تحریر : عماد ظفر
عید کے روز چار سو بکھری مسکانیں ایک دوسرے سے گلے ملتے عید کی خوشیاں بانٹتے لوگ بلاشبہ اس تہوار کی قدر و اہمیت کو نہ صرف اجاگر کرتے ہیں بلکہ ہر سو پیار محبت اور امن کی خوشبو بکھیرتے ہیں. میٹھی میٹھی سویاں نئے کپڑے بچوں کی عیدی بچیوں کی چوڑیوں کی کھنک عید کے رنگوں کو زندگی کے کینوس پر اس خوبصورتی سے سجاتی ہے کہ دیکھنے والے داد دیئے بنا رہ نہیں پاتے. آنگن ہنستے بستے اور بچوں کے قہقہوں سے آباد ہوں تو غالبا زندگی کا ہر دن عید کے جیسا ہی ہوتا ہے. عید کی اصل روح یا اس کا مقصد خوشیاں بانٹنا ہے ان لوگوں میں جن کی زندگی خوشیوں کی آس میں گزرے ہی چلے جاتی ہے لیکن خوشیاں کبھی ان لوگوں سے آنکھ نہیں ملاتی. عید کی شاپنگ کے دوران اتفاق سے نظر ان بچوں پر جا کر ٹک گئی جو بڑے بڑے برینڈڈ اسٹورز اور شاپنگ پلازہ کے باہر ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہے تھے۔
ان معصوم بچوں کو دیکھ کر ایک لمحے کیلئے خیال آیا کہ زندگی کس قدر بے رحم ہے جو نہ بچپن دیکھتی ہے اور نہ جوانی بس بے رحمی سے کسی سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے تو کسی سے اس کے پیارے اور کسی کی خالی حسرت زدہ آنکھوں میں آرزوؤں کے کشکول. عید میرے اور آپ کے ہاں تو آتی ہے لیکن ان نادار مسکین بچوں کے ہاں عید کا کوئی تصور نہیں. ان کا بچپن کبھی مانگتے کبھی غبارے بیچتے اور کبھی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے گزر جاتا ہے. اور کرب کی بات یہ ہے کہ ان بچوں کی تعداد کڑوڑوں میں ہے. شاید انہی بچوں کیلئے پروین شاکر نے کہا تھا کہ ” یہ زرد رو دیدہ جاں ..یہ پور پور استخواں ..انہیں بھی کبھی راستوں میں…نرم چھاؤں کی نوید ہو… ہرے بھرے لباس میں کبھی تو ان کی عید ہو. ویسے تو عید بچوں کی ہی ہوتی ہے جب وی خوشی سے نئے لباس کھلونوں اور عیدیوں جو جمع کرتے پھرتے ہیں لیکن یہ بچے اس عید کے دن بھی اہنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے خالی آنکھیں لیئے کہیں مشقت کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں مانگتے۔
ہو سکے تو عید پر ان بچوں کو گلے لگا کر عیدی ضرور دیجئے گا. عید ویسے سفید پوش طبقے کیلئے بھی اب آهسته آہستہ ایک ایسا تہوار بنتی جا رہی ہے جس کو منانا ان کی پہنچ یا استطاعت سے دور دکھائی دیتا ہے. وطن عزیز کی نصف سے زائد آبادی کیلئے اب یہ عید کے تین دن ایک جبر مسلسل کی طرح ہوتے ہیں جس میں انہیں اپنی سفید ہوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ کیوں عید پر وہ انہیں نئے کپڑے جوتے اور کھلونے نہ دلوا سکے. تہوار خوشیوں کی علامت ہوتے ہیں اور خوشیاں کم سے کم تہواروں پر سب کی سانجھی ہونی چائیے. ہم نے دکھاوے اور نمود و نمائش میں پڑ کر اب عید جیسے تہوار کو بھی سفید پوش طبقے اور غریبوں کیلئے اسے ایک احساس محرومی پر مبنی تہوار بنا دیا ہے. اور عید کی اصل روح اور پیغام کے منافی اب بجائے اپنے سے نیچے والوں میں خوشیاں بانٹنے کے ایک دوسرے سے دکھاوے کی لڑائی میں مبتلا رہتے ہیں. عید کے دن کرتا شکواڑ برانڈڈ ہو گا تو ہماری واہ واہ ہو جائے گی۔
جوتے پینٹ شرٹ بچوں کے کپڑے بھی مہنگے سے مہنگے برانڈڈ سٹور سے ضریدیں گے تو رشتہ داروں برادری یا دوستوں پر اپنی دھاک جما سکیں گے. ہم تو یہ افورڈ کر لیتے ہیں لیکن شاید ہم جیسے کڑوڑوں ہم وطن یہ افورڈ نہیں کر پاتے اور یوں عید کے تہوار پر بھی پیسہ بولتا ہے چمک دمک دکھاتا ہے اور انسان اور اس کے جزبات اس چمک دمک تلے کچلے جاتے ہیں. اگر ہم چاہیں تو عید کے موقع پر چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان لوگوں میں بانٹ سکتے ہیں جو عید پر بھی خوشی کے مفہوم سے نابلد ہیں.زیادہ نہیں صرف کرتہ شلوار لیتے ہوئے ایک کرتی شلوار ایسے سفید پوش یا غریب فرد کیلئے بھیطلے لیں جو عید پر بھی نئے کپڑے پہننے کی استطاعت نہیں رکھتا. اپنے بچوں کے کپڑے جوتے یا کھلونے لیتے ہوئے چند کھلونے اور کپڑے ان بچوں کیلئے بھی خرید لیں جن کے معصوم آنکھیں حسرت زدہ نظروں سے دکانوں کے شو کیسوں پر سجے کپڑے اور کھلونے دیکھتی ہیں. عید کے موقع پر ان افراد سے بھی عید ملنے جائیں جن سے ان کی سفید پوشی یا غربت کی وجہ سے کوئی عید ملنے نہیں جاتا۔
ہم سب عید کے موقع پر گھومنے پھرنے کہیں نہ کہیں ضرور جاتے ہیں صرف ایک یا دو گھنٹے اپنی تفریح کے لمحات سے نکال کر کسی یتیم خانے کسی اولڈ ایج ہاوس یا کسی سفید پوش خاندان کے ساتھ گزار لیں تو شاید بہت سے چہروں پر مسکانیں سجانے کے ساتھ ساتھ ان کی عید بھی خوشگوار بنا سکتے ہیں. یہ چھوٹے چھوٹے سے اقدام کسی بھی محروم طبقے کیلئے بہت بڑی نعمت سے کم نہیں جب خدا نے ہمیں اتنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے تو اس کی مخلوق میں اسی کی بخشی ہوئی چند نعمتیں بانٹنے سے نہ تو ہماری نعمتوں میں کچھ کمی آئے گی اور نہ ہمارے بنک اکاونٹ خالی ہوں گے البتہ اس کی مخلوق کو خوش کرنے سے اس کی نعمتوں اور رحمتوں کے مزید خزانے ہمیں ضرور حاصل ہوں گے. ویسے بھی خوشیاں بانٹنے سے مزید بڑھتی ہیں۔
عید کی خوشیاں مناتے ہوئے زرا ان نادار معصوم بچوں یا سفید پوش افراد کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کیجئے گا آپ کو خود جواب مل جائے گا کہ عید بھی اب پیسے والوں کے ہاں ہی منائی جاتی ہے. اور اگر آپ کو لگے کہ عید کا مقصد محض اپنی ذات یا بچوں پر پیسے لٹا کر سیرو تفریح نہیں بلکہ اجتماعی طور پر سب میں خوشیاں بانٹنے کا نام ہے تو بیان کیئے گئے کسی بھی ایک نقطے پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے گا اگر آپ کو عید کا “سواد” نہ آیا تو کہیئے گا. جو سکون یا خوشی آپ اور میں برانڈڈ کپڑوں یا نمود و نمائش میں ڈھونڈتے ہیں وہ سکون در اصل ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں چھپا ہوا ہے. آپ سب کو عید کی ڈھیروں خوشیاں اور نیک تمنائیں اور عید مبارک۔
تحریر : عماد ظفر