تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے ایک معصوم سادہ لٹا ہوا شخص بیٹھا تھا جو پچھلے کئی سالوں سے روحانیت قرب الہی اور کامل مرشد کی تلاش میں ایک چوکھٹ سے دوسری چوکھٹ تک اپنی پیشانی رگڑرہا تھا جس نے ایک سے بڑھ کر ایک بڑے بہروپیے اداکار بلکہ میراثی نما پیرکا دامن پکڑاتاکہ وہ اُس کے دامن میں بھی روحانیت کی بھیک ڈال دیں ۔ لیکن افسوس کہ کسی نے بھی اُس کے سچے اور حقیقی جذبے اور جنون کو نہ دیکھا بلکہ ہر ایک نے اُس کو بے دردی سے لوٹا اور استعما ل کیا ۔ اِس بیچارے نے تو دنیا مانگی ہی نہیں یہ تو نہ دنیا کا نہ شہرت کا طلب گا رتھا یہ گھر سے روحانیت اور خدا کے حقیقی قرب کے لیے نکلا تھا لیکن جھوٹے پیروں عاملوں اور سجا دہ نشینوں نے اِس کو خوب خو ب لو ٹا مجھے وطن عزیز کے وہ ہزاروں متلا شیان حق راہ ِ تصوف کے مسافر یا د آئے جو برسوں سے جھوٹے پیروںکے آستانوں پر پڑے ہیں سالوں گزر جا نے کے بعد بھی وہ اپنے پیروں کو قصور وار نہیں کہتے بلکہ اپنا ہی قصور اور غلطی مانتے ہیں کہ ہما رے پیر صاحب تو وقت کے قطب ہیں ولیوں کے سردار ہیں قصور تو ہما را ہے ہم نے ہی عبا دت وریا ضت نہیں کی ہم نے ہی پیروں کے بنا ئے ہو ئے اسباق پر عمل نہیں کیا۔
اِن معصوم مریدوں کو کو ن بتائے کہ قصور آپ کا نہیں ہے اصل میں آپ جہاں روشنی لینے آئے ہیں وہ خود ہی اِس عظیم روشنی سے محروم ہیں اب جس ٹرانسفارمر میں خو دہی کرنٹ نہیں ہو گا تو وہ دوسروں کو بھلا کیسے دے گا بھئی ٹینکی میں پا نی ہو گا تو ہی نل میں آئے گا نا اگر ٹینکی ہی خا لی ہو تو پیا سے کی پیاس کیسے بجھے گی ۔ میرے سامنے بھی ایک ایسا ہی پیا سا تھا جو در در پر دستک دینے کے بعد لٹا لٹا یا گھوم رہا تھا ۔ پھر میں نے اُس کو جو مجھے تھوڑا بہت آتا تھا بتا یا اور آئندہ بھی راہنما ئی کا وعدہ کیا تو وہ چلا گیا لیکن جا تے جا تے میری فکر و سوچ کے بہت سارے دریچے وا کر گیا ۔ آج کے سجا دہ نشین عام لوگوں کو تو لوٹ ہی رہے ہیں یہ سب سے زیا دہ ظلم یہ کر تے ہیں
جب یہ ایسے مقدس معصوم لوگوں کو لوٹتے ہیں جو ان کے پاس دنیا کے لیے نہیں خدا کے لیے اورآخرت کے لیے آتے ہیں اِن ظالم پیروں کا ظلم دیکھیں کہ یہ خدا کی تلاش میں نکلے ہو ئے مقدس لو گوں کو بے دردی سے لوٹتے ہیں کہ اِن میں سے بہت سارے تصوف روحانیت، عشق حقیقی ، اورقرب الہی سے ہی دل برداشتہ ہو کر پھرگناہوں کی زندگی کی طرف چلے جا تے ہیں جھوٹے پیروں نے طرح طرح لوگوں کو لوٹنے اور اپنے شکا ری پھندوں میں پھانسنے کے پروگرام بنا رکھے ہیں اِن کی تمام حرکات انتہائی گھنائونی اور مکروہ ہیں کہ اِن سے نفرت ہو تی ہے لیکن اب میں نے اِن کے اس ظلم غلا ظت کا ذکر کر رہا ہوں جس کے بعد اِن سے گھن آتی ہے اِن کی اِس حر کت کے بعد یقین ما نئیے یہ گندگی میں رینگتے کیڑے نظر آتے ہیں ۔ اِن کے مکروہ چہروں سے نقاب اِس واقع کے بعد بخوبی سرک جا ئے گا۔
آپ اِن گناہوں کا انسانی ظا لمانہ نمو نہ ملاحظہ فرمائیں گے درج ذیل واقعے سے کچھ عرصہ قبل مجھے بار بار ایک نمبر سے فون آتا ایک نوجوان لڑکی انتہا ئی درد ناک لہجے میں بار بار مجھے کہتی سر مجھے رش میںآپ نے نہیں ملنا برائے مہربانی مجھے الگ ملا قات کا وقت دیں میں ہر بار اُس کو ٹال دیتا کہ یہ شاید کو ئی چال یا ڈرامہ کر کے الگ ملنا چا ہتی ہے وہ بیچاری کبھی تو لمبے لمبے Messageکر تی یا اگر کبھی فون لگ جا تا تو ملنے کی التجا کر تی ۔ میرے بار بار ٹالنے پر ایک دن اُس نے مجھے ایسی با ت کہہ دی کہ میں اُس سے ملنے کے لیے تیا ر ہو گیا اُس نے کہا وہ دنیاوی کسی بھی مسئلے یا الجھن کے لیے آپ سے نہیں ملنا چاہتی بلکہ میں تو صرف خدا روحانیت اور قرب الہی کے سلسلے میں ملنا چاہتی ہوں اور اگر میں کو ئی بھی دنیا وی بات کروں تو آپ مجھے دھکے ما رکر بھگا دیجئیے گا۔ اُس کی آواز میں چھپے درد ، سوز کرب اور بے پنا ہ تکلیف نے مجھے اُس سے ملنے پر مجبور کر دیا ۔ اور پھر مقررہ دن اور وقت پر وہ مجھے ملنے آئی وہ ایک نوجوان اور نہا یت خو بصورت لڑکی تھی۔
شرم و حیا اور خو بصورتی کا شاندار مجموعہ کہ کو ئی بھی اُسے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو سکتا تھا۔ میں نے متجسس لہجے اور نظروں سے اُسے کہا بیٹی بتائو کیا مسئلہ ہے تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتی ہو تو اُس نے کہا کہ سر میں فلاں پیر صاحب سے عشق ِ حقیقی کر تی ہو ں میںاُن کے بغیر مر جا ئوں گی اگر وہ مجھے نہ ملے تو میں خود کشی کر لوں گی آپ خدا کے لیے میری پیر صاحب سے صلح کرا دیں وہ میرا فون نہیں اٹھا تے مجھ سے ملتے نہیں ہیں انہوں نے میرے تمام نمبرز Blockکر دئیے ہیں ۔ میں اُن کی دیوانی ہوں اُن کے بغیر مر جا ئوں گی ۔ اُس کی با تیں اور جنون سن کر میری کنپٹیوں میں آگ دہک اُٹھی مجھے لگا میرے اندر آتش فشاں پھٹنے لگا ہے میں نے اُس کی طرف زہر آلودہ نظروں سے دیکھا اور دہا ڑتے ہو ئے کہا تم نے تو کہا تھا کہ عشق الہی کی با ت کرو گی۔
لیکن تم تو مجا زی عشق بلکہ نفس کے ہا تھوں مجبور ہو کر مجھے ملنے آئی ہو بھا گ جا ئو۔ میں تمہا ری کو ئی با ت نہیں سنوں گا اور نہ ہی پیر صاحب سے ملنے میں کو ئی مدد یا وظیفہ بتا ئو ںگا ۔ میں نے اُسے کہا دفع ہو جائو دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل نہ دکھا نا اِس کے ساتھ ہی میں اٹھ کھڑا ہوا جب اُس نے دیکھا کہ میں جا نے لگا ہوں تو اُس نے میرے پا ئوں پکڑ لیے اور دھا ڑیں ما ر مار کر رونے لگی اور ساتھ ہی کہا کہ آپ پہلے میری بات تو سن لیں میری بات سننے کے بعد آپ کو ئی فیصلہ کریں اور اگر آپ نے میری بات نہ سنی تومیں آپ کے دروازے پر ہی بیٹھی رہوں گی اُس وقت تک نہیں جا ئوں گی جب تک آپ میری بات نہیں سنیں گے اُس کی گر یہ زاری اور بلیک میلنگ کے بعد محلے داروں کی وجہ سے میں نرم پڑ گیا کہ اِس کی بات سن لیتا ہوں تا کہ اِس کو کچھ سکون اور قرار آجا ئے تا کہ پھر یہ چلی جا ئے لہذا میںپھر اُس کے سامنے بیٹھ گیا تا کہ اُس کی بات سن کر اُس سے جان چھڑا ئوں۔
مسلسل رونے سے اُس کے جسم پر لرزا طاری تھا میرے نرم رویئے اور حوصلہ دینے سے اُس کے مضطرب اعصاب نا رمل ہو نا شروع ہو ئے جب وہ نا رمل ہو گئی تو اُس نے اپنی داستان غم اِسطرح شروع کی کر ب میں ڈوبے ہو ئے گلو گیر لہجے میں اُس نے بتا نا شروع کیا کہ سر میری ہو ش کی آنکھ ایسے آنگن میں کھلی جہا ں ہر طرف روحانیت تصوف قرب الہی عشق الہی حقیقی اولیا اُن کی تعلیمات اور واقعات کی خو شبو چاروں طرف پھیلی ہو ئی تھی ہما را خاندان شروع سے ہی اولیا کرام کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا ہما رے گھر میں اکثر دینی محافل کا انعقاد کیا جا تا لا ہور کے تمام مزارات پر میں اور میرے فیملی ممبرز جا تے ۔روحانیت کے اِس ماحول میں پتہ ہی نہیں چلا کب میں جوان ہوگئی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ میری یہ محبت پختہ سے پختہ ہو تی چلی گئی جب میں کا لج میں گئی تو لا ئبریری سے اولیا کرام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اِس طرح میرے من میں دبی چنگا ری آگ کا بھا نبھر بنتی چلی گئی ۔ اب میں نے مو جودہ دور کے اولیا ء کرام کی تلاش شروع کر دی کیونکہ تصوف کی جو بھی کتاب پڑتی اُس میں مرشد کامل کی تلاش کا ذکر ضرور ہو تا ہر صاحب کتاب بار بار اِس بات کی تکرار کرتا کہ روحانیت تصوف اور عشق حقیقی کا سفر کسی مرشد کامل کی زیرِ نگرانی ہی کر نا چاہیے۔
میری یہ تلاش اب جنون کا روپ دھا رتی جا رہی تھی اِس تلاش اور جنون نے میری جسم روح دل و دماغ کو بُری طرح اپنی گرفت میں جکڑ لیا ۔ میں عشق کی اِس آگ کے دریا میں کو دنے کو تیا ر ہو گئی میں اِس پل صراط سے گزرنے کے لیے تیار ہو گئی ہر گزرتے لمحے اور دن کے ساتھ میرے جنون کا درخت تنا آور ہو تا گیا ۔ دنیا سے بے رغبتی بڑھتی چلی گئی میری ترجیح اول صرف یہی راستہ بنتا چلا گیا کیونکہ میں لڑکی تھی اِس لیے با ہر گھومنے کی آزادی نہ تھی لیکن مجھے جیسے ہی کسی بزرگ یا آستا نے کا پتہ چلتا میں اپنے بھائی یا ماں کے ساتھ ایک بار ضرور وہاں پر گئی بہت سارے مزارات اور آستانوں پر جانے کے باوجود مجھے ابھی تک اپنی منزل نہیں ملی تھی کیونکہ میں پڑھی لکھی تھی۔
اِس لیے جا ہل فراڈی بابوں کو جلدی جان جاتی پھر دوبارہ کبھی وہا ں نہ جا تی کیونکہ زیادہ تر گدیوں مزارات اور آستانوں پر بہروپیوں کا ہی قبضہ نظر آیا کسی میں بھی عشق حقیقی کی اصل روشنی اور نور نظر نہ آیا ۔ اب میں نے اپنے جا ننے والوں سے کہنا شروع کر دیا کہ اگر آپ کو کوئی نیک حقیقی اور اصل ولی اللہ ملے تو مجھے ضرور بتا نا اِسی بھا گ دوڑ میں میری ایک دوست نے لا ہو ر کے نواحی علا قے میں ایک پیر کا بتا یا تو میں اُس آستا نے پر بھی پہنچ گئی ۔ پیر صاحب کے علم اور گفتگو سے میں جلد ہی متا ثر ہو گئی اور دل میںٹھا ن لی کہ یہی میری منزل ہے یہی وہ پیر صاحب ہیں جن کی تلاش میں پچھلے کئی سالوں سے کر رہی تھی۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956