تحریر: سجاد گل
عید بلا شبہ ہر مسلمان کے لئے خوشی کا تہوار ہے ، عید وہ بھی عیدِ قربان، بچوں کیلئے تو اس عید پر مزے ہی مزے ہوتے ہیں،نئے کپڑوں کا مزہ ،لش پش جوتوں کا مزہ،کڑک کڑک نوٹوں کا مزہ، قربانی کا مزہ،بھنے ہوئے گوشت ،تکے کباب کا مزہ ،مگر ان سب سے ہٹ کر وہ مزہ ،، جیسے تیمور اپنے ابو سے کہتا ہے ابو آپ بکرہ کب لائیں گے دانی لوگ بکرالے آئے ہیں اور عمر کے ابو بھی آج لے آئیں گے، ابو آپ لائیں نا بکرا تا کہ ہم اسکے گلے میں ہارڈال کر گلی میں گھمائیں اسے چارہ کھلائیں کتنا مزہ آئے گا ابو کب لائیں گے بکرا،ابو،،،بیٹا کل تنخواہ ملے گی سیدھا منڈی جا کر اپنے پیارے بیٹے کی طرح پیارا سابکرا لے آئوں گا،یہ سن کر گویا تیمور کی تو عید سے پہلے ہی عید ہو گئی،اگلے دن بجائے اس کے کہ امی تیمور کو ٢٥ دفعہ جگائے اسکے بعد وہ بستر کی جان چھوڑے وہ سب کو جگاتا ہے ،اور ابو کو یہ کہتے ہوئے جگاتا ہے کہ ا بو اٹھیں نا کہیں لیٹ نہ ہو جائیں آج بینک بھی جلدی بند ہوں گے آپ کو سیلری ملنی ہے اور آپ نے بکرا بھی لانا ہے،ابو اٹھتے ہیں اور ناشتہ کر کے چل دیتے ہیں۔
تیمور بغیر ناشتہ کئے اپنی پاکٹ منی سے ١٠٠ کا نوٹ نکالتا ہے اور کرمو چچا کی دکان کی طرف چل دیتا ہے تا کہ وہ بکرے کیلئے ٣٥ روپے والا ہار اور ١٠ ، ١٠ والے ٥ گھنگرو لائے، وہاں پہنچا تو دکان بند دیکھ کر اپنے آپ سے مخاطب ہوا یہ کیا ابھی تک کرمو چچا کی دکان کیوں بند ہے اتنی دیر ہو گئی ہے جب کہ دیر کرمو چچا کو نہیں بلکہ تیمور کو آج جلدی پڑی ہوئی ہے،کہ کسی طرح اسکے ہاتھ بکرا آئے اور وہ بھی وہی کچھ کرے جو سب بچے کرتے ہیں،تیمور کے کرمو چچا کی دکان پر ایک درجن چکر لگانے کے بعد بالآخر کرمو چچا کی دکان کھل ہی جاتی ہے، تیمور اپنا مطلوبہ سامان لینے کے بعد گھر آجاتا ہے،اب ابو کا انتظار شروع ہو جاتا ہے،ابو کی آمد کی خوشی کے پیچھے بکرے کی آمد کی خوشی ہے، کبھی تیمور بکرے کیلئے لائے ہار اور گھنگرو اپنے گلے میں ڈال کر ہاتھ پیر زمین پر لگا کر میں میں کرتا چلتا ہے۔
دوسری طرف ابو پیسے لئے منڈی پہنچ جاتے ہیں جب کوئی بکرا پسند آتا ہے تو ریٹ سن کر اپنی جیب سے پیسے نکال کر گنتے ہیں اور دوبارہ جیب میں ڈال لیتے ہیں،یہ عمل وہ ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ کرتے ہیں جب کہ انہیں معلوم بھی ہے کہ انکی جیب میں ٢٥٢٧٠ روپے موجود ہیں،بالا آخر ایک بکرا انکی استعطاعت پر اتر ہی جاتا ہے اور ١٧٥٠٠ میں سودا فائنل ہو جاتا ہے،جب وہ بکرا لے کر وہا ں سے رخصت ہونا چاہتے ہیں تو بکرے کا سابقہ مالک کہتا ہے بھائی جان میری رسی تو واپس کر دیں ،نہیں تو ١٠٠ روپے اس کے بھی ادا کریں،ارے بھائی رسی تو بکرے کے ساتھ ہی ہوتی ہے میں پہلی دفعہ تو بکرا لے نہیں رہا ،،،بکرے کے سابقہ مالک نے اپنی مونچھوں کو تائو دیا اور کہا ،،اگر تم نے سودا نہیں کرنا تو یہ لو اپنے پیسے اور زیادہ باتیں نہ کرو ہم بھی پہلی دفعہ بکرا بیچنے نہیں آئے ہمارا بھی خاندانی کام ہے یہ،تیمور کے ابو نے ١٠٠ کا نو ٹ اس خطرناک چہرے والے آدمی کو تھمایا اور اسی میں اپنی خیر سمجھتے ہوئے جان چھڑائی، ابھی چار پانچ قدم آگے چلے ہوں گے کہ ایک میلے کچیلے کپڑوں والا مریل سا بندہ انکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا بھائی صاحب مجھ پر ایک احسان کر دیں آپکی بہت مہربانی ہو گی۔
جی جی بھائی بولیں ،،،بھائی جان وہ آدمی نظر آ رہا ہے آپ کو جس کے پاس گدھا پکڑا ہوا ہے،،،جی جی بھائی آ رہا ہے نظر،،،در اصل میرا اور اسکا سودا ہو رہا تھا وہ ١٠٠٠٠ روپے مانگ رہا تھا اور میں اس پر بضد تھا کہ آخری ٩٥٠٠ ہی دوں گا وہ بگڑ گیا اور اب میں اسے ١٠٠٠٠ ہزار بھی دے رہا ہوں مگر وہ کہہ رہا ہے اسے میں مفت تو دے دوں گا مگر تمہیں نہیں دوں گا،مگر میں وہ گدھا لینا چاہتا ہوں آپ یہ ٠٠٠٠ ١ روپے لیں اسکے پاس جائیں اور وہ گدھا خرید کر مجھے لا دیں بکرا مجھے پکڑا دیں تا کہ اسے شک نہ گزرے،جی جی بھائی یہ بھی کوئی کام ہے اور احسان کی کیا بات ،،،تیمور کے سیدھے سادے ابو نے بکرا اسے تھمایا اور اس گدھے والے شخص کی طرف چل دیا۔ کچھ سوداگروں والی بول چال کے بعد اس شخص نے ١٢٠٠٠ قیمت لگانے کے بعد ١٠٠٠٠ روپے میں اس بندئہ خدا کو گدھا تھما دیا البتہ اس شخص نے رسی کی قیمت نہیں مانگی،جب وہ گدھا لے کر واپس آئے تو نہ وہ آدمی موجود تھا اور نہ بیچارہ بکرا، دوسری جانب رخ کیا تو گدھے والے صاحب بھی بستر گول کر چلے تھے۔
یہ بھولے میاں اب اسی منڈی میں گدھے کو بیچنے کی کش مکش میں لگ گئے،مگر گدھے کی قربانی بھی تو نہیں لگتی کے کوئی انکی طرح مجبور آدمی قربانی کے لئے گدھا لے لیتا،پوری منڈی میں ٥٧ چکر لگانے کے بعد بھی انہیں کوئی گدھے کا خریدار نہ ملا ،بالآخر ایک شخص نے آ کر پوچھ ہی لیا ،،کتنے کا دینا ہے،،،جی بھائی صرف ١٠٠٠٠ کا، اس شخص نے گدھے کا میڈیکل کیا تو پتا چلا یہ تو ایک آنکھ سے کانا ہے، اور اس آدمی نے یہ کہتے ہوئے اپنی راہ لی،،ارے فراڈ کرتا ہے، کانا گدھا بیچ کر،اب مزید ان سے برداشت نا ہوا اور وہ معذور گدھا لے کر اپنے گھر کی جانب چل دیا، آگے تیمور اپنے دوستوں کو اکٹھا کر کے بکرے کے استقبال کے لئے پہلے سے ہی گلی میںکھڑا تھا ، ابو کو گدھا لاتے دیکھ کر اسکے اوسان خطا ہو گیا، اور چکرا کر گر پڑا۔
تحریر: سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009
D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi