی صفوں میں بہت نمایاں تھے۔ اپنے سیاسی اثر کی بدولت انہوں نے بھتہ خوری، ٹھیکوں اور نوکریوں کی فروخت سے اربوں روپے کمائے تھے۔ یہ دولت ڈالروں میں تبدیل کرکے سوٹ کیسوں میں بھردی جاتی۔ اسے غیر ملکوں میں منتقل کرنے کے لئے لانچوں کا سہارا لیا جاتا۔ یہ لانچیں پکڑی گئیں تو ایان علی جیسی خوبرو خواتین بدعنوانی سے جمع کئے ڈالروں کو دوبئی وغیرہ لے جانا شروع ہو گئیں۔ ایان علی بھی گرفتار ہوگئی اور اپنے ہسپتال میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کو علاج کی سہولت پہنچانے والے ڈاکٹر عاصم بھی۔
مذہبی اور معاشی دہشت گردوں کے خلاف برپا جنگ نے قوم کو ’’تھینک یو راحیل شریف‘‘ کا ورد کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان سے مطالبہ ہونے لگا کہ وہ ’’جانے کی باتیں نہ کریں‘‘۔ کراچی اور سندھ کو نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں سے صاف کرنے کے بعد رحیم یار خان سے اٹک تک پھیلے پنجاب کو بھی ایسے عناصر سے پاک کریں۔
پاکستان کے ایک صف اوّل کے سیاست دان عمران خان جن کی دیانت پر ان کے بدترین مخالف نے بھی کبھی سوال نہیں اٹھایا۔ 14اگست 2014ء سے کئی مہینوں تک اسلام آباد میں دھرنا دئیے ویسے بھی ’’ایمپائر‘‘ کی اُنگلی اُٹھنے کا انتظار کررہے تھے۔ جنرل راحیل مگر ’’دیدہ ور‘‘ بننے کو تیار نہ ہوئے۔ وقتِ معینہ پر پاک فوج کی کمان چھوڑنے پر ان کی رضا مندی نے قوم کی رہ نمائی پر اپنے تئیں مامور ہوئے دانشوروں کو اداس کردیا۔
تھینک یو کے بعد عادی بنائے جنرل راحیل شریف کو کمان چھوڑے ابھی ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ پرویز مشرف ایک ٹی وی سکرین پر رونما ہوئے اور بہت فخر سے یہ بیان کردیا کہ عدالتی عمل پر مؤثر انداز میں دبائو ڈال کر سابق آرمی چیف نے انہیں ملک سے باہر بھجوانا ممکن بنایا۔ انہیں نواز شریف کے ’’انتقام‘‘ سے بچایا۔
مختصر لفظوں میں درحقیقت سابق صدر نے دراصل یہ کہا کہ بوقت ضرورت جنرل راحیل شریف اپنے پرویز مشرف ایسے مربیوں کی سہولت کے لئے ’’سیاسی‘‘ بھی ہوجایا کرتے تھے۔ تھینک یو راحیل شریف‘‘ کی فضا بنانے کے لئے کئی مہینوں کی محنت وذہانت سابق صدر نے اس انٹرویو کے ذریعے ملیامیٹ کردی۔ ایک فرد-جنرل ریٹائرڈ مشرف- جس نے ایک نہیں دوبار آئینِ پاکستان کو بے اثر اور میری اور آپ کی ذات سے غیر متعلق بنادیا تھا ریاست کے تمام اداروں اور عدالتی نظام پر بھاری ٹھہرا۔ اس کی سہولت، آرام اور سکون ہماری عسکری قیادت کی اولیں ترجیحات میں شامل ہوئی نظر آئیں۔ حقائق خواہ کچھ بھی رہے ہوں، جنرل راحیل شریف کو اس انٹرویو کے ذریعے پرویز مشرف نے اپنا ’’سہولت کار‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔
پرویز مشرف یہ سب بیان کرتے ہوئے بھی لیکن جنرل راحیل شریف کے احسان مند نظر نہیں آئے۔ انہیں ایک حوالے سے گویا یقین تھا کہ نواز شریف کے ’’انتقام‘‘ سے بچانا حال ہی میں عزت و احترام سے ریٹائر ہوئے آرمی چیف کی ذمہ داری تھی۔
صرف جنرل راحیل شریف کو شاباش دیتے ہوئے پرویز مشرف بھول گئے کہ جب ان کا کارواں عدالت کی طرف جانے کی بجائے راولپنڈی میں موجود آرمی ہسپتال کی طرف موڑ دیا گیا تھا تو اس وقت پاک آرمی کی کمانڈجنرل کیانی کے پاس تھی۔ چکری کے دبنگ راجپوت اور ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان صاحب نے اس کارواں کو ہسپتال کی طرف لے جانے کی باقاعدہ اجازت دی تھی۔ ہسپتال میں کئی روز آرام کے بعد پرویز مشرف صرف ایک بار عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔ ان کی کمر کے درد کا علاج ڈھونڈنے کے لئے اس کے باوجود غیر ملک جانے کی اجازت ملنے میں کئی مہینے لگ گئے تھے۔ ظاہر ہے یہ سب جنرل کیانی کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ جنرل مشرف کی عزت برقرار رکھنے کے عمل کا آغاز ان کے دور میں ہوا تھا۔ راحیل شریف نے عزت بحالی کے اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ یہ سہولت بھرا انجام نواز شریف اور ان کے چودھری نثار علی خان جیسے دوراندیش مصاحبین کی معاونت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری جیسا سنگین مقدمہ کرنے والی نواز حکومت کے وکیل ہی نے عدالت کو اطلاع دی تھی کہ اسے علاج کے لئے پرویز مشرف کے غیر ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ پرویز مشرف کے چلے جانے کے باوجود اگرچہ عدالتیں اب بھی مختلف مقدمات میں ان کی پیشی کو یقینی بنانے کے احکامات صادر کرتی رہتی ہیں۔ سابق صدر کی جائیداد ضبط ہونے کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
سب سے تلخ اور بنیادی حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی پرویز مشرف صاحب نے وطن لوٹنے کی ہمت نہیں دکھائی تھی۔ این آر او ٹائپ مک مکا کی بدولت ہی وہ غیر ملک اطمینان سے مقیم رہے اور شاید آئندہ کچھ دنوں میں بھی وطن لوٹ کر اس قوم کی رہ نمائی کو پرویز مشرف تیا ر نہ ہوپائیں۔ ان کی مؤثر لانچنگ کے لئے اگرچہ کراچی کو کافی حد تک تیار کر دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف جیسے انوکھے لاڈلے مگر پکی پکائی کو رُعب دار ڈائننگ ٹیبل کی مرکزی نشست پر بیٹھ کر لطف اندوز کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کے لئے یہ میز کب سجائی جائے گی۔