اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی اُمتوں پر کیے گئے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔ ‘‘البقرۃ۔ 183
اللہ تعالیٰ نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی اُمت کو بے پناہ انعامات سے نوازا ہے۔ ان انعامات میں سے ایک انعام ماہ صیام کا بھی ہے۔ رمضان مسلمانوں کیلئے نیکیاں بٹورنے اور اپنے نامہ اعمال میں اعمال صالح کے پلڑے کو بھاری کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رمضان مسلمانوں کے لئے ایک مقدس ترین اور رحمتوں کے نزول کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک مسلمان لئے اس ماہ کے دوران روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہم مسلمان صدقہ، زکوٰة اور فطرانہ دے کر مستحق لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس ماہ ِمقدس میں مسلمان نیکی میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں کئی لوگ ایسے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس کھانے پینے کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں ،ایسے افراد کیلئے اپنی غربت پر پردہ ڈالنے کا بہترین طریقہ روزہ ہی ہے۔ اللہ کی زمین پر بسنے والے یہ لوگ سحر و افطار میں روکھی سوکھی کھا کر اس فریضے کو ادا کرتے ہیں۔ دوسری جانب ملک بھر میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے دسترخوان کئی اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں۔ خدا کی ہر نعمت ان کے دسترخوانوں کی زینت بنی ہوتی ہے۔
اسلام ایک آفاقی دین ہے،اس دین میں حقوق العباد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کیلئے بھی وہی پسند کرنے کی تلقین کی ہے جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔
حضرت زیدبن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ وہ افراد جن کے دسترخوانوں پر کئی قسم کے کھانے موجود ہوتے ہیں ان پر لازم ہے اور ان کے مفاد میں ہے کہ وہ ملک کے فاقہ کش طبقے کی مدد کریں۔
پاکستان بھر بالخصو ص کراچی میں ایک مثبت رجحان یہ ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی شہر کے مختلف مقامات پر مخیر حضرات اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مسافروں اور ضرورت مندوں کو افطار کرانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس نیک کام میں ایدھی،چھیپا،سیلانی، جے ڈی سی جیسے فلاحی اداروں کے علاوہ گمنام مخیر حضرات بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں،ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف کراچی میں روزانہ تقریبا13لاکھ افراد کو مختلف شاہراہوں پر افطار کرایا جاتا ہے۔ ملک کے دیگر شہروں کے اعدادو شمار اسے کے علاوہ ہیں،رمضان کا آغاز ہوتے ہی شاہراہوں پر فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کے دسترخوان قائم کئے جاتے ہیں ۔ جہاں حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلارنگ ونسل وتفریق روزہ افطار کے ساتھ کھانا کھلایا جاتا ہے اور ثواب کما کر اپنی آخرت سنواری جاتی ہے۔
جو افراد خود اس نوعیت کے دسترخوان نہیں قائم کر سکتے یا ان کے لئے افطاری کے انتظامات کرنا دشوار ہے وہ بھی ان دسترخوانوں میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ تعاون کر کے نیکی کے اس عمل میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس عمل سے یقینی طور پر ان سے حضور نبی کریم ﷺ اور اللہ خوش ہوں گے۔ اور ان کا دنیا میں آنے کا مقصد کسی حد تک تکمیل کے قریب ہوگا۔
بے شک روزہ اللہ کیلئے ہے اور اس کا اجر و انعام آخرت میں اللہ ہی دیگا لیکن اللہ نے دنیا میں بھی مسلمانوں کیلئے رمضان کے اختتام پر عید الفطر کی صورت میں ایک انعام رکھا ہے۔ اس خوشی کے دن وہ نئے کپڑے اور جوتے پہنتے ہیں، عید کے لئے خریداری ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی شروع ہوجاتی ہے۔ ہر سال پاکستان میں اربوں روپے عید کے موقع پر خرچ کئے جاتے ہیں لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے کہ ملک میں ایسے بھی لاکھوں لوگ موجود ہیں جو عید کے دن اپنے بچوں کو گھر سے نکلنے نہیں دیتے کہ اگر ان کا بچہ گھر سے نکلے گا تو امیر شہر کے بچوں کے مہنگے لباس دیکھ کر ان کے ہاتھوں میں کھلونے دیکھ کر ضد کرےگا اور غریب ماں باپ کے پاس ان کو ڈانت ڈپٹ کے سوا دینے کیلئے کچھ نہ ہوگا۔ ہم نے ایسی خبریں بھی سنی ہیں کہ باپ نے اپنےبچوں کو ٹرین کے آگے پھینک دیا۔ ماں نے اپنے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا۔ شوہر نے بیوی بچوں کوقتل کرنے کے بعد خود کشی کرلی۔ کیا کبھی کسی نے ان خبروں کا پس منظر جاننے کی کوشش کی؟کیا ان بچوں کا قاتل صرف ان کا باپ یا ماں ہوتےہیں؟یا وہ امیر شہر بھی جو اپنے بچوں کو تو دس دس لباس لے دیتا ہےلیکن غریب کے بچوں کیلئے اس کے پاس صرف پرانا لباس ہی ہوتا ہے۔ یا پھر معاشرے کا وہ غیر متواز ن نظام ان بچوں کا قاتل ہے جس میں امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ یا پھر وہ حکمران جن کے اثاثوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اللہ ہمیں ایسے حکمران دے جو مملکت میں پیاس سے مرجانے والے کتے کا ذمے دار بھی خود کو سمجھتے تھے۔
قابل فخر بات یہ ہے کہ ملک میں ایسے فلاحی ادارے موجود ہیں جو غریبوں میں راشن اور افطاری کے ساتھ ساتھ عید کے لباس اور عیدی بھی تقسیم کرتے ہیں۔ ان تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ ہمیں اپنی زکوٰۃ صدقات سے ان تنظیموں کی مدد کرنا ہوگی جو سفید پوش افراد کو رمضان کریم اور عید الفطر کے موقع پر تنہا نہیں چھوڑ تے، اس کے علاوہ ساتھ ہی انفرادی حیثیت میں خود سے بھی عہد کرنا ہوگا کہ ہم عید کے تین روز کے لئے تین الگ الگ لباس سلوانے کے بجائےایک ہی لباس سے گزارا کریں گے اور باقی دو لباس کسی غریب کو عطیہ کریں گے،ورنہ شاید با روز قیامت غریبوں کے بچوں کے قاتلوں کی صف میں حکمرانوں کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہوں۔