تحریر : مجید احمد جائی
عید خوشی کا تہوار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے عیدین کا انعام عطا کیا۔جس مسلمان نے دین اسلام کے اصولوں پہ زندگانی گزاری اُس کے لئے توہر دن عیدا ور ہر رات شب برات ہے لیکن میں عید کس منہ سے منائوں ۔اگر میں اپنے اردگرد دیکھو ں تو ہم پُور پُور گناہوں کی دلدل میں دُھنسے ہوئے ہیں ۔ہماری صبح کا آغاز ہی جھوٹ بولنے سے ہوتا ہے اور موبائل فون نے یہ کام اور بھی آسان کر دیا ہے ۔دن بھر بے حساب جھوٹ بول کر دُنیا کی واہ واہ اور آخرت کی لعنت خرید رہے ہیں۔ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی جانوروں کی طرح نا سمجھ ہیں ۔گناہ در گناہ کرتے ہیں اور ہماری گردنیں فخر سے اکڑتی جاتیں ہیں۔دِل زنگ آلودہ ہو گئے ہیں ۔اب اس کو لاکھ نیکی کی طرف راغب کریں سمجھتا ہی نہیں۔۔۔
بچپن میں سُنتے تھے کہ دِل میں رب بستا ہے اور دِل اللہ کا گھربھی ہے ۔لیکن آج تک اس دل کی پاسداری نہیں دیکھی۔اور یہ واحد دِل ہی ہے جو روازنہ کی بنیاد پر لاکھوں بار ٹوٹتا ہے لیکن اپنی جگہ قائم و دائم بھی ہے ۔۔۔دِلوں میں نفرتیں پلتی تو دیکھیں ہیں لیکن محبتیں نہیں۔۔۔کداورتوں ،حسد ،کینہ پروری نے یہاں قبضہ جما لیا ہے اور محبت کسی لولی ،لنگڑی بکری کی طرح اکھڑے اکھڑے سا نس لے رہی ہے ۔۔یہ بات تو سچ ہے ہمارے دِلوں میں آج کداورتیں ،نفرتیں پرورش پاتی ہیں ۔محبت نا پید ہے اور جس دل میں محبت نہیں ،وہ دِل ،دل نہیں ویران مکان ہے ۔کوئی بسیرا کرتا ہے اور نہ کوئی اس طرف رُخ کرتا ہے ۔اکیلا دِل ہی کیا ہمارے جسم کا ایک ایک اعضا ء گناہوں کی لپیٹ میں ہے ۔اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی ہم ڈیک ،ٹی وی کی آواز بڑھا دیتے ہیں۔ہاں البتہ اپنے مفاد کے لئے فتوی جاری ضرور کر دیتے ہیں ۔کیونکہ دین اپنا ہے ۔۔ہم دین کو اپنے مرضی سے لاگو کر رہے ہیں۔
ہم آزاد ضرور ہو گئے ہیں لیکن غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی ہیں۔دین اسلام کا پرچار ضرور کرتے ہیں لیکن عمل کسی اور مذہب پہ کرتے ہیں ،ثقافت اپنی نہ کلچر اپنا۔سب کچھ تو ہم نے دُوسروں کا اپنا یا ہوا ہے ۔۔۔ہمارے مدرسوں میں معصوم بچوں کے ساتھ بد فعلی تو معمولی بات ہے ۔اسکول ،کالج ،یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی معمول ہے ۔۔ملاء حضرات نے مسجد کا تقدس پامال کیا ہے تو اساتذہ حضرات نے بھی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔یوں ایک باپ بیٹی کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو رہا ہے ۔۔استاد بھی تو باپ ہوتا ہے ۔روحانی باپ۔۔۔۔جو آج کل روح کو زخمی زخمی کر رہا ہے۔
جس ملک میں رمضان شروع ہوتے ہی ذخیرہ اندوزی عروج پکڑ جائے ۔منافع خوری کا بازار گرم ہو جائے وہاں کون سی عید ،عید تو خوشیوں کی نوید لے کر آتی ہے لیکن یہاں تو عید سے پہلے عید منائی جاتی ہے ۔۔۔۔غریبوں کی جیبیں خالی کرکے ،بیٹیوں کی عزت پامال کرکے ،یتیموں کا مال ہڑپ کر کے ،لاوارثوں کی جائیداد پہ قبضہ کرکے ۔ملاوٹ کرکے ،رشوت لے کر،ایک منٹ کے لئے اپنا محاسبہ کریں کون سا ایسا کام ہے جو ہم دین اسلام کے اُصولو ں کے مطابق کر رہے ہیں ۔دین اسلام نے زکواة کا حکم دیا تاکہ ہمارا مال پا ک وصاف ہو ،کیا ہم زکواة دیتے ہیں ۔؟جب زکواة نہیں دیں گے تو مال پا ک کیسے ہوگا۔۔۔۔۔آج اپنی فصلیں کو کھاد دیتے ،اسپرے کرتے ہیں لیکن نئی نئی بیماریاں پھر بھی ہماری فصلیں ختم کر دیتی ہیں۔
ہمارے کھیت اچھی فصل نہیں دیتے ۔۔۔آج ہر شخص کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ہسپتالوں میں جا کر دیکھیں کیسی کیسی جانیں تڑپ رہی ہیں ۔۔۔روز ایک نئے بیماری دریافت ہو رہی ہے ۔آج سے دس سال پیچھے چلے جائیں کیا ہمارے بچے آپریشن سے پیدا ہوتے تھے ؟آج اُس عورت کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے جس کی نارمل ڈلیوری ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔قرآن بار بار کہہ رہا ہے اے انسان غورو فکرکر۔لیکن ہم ۔۔کسی کو نیکی کرتے دیکھ کر کہتے ہیں ریاکاری ہے ،دِکھاوا ہے ۔۔۔کیا سے کیا فتویٰ جاری ہو جاتے ہیں لیکن کسی کو نیکی کی طرف ترغیب نہیں دلاتے ۔۔۔آج ہر شخص پریشان ہے اور پریشانیاں روز بروز بڑھتی جاتیں ہیں ۔سکون نہیں ہے ،نیند نہیں آتی،بے خوابی کا عالم ہے ۔بیماری کی وجہ سے ہم کھانا چھوڑ دیتے ہیں نہیں چھوڑتے تو گناہ نہیں چھوڑتے۔
ان حالات میں، میں کیسے عید منائوں ۔۔۔عید کی خوشیاں کیسے سیلی بریٹ کروں ۔۔۔امیر کے لئے پروٹول اور غریب کے لئے لاٹھی چارج کا فارمولا لاگو ہے یہاں جانوروں کی بجائے انسان ذبح ہوتے ہیں ۔مسجدیں محفوظ ہیں نہ بازار،پارک محفوظ ہیں نہ مندر۔۔۔ہر طرف خوف کا جن گردش کر رہا ہے ۔امن کہاں گیا۔۔۔امن کو کس نے رخصت کیا ؟ یہاں غریب بنیادی ضروریات زندگی کو ترس رہا ہے اورامیر کے گھوڑوں کی خوراک بیرون ممالک سے منگوائی جا رہی ہے ۔۔یہاں جنازوں میں بندوقیں نکل آتی ہیں ،جہاں عید کے چاند پہ جھگڑے ہوتے ہوں وہاں میں عید کیسے منائوں ۔۔۔۔چلیں یہی سوال آپ سے ہے ،کیا اِن حالات میں آپ عید منائیں گے؟۔
تحریر : مجید احمد جائی