تحریر : محمد صدیق پرہار
پنجاب کے کئی شہروں میں گزشتہ کئی دنوں سے سموگ اور دھند کا راج ہے۔ متعدد علاقوں حدنگاہ صفر بتائی جا رہی ہے۔ دھند کی وجہ سے ٹریفک حادثات بھی ہو چکے ہیں۔ان حادثات میں درجنوں افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سموگ اور دھند کی وجہ سے پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہوا ہے۔ متعدد پروازیں منسوخ اور تاخیر کا شکار ہوئیں۔ جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سموگ اور دھند کی وجہ سے امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں۔ آنکھ، ناک، گلے اور پھیپھڑوں کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی شہروں میں تو سانس لینا بھی دشوار ہو گیا۔
ان حادثات کی تفصیل لکھنے کی اجازت اس تحریر کادامن نہیں دیتا کیونکہ حادثات کی تفصیل لکھی جائے تویہ آرٹیکل بھی کم پڑجائے گا۔اس لیے حادثات کی تفصیل میںجائے بغیر سموگ اوردھندکے بارے میں ماہرین کی آراء ، حکومتی اقدامات اورعدالتی کارروائی پرہی بات کرتے ہیں۔پاکستان انوائرمینٹل سائنسزکے ممتازماہر ڈاکٹرجاوید اقبال نے کہاہے کہ زہریلی فضاء دھندنہیں زہریلادھواں ہے۔ جوخطرناک آلودگی کاایک شاخسانہ ہے۔
اس کوروکنے کیلئے برطانیہ کی طرزپرکلین ایئرایکٹ لاناہوگا۔لندن میں ١٩٥٢ء میں ایسی ہی فضاء کے باعث درجنوں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے اوروہاںپریہ ایکٹ سال انیس سوچھپن میں نافذ کر دیا گیا مگرہمارے ہاں آج تک یہ ایکٹ نہیں بن سکاآج بھی یہاں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ نافذ ہے جس کاتعلق فضائی آلودگی روکنے سے متعلق نہیں ہے۔ڈاکٹرجاویداقبال نے کہا خدانخواستہ لندن میںجوفضاء ١٩٥٢ء میںہوئی تھی اس کی شدت ابھی یہاںنہیں آئی لیکن اگراس پرکام نہ کیاگیا توپھروہ وقت دورنہیں جب یہاں بھی ایسے ہی خطرناک حالات پیداہوسکتے ہیں۔اس ایکٹ کے تحت آج بھی لندن میں چونے کی بھٹیاں، اینٹیں بنانے والے بھٹے ، سری پائے بھوننے، پرانی اورکھٹاردھواں چھوڑنے والی گاڑیاں شہری آبادی میں داخل ہونے پرپابندی عائد ہے۔
شہری آبادی کے پچاس کلومیٹرکے باہر ہی یہ قائم ہوسکتی ہیں مگرہمارے ہاں کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔یہاںتوہر دس کلومیٹر کے فاصلے پر آبادیاں ہیں ۔ یہاں پچاس کلومیٹرکی شرط عائد کردی جائے تو ہمارے کئی اضلاع میں ایسی چیزوںکانشان بھی نہیںملے گا۔ایک قومی اخبارکے فورم سے گفتگوکرتے ہوئے محکمہ تحفظ ماحوال پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمان نے کہا کہ گزشتہ دنوںشہرمیں ٹریفک زیادہ جام رہی جس کی وجہ سے دھواںجمع ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ بھارت میں کھیتوںمیںلگائی جانے والی آگ فیکٹریوں اورگاڑیوںکادھواں اوردیگرمحرکات بھی اس سموگ کی وجہ ہیں۔حکومت نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے نہ صرف کمیٹی بنائی ہے بلکہ محکمہ ٹریفک کوہدایت جاری کی گئی ہے کسی بھی جگہ ٹریفک جام نہ ہونے دیں۔شمالی لاہورمیںموجودتین سوفیکٹریوںمیںسے دوسوپچیس فیکٹریاں سٹینڈرڈ اختیارکرچکی ہیں ۔موٹرویز، ہائی ویزدیگرسڑکوں کے ساتھ درخت لگائے جا رہے ہیں۔
بلاوجہ گاڑیوں کااستعمال نہ کیاجائے۔میٹ لاہورکے ڈائریکٹر محمداسلم چوہدری نے کہا کہ دھواں اوردھندکے ملاپ سے سموگ بن گیا ہے۔جس کی وجہ سے آنکھوںمیں چھبن ، سانس کامسئلہ ودیگربیماریاں پیداہورہی ہیں۔سال انیس سوباون میں لندن میں سموگ کی وجہ سے بارہ ہزارلوگوںکی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔جس کی وجہ سے وہاں اس حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے۔ہمارے ہاں یہ پہلی مرتبہ نہیںہوا۔لیکن اس مرتبہ زہریلی گیسوںکی وجہ سے مسئلہ زیادہ ہے۔اس کے علاوہ بھارت میںکسانوںنے دھان کی فصل کوآگ لگائی ہے جس کی وجہ سے دھواںہواکے ساتھ یہاں آیا ہے۔اب اگرہواچلتی ہے بارش ہوتی ہے۔تویہ سموگ جلدختم ہوجائے گا۔جامعہ پنجاب شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹرمحمدنوازچوہدری نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں گاڑیاں ٹھیک نہیں ہیں ،ایندھن غیرمعیاری ہے،ماحولیاتی آلودگی پرقابوپانے کیلئے پالیسیاںبناناہوں گی۔اپوزیشن نے بھی آج تک پارلیمنٹ میں ماحولیاتی آلودگی کامسئلہ نہیں اٹھایا( اس لیے کہ اس سے سیاست پر کوئی اثرنہیں پڑتا) پارلیمنٹ میں اس پربحث ہونی چاہیے۔
صدرپی ایم اے پنجاب ڈاکٹراظہارچوہدری نے کہا کہ ہروہ بیماری جس کاتعلق سانس سے ہے ،حالیہ سموگ کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوسکتا ہے،لہذاتمام لوگوں خاص کرمریضوں احتیاطی تدابیراپنانی چاہئیں۔نمائندہ سول سوسائٹی عبداللہ ملک نے کہا گلوبل وارمنگ اورماحولیاتی آلودگی عالمی مسئلہ ہیں۔جبکہ ہماری توجہ اس طرف نہیں ہے۔حکومت کو ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے بروقت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ایک قومی اخبارمیں خبر ہے کہ گرداورھویں کے مرکب سے پیداہونے والی اس زہریلی دھندکے باعث شہری آنکھوںکی جلن، سانس کی بیماری، گلے کی تکلیف،نزلہ، زکام ،نمونیا،الرجی اوردمے میںمبتلاہوکر ہسپتالوں میں پہنچنے لگے ہیں۔ہسپتالوںمیں مریضوںکی بڑی تعدادسے سموگ کے اثرات کااندازہ لگانامشکل نہیں۔ہسپتالوںمیںمریضوںکارش ہے جن میںکم عمربچے اوربزرگ زیادہ متاثر ہیں۔
لاہور کے مختلف ہسپتالوںمیں صرف بارہ گھنٹوں کے دوران بارہ سوسے زائدمریض پہنچے۔چلڈرن ہسپتال میںآنے والے ایک ہزارمیں سے سات سوبچوںکوالرجی اورسانس کی تکلیف ہے۔طبی ماہرین کاکہنا ہے کہ شہری غیرضروری گھروںسے نہ نکلیں اورچہروںپرماسک اورچشمہ پہنیں۔دل کے مریض گھروںمیں رہ کربھاپ لیں،ٹھنڈے مشروب اورکھانے پینے کی کھٹی اشیاء سے پرہیزکیاجائے۔آنکھوںکوگردسے بچانے کیلئے باربارپانی سے صاف کریں،بچے اوربوڑھے اس موسم میں خصوصی احتیاط کریں۔ادھروزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیرخواجہ سلمان رفیق کاکہنا ہے کہ پنجاب میں دھویں اورگردوغبارسے متاثرہ علاقوںمیںصورت حال برقراررہی توفضائی آلودگی کاباعث بننے والے کارخانوں اوربھٹیوں کو بندکرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
گردو و غبار کی لہر کا مرکزسرحدپاانڈیاہے۔صورت حال سے نمٹنے کیلئے تمام متعلقہ اداروںکوالرٹ کردیاگیا ہے۔سرکاری ہسپتالوںمیںمتاثرہ افرادکے علاج کیلئے مناسب انتظامات کویقینی بنانے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔دوسری جانب صوبائی وزیرمحکمہ تحفظ ماحولیات بیگم ذکیہ شاہنوازنے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ٹریفک پولیس کوسموگ کے معاملے سے نمٹنے کیلئے فوری طورپرخصوصی اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کیں تاکہ موجودہ موسمیاتی صورتحال میں ٹریفک جام سے مکمل اجتناب کیا جائے۔محکمہ تحفظ ماحولیات کی ترجمان نے بتایا کہ صوبائی وزیرماحولیات ذکیہ شاہنوازکی خصوصی ہدایت پرشمالی لاہورمیں فضائی آلودگی پیداکرنے ،غیرمعیاری ایندھن استعمال کرنے اورزیادہ دھواں چھوڑنے پرانڈسٹریل یونٹس کیخلاف محکمہ تحفظ ماحولیات کی پانچ ٹیمیں سخت کارروائی کررہی ہیں۔جواب تک چونتیس فیکٹریوںکوسیل کر چکی ہیں۔
جبکہ مزید چارفیکٹریاںبھی سیل کی جاچکی ہیں۔ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہورنے شہر میں آلودگی پھیلانے کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے انیس فیکٹریوں کو سیل کردیاجبکہ دس فیکٹریوںکونوٹسزجاری کردیے گئے۔ڈائریکٹر محکمہ موسمیات محمدحنیف کے مطابق بارش نہ ہونے کے باعث آئندہ دوماہ میں سموگ کی شدت میں مزیداضافہ ہوجائے گا۔جس س انسانی صحت کوشدیدخطرہ لاحق ہے،محکمہ موسمیات کے مطابق بالائی پنجاب میں بارش کاکوئی امکان نہیں۔فضاء میںگردآلودھندرواںہفتے بھی برقراررہے گی۔
جبکہ نومبر اور دسمبر میں معمول سے کم بارشیں متوقع ہیں ۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ منصورعلی شاہ نے قراردیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہیں( یہ انسان کیلئے نعمت بھی ہیں۔یہاںلوگ کسی بھی موسم گرما اورسرماسے ایک ماہ میںہی اکتاجاتے ہیں۔ہم نے بہت سے لوگوںکویہ کہتے ہوئے سناہے کہ نہ جانے یہ سردیاں کب ختم ہوں گی، گرمیاںتوجانے کانام ہی نہیں لے رہی ہیں۔جب تین ماہ جاری رہنے والے موسموں سے لوگ اکتا جاتے ہیں ۔ اگریہ موسمی تبدیلیاں نہ ہوتیں ، موسم تبدیل نہ ہوتے اورایک ہی موسم رہتا تو اس وقت لوگوںکی کیاحالت ہوتی اس کااندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں ہے۔دنیامیںچارموسم ہی پائے جاتے ہیںجوانسان سمیت تمام جانداروں اوران کی متعلقہ ضروریات کیلئے ضروری ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کویہ چاروںموسم اپنے خاص کرم سے عطاء کر رکھے ہیں۔فصلات بھی ان موسموںکی وجہ سے ہی تیارہوتی ہیں۔اس لیے موسمیاتی تبدیلیاں دشمن نہیں بلکہ ان تبدیلیوں کے منفی اثرات سے عوام کو محفوظ رکھنے والے ذمہ دارہی اصل میںعوام کے دشمن ہیں) جنہیں نظر انداز کیاجارہا ہے۔سموگ شروع ہواتوافسران شہریوںکی راہنمائی کے بجائے گھروںکوچلے گئے۔حکومت پنجاب کی جانب سے سیکرٹری صحت ڈاکرساجد، سیکرٹری ماحولیات سیف انجم اورمحکمہ موسمیات کی طرف سے چیف میٹرلوجسٹ محمدریاض عدالت میںپیش ہوئے۔اس موقع پرحکام نے سموگ کاملبہ بھارت پر ڈال دیا۔
سیکرٹری ماحولیات نے بتایا کہ بھارت کے علاقے ہریانہ میں بتیس ملین ٹن چاول کی باقیات کوآگ لگائی گئی جس کا دھواں پاکستانی پنجاب میں دھندکے ساتھ مل کرسموگ بن گیا۔عدالت نے بیان پرحیرانگی کااظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بھارت کی بات چھوڑیں آپ یہ بتائیں کہ آپ نے کیااقدامات کیے۔صرف ہوامیں باتیںکرنے سے کام نہیں چلے گا ، حکومت تب کہاں سوئی ہوئی تھی جب بچے بیمارہورہے تھے۔بی بی سی کے مطابق سیکرٹری ماحولیات نے بتایاکہ انڈیاکی جانب سے ہوائیںآرہی تھیں تاہم اب یہ سلسلہ رک گیا ہے جس سے صورت حال میںبہتری آئی ہے۔اس پرچیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے باورکرایاکہ ہواچلنے سے صورت حال بہترہوئی ہے حکومت نے کیاکیاہے،سرکاری وکیل نے بتایاکہ عوام میں آگاہی مہم چلائی گئی ہے مزیدبھی چلائیں گے۔عدالت نے آگاہی مہم پرمشتمل دستاویزات طلب کیں تاہم حکام کوئی اشتہارنہ پیش کر سکے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس وقت پاکستان کوسب سے بڑاسیکیورٹی خطرہ ماحولیاتی تبدیلی ہے لیکن اس طرف دھیان نہیںدیاجارہا۔عدالت نے سیکرٹری صحت، سیکرٹری ماحولیات کی سرزنش کرتے ہوئے مزیدریمارکس دیئے کہ حکومت کے پاس سموگ پرقابوپانے کیلئے عملی طورپرکوئی بھی بات موجودنہیں۔سب باتیں ہوامیںکرکے وقت گزاراجارہا ہے۔سیکرٹری صحت نے کہا کہ سموگ کے نتیجے میں آنکھوں اورناک کی بیماریوںکی شکایات موصول ہوئی تھیں جس کے بعد شہریوں کوغیرضروری سفرسے گریزکرنے باربارمنہ دھونے ، دن میں دومرتبہ نہانے، آٹھ گلاس پانی پینے کی ہدایت کی گئی ،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں حکومتی کمیٹیوں اورافسران کے اجلاس سے کوئی غرض نہیں۔شہریوںکوماحولیاتی مضراثرات سے بچائوکیلئے اقدامات کیوںنہیں کیے گئے؟یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کاسوال ہے جسے نظراندازنہیںکیاجاسکتا۔وزیراعظم نوازشریف نے شہری علاقوںمیںسموگ کی موجودہ صورت حال کانوٹس لیتے ہوئے متعلقہ محکموںکوماحولیاتی مسئلہ پرقابوپانے کیلئے طویل المدتی اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔وزیراعظم نے محکمہ ٹرانسپورٹ کوہدایت کہ وہ گاڑیوںکے سخت معائنہ کے ذریعے آلودہ دھویں میںکمی کویقینی بنائیں۔ان کاکہناتھا کہ صوبائی محکمہ جات جنگلات کاربن میںکمی کیلئے گرین پاکستان پروگرام کے تحت شہروںمیں شجرکاری تیزکریں۔وزیراعظم کافوکل پرسن ہدایات کی تعمیل کیلئے تمام متعلقہ محکموںکے ساتھ رابطے رکھے گا۔پاکستان نے ماحولیاتی آلودگی کامسئلہ کاپ کانفرنس میں بھی اٹھانے کافیصلہ کیا ہے۔
محکمہ موسمیات نے کہاہے کہ ملتان اورگردونواح میں دھند اور گردوغبارسموگ نہیں ۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اگریہ سموگ نہیں توآنکھوںمیںپانی کیوں آجاتا ہے۔ سانس لینے سے ہواکڑوی کیوںمحسوس ہوتی ہے۔جبکہ دھندمیں سانس لینے سے دھویںجیسی کڑواہٹ محسوس نہیںہوتی۔ ملتان اورگردونواح میں بھی سموگ ہی ہے۔ محکمہ ماحولیات اپنی ذمہ داریاںاداکرنے کی بجائے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سموگ کے بارے میں حکومتی اقدامات اورماہرین کی آراء اپنی جگہ درست ہیں تاہم عوام کواس کے مضراثرات سے بچائو کیلئے آگاہی مہم اس طرح نہیں چلائی گئی جس طرح چلائی جانی چاہیے تھی۔تمام متعلقہ محکموںنے اس سلسلے روایتی سستی کامظاہرہ کیا ہے۔یہ بات درست ہے کہ سموگ ہرسال کامعاملہ نہیں کہ محکمے بروقت الرٹ ہوجائیں ۔ تاہم جب سموگ کے ابتدائی اثرات شروع ہوئے تھے اس وقت بھی متعلقہ محکمے الرٹ ہوجاتے عوام کوا س کے مضراثرات سے محفوظ کرنے کے بروقت اورفوری اقدامات کرلیے جاتے تواس سموگ سے کم سے کم لوگ ہی متاثرہوتے۔اگرچہ سموگ کے دوماہ جاری رہنے ،نومبردسمبرمیں بارشیںمعمول سے کم ہونے کی پشین گوئی کی گئی ہے۔ان دونوںمہینوںمیں اللہ تعالیٰ محکمہ موسمیات کی توقعات سے بھی زیادہ رحمت کی بارشیں برسائے گا اورسموگ بھی چنددنوںمیں ختم ہوجائے گا۔زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں چندہی دنوں میں سموگ کے اثرات ختم ہو جائیں گے۔