تحریر : سفینہ نعیم
سنت ابراہیمی کی ادائیگی کو عید قربان بھی کہتے ہیں حضر ت ابراہیم نے تو اللہ کے حکم پر اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری چلانے کی ٹھان لی اور حقیقت میں اپنے بیٹے جو نبی بھی تھے کو قربان کرنے سے بھی کسی لیت و لعل سے کام نہ لیااور حکم خداوندی کے سامنے سر تسلیمِ خم کردیا آج ہم بھی بڑے شوق وجذبے سے سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیںاور اس کے لئے نوٹوں کی بوریا ں اور تجوریاں کھول دیتے ہیں پچاس پچاس لاکھ کے جانور سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے نام پر خرچ کردیتے ہیں لیکن اس کے پیچھے سنت کی ادائیگی کا جذبہ کارفرما نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں سارا سال کاروبارمیں بے ایمانی ،کم تولنا ،مرچوں میںلکٹری کا بورا ملاکر بیچنا ،مردار گوشت فروخت کرنا، امانت میں خیانت ہر چیز میں ملاوٹ غریب پر ظلم رشوت لے کر انصاف کا گلاگھونٹنا ہمارا وطیرہ ہے
عید میلاد النبیۖ، عید الفطر، عید قربان اورشب ِبرات جیسے مقدس ایام میں بددیانتی اور بے ایمانی سے کمائی ہوئی دولت سے چند روپے خرچ کرکے خود کو بڑا مسلمان بناکر پیش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہم دنیا و آخرت میں کامیابی کی تمام منازل طے کرلیں گے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دکھاوے کی عبادت رب زوالجلال کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ سارا سال آپ لوٹ مار کرتے رہواور شوبازی کے سجدوں اورقربانیوں سے اللہ کی پکڑ سے بچ جائیںہمسائے فاقوں میں رہیں ،غریب کے بچے ایک ایک لقمے کو ترسیں اور آپ کے دسترخوانوں پر نت نئے اور چسکے دار کھانوں کے انبار لگے ہوں بچ جانے والے کھانے روڑی کی نذر ہوں یا پھرآپ کے کتے اس سے انجوائے کریںآپ اپنے کتوں کا پیٹ انگریزی فوڈ سے بھریں
ایک غریب باپ اس لئے دیر سے گھر آئے کہ کہیں بچوں نے کھانا مانگ لیا تو کیا جواب دوں گا اورغریب ماں اپنے شوہر کو اس شرمندگی سے بچانے کے لئے بچوں کو یہ کہہ کر جلدی سلادے کہ بچو !جلدی سو جاؤ خواب میں فرشتے کھانا لے کر آتے ہیں باپ گلی میں کھلونے بیچنے والے کی آواز سن کر بچوں سے چھپتا پھرے کہ اگر انہوں نے کھلونے کی فرمائش کر دی تو ان کو کیا منہ دکھاوں گالیکن ان غریبوں کے بچوں کے دلوں میں کھلونوں سے کھیلنے کی حسرتیں نہیں پلتیں اور نہ ہی ان کی آنکھوں میں سہانے خواب بستے ہیں اپنے بچپن کا گلا گھونٹ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہو ٹلوں سرمایہ داروں کے گھروں میں محنت مزدوری کرنا شروع کردیتے ہیں سردیوں کی راتوںمیں گلی گلی بازار بازار جب یہ معصوم آوازیں گرماانڈے گرم انڈے کی گونجتی ہیں تو ان گلیوں اور بازاروں میں رہنے والوں کے کانوں پر بڑی گراں گذرتی ہیں
کیونکہ اس سے ان کے بچوں کی نیند خراب ہو رہی ہوتی ہے اور انہوں نے اسکول بھی جانا ہوتا ہے رشتہ داروں اور معا شرے میںناک رکھنے کے لئے قربانی کے لئے مہنگے سے مہنگا جانور خریدنے والے اپنا ناک تو بچا لیتے ہیں لیکن غربت بھوک افلاس کے ہاتھوں بکنے والی عزتیں نہیں بچاتے بال بچے سمیت فاقوں کے ستائے ہوئے ان خاندانوں کو نہیں بچاتے جو بال بچے سمیت خود کو آگ لگا کر یا پھر چلتی ٹرین کے آگے لیٹ کر جینے کی تہمت سے چھٹکارا پاتے ہیںقربانی کی سنت کو رسم بنانے والے یہ بڑے بڑے لوگ کیا جانیں کہ بھوک ننگ کیا ہے ؟وہ کیا جانیں جب کوئی ماں باپ اپنی بیٹی کو جسم فروشی کے دھندے پر لگاتا ہے تو اس کے لئے نہ جانے وہ کتنی بار اپنے ضمیر کو بھوک کی آگ میں جھونکتا ہے کتنی ہی بار اپنی روح کو فاقوں کا کفن پہنا کر فاقوں کے ہی قبرستان میں دفن کرتا ہے یہ کیا جانیں ان کے اس درد کو؟ ان کو تو مطلب ہے اپنی ناک کو اونچا رکھنے سے رشتہ داروں کو نیچا دکھانے سے یہ کیا جانیں بچپن کے چھن جانے کا کیا درد ہوتا ہے؟
کھلونوں سے کھیلنے کے دنوں میں جھوٹے برتنوں سے کھیلنے کی اذیت کیا ہوتی ہے؟ جب بستے کا بوجھ اٹھانا تھا تواس وقت بھٹے کی اینٹیں اٹھانے کے لئے کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیںہمارادیس تو ایسا دیس ہے کہ گلی گلی شہر شہر ملا ںکا شور کہ مسجد زیرتعمیر ہے چندہ دے کر ثواب دارین حاصل کریںجبکہ پھٹے پرانے کپڑے بھوکے پیٹ ننھا بچہ یہ سوچ رہا ہے کہ کاش میں بھی مسجد ہوتا اور میرا تن بھی ڈھانپا جاتا اوربھوک سے چھٹکارا ملتاان فاقوں کے ماروں کو عید قربان پر بھی دھوکہ ہی دیا جاتا ہے یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ ہر طرف قربانی کے جانور زبح کئے جاتے ہیں اور ہر گھر میں گوشت پہنچتا ہے
لیکن نمائشی قربانی دینے والے اس میں بھی دو نمبری کرجاتے ہیںلذت سے بھرا گوشت فریجوں اور فریزروں میںاسی طرح جمع کرلیتے ہیں جس طرح انہوں نے بے ایمانی بددیانتی ملاوٹ اور کم تول کرکمایا ہوا سرمایہ اپنی تجوریوںمیںچھپا یاہوتا ہے سارا سال اپنی خواہشوں خوابوں اور ضرورتوں کی قربانی دینے والوں کو عید قربان کے موقع پر بھی وہ گوشت دیتے ہیں جونہ تو انہوں نے خود کھانا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے رشتہ دار کھاتے ہیں جبکہ غربت کے مارے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کی قربانی دے کر عید قربان میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور لاکھوں روپیہ خرچ کرکے جانور زبح کرنے والوں کو دل ہی دل میں کچھ اس طرح سے خراج عقیدت
پیش کرتے ہیں کہ
خود ہی بنا کر خود ہی کھا گئے
خیرات بھی اب غریبوں کے حصے نہیں آتی
مسلمان جو ہوئے ،آخری رسول کے امتی اور ان کی شفاعت کے طلبگار بھی ہیں لیکن ہمار ے اعمال بلکہ ہماری کرتوتیں ایسی ہیں کہ جن کو بیان کرنا شروع کردیں تو زندگی ختم ہو جائے پر ہماری ریاکاری لالچ خودغرضی اور بے حسی کی داستانیں ختم نہ ہوںعیدالفطر ہو یا عیدالضحی ہم ان مقدس دنوں میں بھی لالچ کی بھٹی کا ایندھن بن جاتے ہیں ویسے تو ہم غیر مسلموں پربڑے بڑے فتوے لگاتے ہیں حالانکہ جب ان کا کوئی مذہبی تہوار آتا ہے تو وہ ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کی بجائے آدھے سے بھی کم کردیتے ہیں لیکن ہمارا خود کا یہ عالم ہے کہ ہر مذہبی تہوار کے موقع پر تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیتے ہیں رمضان کے شروع ہوتے ہی ہر چیز عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے عید قریب آتی جاتی ہے لوگ اشیائے خوردو نوش کے لئے مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں اب عید قربان کا موقع ہے تو پیاز ،آلو، ٹماٹر نایاب ہوتا جارہا ہے
عام دنوں کی نسبت ان کی قیمتوں میں دگنے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے انتظامیہ اس ہوشربا مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے خود عید کمانے میں مصروف ہے عام شہری کا کون ہے جو اسکا پرسان حال ہو وطن عزیز میں عام اور غریب آدمی ہی ہمیشہ سے ظلم کی اس چکی میں پس رہا ہے اور ہمیشہ پستا رہے گا کیونکہ وہ اس کا عادی ہو چکا ہے ظلم سہنے والا بھی ظالم سے کم نہیں ہوتا تو پھر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا
ایلیٹ کلاس سے لے کر ایک لقمے کو ترسنے والے تک سب ظالم ہیں یہ ہم نہیں کہتے یہ تو مشہور ہے کہ” ظلم سہنے والا بھی ظالم ہوتا ہے” اب تو بارگاہ ایزدی میں یہی درخواست ہے کہ میرے اللہ ایسی چیخ لگانے کی قوت دے کہ بے حسی کی قبر سے غافل مردے نیند کا کفن پھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوں اور ظلم کی اس بستی میں آواز حق بلند کرکے دنیا کو بتا دیں کہ ہم ظلم سہنے والے ظالم نہیں واصف علی واصف نے کیا خوب کہا ہے کہ” جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے”۔
تحریر : سفینہ نعیم