تحریر : سفینہ نعیم
سنا ہے عید الاضحی قریب ہے اور میری طرح بہت سے بکرے قربان ہو جائیں گے میرے ایک ہمسا ئے بکرے نے گزشتہ کئی دنوں سے پریشانی میں کھا ناپینا چھوڑ دیا ہے حالانکہ یہ سراسر بزدلی ہے قربانی حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اس سے زیادہ کیا سعادت مندی ہوہو سکتی ہے کہ کوئی جانور ایک نبی کی سنت ادا کرنے کے قابل ہو جائے۔
مو ت تو بہر کیف آ ئے گئی ہی اگر مو ت بر کتوں سے پرہو جا ئے تو اسے خو ش قسمتی سمجھنا چا ہیے پس میں خوش ہوں اور فخر یہ نعرے لگا رہا ہوں کبھی اچھلنے لگتا ہوں کبھی بھا گنے کی کوشش کر تا ہوں تا ہم گلے کی رسی اڑے آجا تی ہے اور میں رک جا تا ہوں ابھی ابھی ما لک کے بچے مجھے میوے اوربا دا م کھلا کے گئے ہیں کیونکہ اب میں با لکل فا رغ کھڑاہوں اس لیے مجھے کسی قدر اپنا ما ضی یا د آ رہا ہے کہیں تو آپ کو بھی کچھ حا لات سنا دوں یوں وقت کٹ جا ئے گا اور آپ میرے دوست بن جا ئیں گے آ پ نے ضلع رحیم یا ر خا ن کی تحصیل خا ن پور کٹو راکا نا م تو سنا ہو گا یہ تحصیل خا صی بڑی ہے اور صحر ائے چو لستان کا و سیع علا قہ اس میں شا مل ہے میں اسی تحصیل کی ایک ریگستا نی گوٹھ میں پیدا ہو ا ہم دو بھا ئیوں نے ایک ساتھ جنم لیا تھا ہما ری ماں بہت بڑے جثے کی ما لک تھی مجھے یا د پڑ تا ہے کہ میرا بھا ئی مجھ سے آدھا گھنٹہ چھو ٹا تھا بھا ئی کی پیدا ئش تک تو میں اپنی ٹانگوں پر کھڑا بھی ہو گیا تھا پھر ہمیں ماں کے نیچے ڈال دیا گیا دودھ پینے سے طبیعت بحال ہو گئیاور لڑ کھڑاتی ٹا نگیں بڑ ی حد تک سنبھل گئی تھیں۔
مزید برآ ں آنکھوں میں چھا ئی ہو ئی دھند بھی جا تی رہی تھی چنانچہ میں نے دیکھا کہ ماں کی طر ح بھا ئی کے سیا ہ جسم پر بھی کہیں کہیں سفید نشانات تھے میرا جسم البتہ مکمل سیا ہ تھا میں ان میں بھتنا سا لگتا تھا شا م ڈ ھلے جب پورا ریوڑ چرچرا کر گھر لوٹا تو میری سیا ہ ہو نے کی پر یشانی جا تی رہی مجھے یہ دیکھ کر خو شی ہو ئی کہ ریوڑ میں میری طر ح کے اور بھی بہت سے سیاہ بھتنے ہیں ایک بھتنے نے جب بتایا کہ مکمل سیا ہ بھتنے بڑ ھیا نسل کے جا نورشما رہو تے ہیں تو میں بہت خوش ہو اپھر کیا تھا میں خو شی سے جھو منے لگا اگلے دن سور ج طلوح ہو اتو ما لک ریوڑ کو چر انے لے گیا لیکن ہم دو نو ں بھا ئی اور ماں گھر پر رہے اب یہی معمول بن گیا کہ ہم را ت ریوڑ میں گزا رتے اور دن کو جدا ہو جا تے کم و بیش پند رہ دن بعد جب ما ںبھی چر نے کی خا طر ریوڑ کے ساتھ جا نے لگی تو ہم گھر میں اکیلے رہنے لگے اس دو ران ہمیں سا را دن بھوکا پیا سا رہنا پڑتا ما ںکے آ نے تک آنتیں کلبلا رہی ہوتی تھیں پس میں تو چھو ٹتے ہی ما ں کے پستا نو ںکوچمٹ جا تا بھا ئی کیو ں کے پیدا ئشی طو ر پر کمزور تھا لہذا پھر تیلا نہ تھا بیچا را شا م تک تو با لکل نڈ ھا ل ہو چکا ہو تا تھا میرے سمجھا نے پر جب صبح کے وقت اس نے پیٹ بھر کر دودھ پینا شروع کر دیا تو چند دنوں میں اس کی کمزو ری دور ہو گئی اور وہ بھی میری طرح ہشاش بشاش ہو گیا ڈیڑھ دو مہینے بعد ہم اس قا بل ہو گئے تھے کہ ریو ڑ کے سا تھ باہر جا سکتے تھے پس ما لک نے ہمیں بھی سا تھ شا مل کر لیا ریوڑ کے سا تھ جا نے کا نقصا ن یہ ہو ا تھاکے ماں کے پستا نو ں پر ایک تھیلا سا چڑھا دیا گیا ۔ جس کے سبب ہم اپنی مر ضی سے دودھ نہیں پی سکتے تھے۔
دن میں صرف ایک مر تبہ اور وہ بھی صرف شا م کے وقت ہمیں دودھ پینے دیا جا تا ۔صبح کے وقت خود ما لک چھو ٹی سی با لٹی میں دودھ دوھ لیتا تھا ۔اول اول تو بڑی دشوا ری ہو ئی لیکن پھر گھا س پھوس پر گزا را کر نے کی عا دت ہو گئی ۔رفتہ رفتہ نو بت یہا ں تک پہنچی کہ ہم ما ں کا دودھ تکلفاپیتے ور نہ طلب نہ ہو تی ۔اس سے ما ں سے ہماری جذ باتی وا بستگی اور شد ید محبت پر بھی قیا س کیا جا سکتا ہے ۔چھ سا ت ما ہ میں دو نو ں بھا ئی معقو ل قد کا ٹھ کے حا مل ہو گئے ۔صخر ائے چو لستا ن کی جڑی بو ٹیاں اور چھو ٹی چھو ٹی جھا ڑیوں کے پتوں کی توا نا ئی ہمارے جسم میں سر ایت کر گئی تھی۔میں اچھلتا کو دتا اکثر ریوڑ سے دور نکل جا تا اور اپنی مر ضی کی جڑی بو ٹیا ں کھا تا ۔میرے جسم کی مضبو تی اور پر اعتما دی کا انذا زہ اس با ت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ مختلف ٹیلوںپر چڑ ھنے اور اپنے سے بڑے بکروں سے بھڑنے میں مجھے ذ را خو ف نہ آ تا ۔دس قدم پیچھے ہٹ کے جب میں ٹکر ما رتا تو بڑے بڑے سر پھرے دو سری یا زیا دہ سے زیا دہ تیسری ٹکر میں زیر ہو جا تے ۔وقت کے ساتھ ساتھ میں نے پچھلی ٹا نگو ںپر مسلسل کھڑا رہنے کی مشق بھی کر لی تھی۔اس ریا ض کا سب سے بڑا فا ئدہ یہ تھا کہ میں نسبتا بڑ ی جھا ڑیو ںکی کی چو ٹیوں پر مو جود پتے بھی نو چ لیتا تھا۔صحر ائے چو لستان میں ویسے تو بڑی مو جیں تھیں لیکن پا نی کی شدید کمی کا سا منا تھا یقین کیجیے کہ صر ف پا نی کی خا طر ہمیں میلو ں سفر طے کر نا پڑ تا ۔جو ن جو لا ئی میں یہ تنگی اور بھی بڑھ جا تی تھی۔
با رشیں ہو تی تو جان میں جا ن آ جا تی ۔با رشوں سے کیو نکہ جڑی بو ٹیا ں دھل جا تی تھیں لہذا چر نے کا لطف بھی بڑھ جا تا تھا ۔اب چو لستان سے ہجرت کا تجر بہ سنیے میری زند گی کا سب سے دلچپ وا قعہ شا ید یہی ہے ایک دن خلاف معمول ما لک نے چند بکروں کو ریوڑ سے جدا کیااور گو ٹھ کے ایک با لکل جد ا گا نہ را ستے پر ڈال لیا ۔اس را ستے پر ہم پہلے کبھی نہیں چلے تھے ۔ چنانچہ معاملے کو سمجھنے کے لیے آپس میں چہ میگو ئیاں ہو نے لگی۔ سبھی بکر ے ایک سا ل سے زیا دہ عمر کے تھے لیکن ہم میں سے ایک دو سا لہ بکرا بھی تھا ۔اس نے بتا یا کہ ما لک ہر سا ل بکرا عید پر قر با نی کے لیے بکر ے فرو خت کر تا ہے ۔ اس خبر سے سب کے دل بیٹھ گئے۔بعض کم دلے تو رو نے لگے۔تا ہم میں اور میرا ایک ساتھی بکرا بہت خو ش ہو ئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم دونوںقر یبی مسجد کے مو لوی صا حب کی تقریر غو ر سے سنتے تھے مو لوی صا حب اکثر قر با نی کے جا نو ر کے فضا ئل بھی شد و مد سے بیا ن کر تے تھے۔ایسے میں میرے دل میں ہو ک اٹھتی کہ کا ش میں قر بانی کے لیے قبول کر لیا جا ئوں۔آ ج قر با نی کے لیے منظو ری کا وقت تھا تو دل کیوں نہ با غ با غ ہو تا۔ما لک نے نز د یکی شہر خا نپور میں لے جا کر ہمیں ٹرک میں لا د لیا۔
وہ خو دڈر ائیور کے ساتھ بیٹھ گیا اور ٹرک چلنے لگا ۔ڈھلتے سو رج کی کر نو ں سے اندا زہ ہو رہا تھا کہ ٹر ک مشرق کی جا نب بھا گ رہا ہے۔چو لستان کے صحرا میں شب و روز گزا رنے سے میں سمجھتا تھا کہ ساری دنیا ریت سے عبا رت ہے ۔لیکن اس سفر میں دیکھا کہ سر سبز شا دا ب علا قے بھی ہیںاس میں دریا اور ندیاں بھی ہیں پچھلے حصے سے منہ نکا ل کر میں طرح طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا ۔آٹھ نو گھنٹے کی مسا فت کے بعدٹرک رک گیا اور ہمیں اتا را جا نے لگا ۔معلوم ہوا کہ یہ سا ہیوال شہر ہے۔مالک نے ہماری گنتی کی ،ٹر ک وا لے کو پیسے دیے اور ہمیں ایک طرف ہا نکے لگا۔رات ہو گئی تھی لہذا ہمیں ایک خا لی جگہ پر روک دیا گیا ۔سفر میں مسلسل کھڑا رہنے سے جسم درد ہو رہا تھا اس لیے میں تو بیٹھتے ہی سو گیا ۔صبح ہو ئی تو ما لک ہمیں بکرا منڈی کی جا نب لے چلا۔ بکرا منڈی میں پہنچنے سے قبل ہی ایک شخص نے ما لک کو ٹھہر ایا اور کچھ با تیں کر نے کے بعد بکروں کو دیکھنا شروع کر دیا۔مجھے اور میرے ساتھی کو با قیوں سے الگ کر کے وہ ما لک سیکچھ پو چھنے لگا ۔ما لک نے جو ڑی کے اسی ہزار اور علیحدہ علیحدہ کے چا لیس چا لیس ہزار طلب کیے ۔ کچھ بحث و تمحیص کے بعد ایک کا پینتیس ہزار طے ہو گیا اور رقم ادا کر نے کے بعد مجھے کانسے پکڑ کر وہ ایک طر ف چل دیا ۔میں سمجھ گیا کہ یہ میرا نیا ما لک ہے ۔قر با ن ہو نے کے شو ق میں، میں نئے ما لک کے ساتھ تیز تیز چلنے لگا پندرہ منٹ کی مسا فت کے بعد ایک گھر آ گیا۔
اس کے بچے دیکھتے ہی خو شی کے نعرے بلند کر نے لگے ۔بعد میں معلو م ہو ا کے وہ رازی اور طوطی ہیں رازی لڑکا تھا جبکہ طوطی لڑکی۔طوطی چھو ٹی تھی لہذا مجھ سے کچھ خو ف بھی کھا تی تھی لیکن را زی تو ذرا نہ ڈرتا تھا ۔وہ میرے لیے فورا پا نی لا یا ۔پا نی پی کر میں قدرے ترو تا زا ہو گیا ۔اس کا باپ میرے لیے چا را لینے کی غرض سے وا پس با زار چلا گیارا زی کے گھر میں رہتے ہو ئے مجھے دس دن ہو گئے ہیں ۔ان لوگو ں نے میری خدمت کر نے کا حق ادا کر دیا ہے سکول جا نے سے پہلے مجھے اچھی طر ح کھلاتے ہیں اور آ نے پر بھی خو د کھا نے سے پہلے میری فکر کر تے ہیں ۔میں ان سے پوری طر ح ما نو س ہو گیا ہوں ان کی محبت دیکھ کر ان سے جدا ہو نے کو دل نہیں چا ہتا لیکن قر بانی کی فضیلت بھی ذہن میں ہے لہذا جو کچھ بھی ہو میںسنت ابرا ہیمی پر قر با ن ہو نے کو تر جیح دیتا ہوں۔۔
تحریر : سفینہ نعیم
safeenanaeem3465@gmail.com