تحریر: محمد محبوب ظہیر آباد
اسلام دین فطرت ہے اور اس کے بتائے ہوئے سارے طریقے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں۔ اللہ نے مسلمانوں کو خوشی کے جو مواقع عطا کئے ہیںوہ عیدین کے مواقع ہے۔ عیدالفطر ماہ رمضان میں روزے رکھنے کے بعد خوشی کے اظہار کا موقع ہے تو عیدالاضحی حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کا موقع ہے۔ اللہ کو اپنے پیارے نبی حضرت ابراھیم علیہ السلام کی قربانیاں اس قدر پسند آئیں کہ رہتی دنیا تک ان کی ادائوں کو حج اور عیدالاضحی کے مواقع پر محفوظ کردیا۔ حج کے موقع پر حجاج کرام منیٰ کے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔یہ وہی منیٰ کا میدان ہے جہاں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے لایا تھا۔ تین جگہ شیطان نے آپ کو اللہ کے حکم سے انکار کے لئے بہکایا تھا۔ اور آپ نے تین مرتبہ شیطان کے بہکاوے میں آنے سے انکار کردیا تھا۔
منیٰ کے میدان میں جمرات پر کنکریاں مارنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ کی اطاعت میں شیطان سے دوری اختیار کی تھی اسی طرح زندگی کے ہر معاملے میں ہم اپنے نفس اور شیطان کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ ہر حال میں اللہ کی اور اس کے پیارے حبیب ۖ کی اطاعت اور فرماں برداری کو مقدم رکھیں گے۔ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ کے امتحان میں کامیاب ہوگئے تواللہ نے جنت سے بھیجا ہوا دنبہ قربان کرادیا۔ اللہ کو یہ کبھی منظور نہیں تھا کہ ایک عمر کے بعد انہیں عطا ہونے والا پیارا بیٹا اس انداز میں ان سے لے لے۔ عیدالالضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرنا اسی سنت ابراہیمی کی تکمیل ہے۔دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان اللہ کی رضا کے لئے قربانی کر کے اس سنّت کو ادا کرتے ہیں۔
قربانی کا فلسفہ اگر ایک طرف یہ ہے کہ دنیا میں اپنی محبوب ترین چیز(جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگرحضرتِ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دی) کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا عملی نمونہ بنیں اوربے چون و چرا اللہ کے احکام پہ عمل کریں تو دوسری طرف یہ موقع صاحب استطاعت افراد کے لئے اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو گوشت دے کر اْن کی خوشیوں میں شامل ہونے اور ان کے دکھ درد بانٹنے کا ذریعہ بھی ہے۔ قربانی آدم اور ابلیس کی جنگ اور کشمکش کے تسلسل میں ہمارا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم شیطان کے سارے حیلے بہانوں کو ناکام بناتے ہوئے اور اس کے خوش نما چالوں سے بچتے ہوئے٫ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں اللہ کی ہدایات کے مطابق قربان کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔اور اسی مقصد کوحاصل کرنے کے لئے اللہ نے سو رة الحج کی آیت ٧٣ میں ارشاد فرمایا کہ”اور نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ خون۔مگر اس سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔۔۔”۔ تقویٰ کیا ہے؟ ”وہ تمام کام کرنا جس سے اللہ خوش ہوتا ہو اور ان تمام کاموں سے رکنا جس سے اللہ کے ناراض ہونے کا ڈر ہو”۔ہر سال کی طرح آج ایک مرتبہ پھر ہم عیدالاضحی کے موقع پر اللہ کی جانب سے ہمیں عطا کردہ مال و دولت سے قربانی کے جانور خرید کر اسے اللہ کی رضا کے لئے ذبح کر رہے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں اپنے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے جب مسلمانوں کو دولت دی ہے تو اس کا اظہار بھی عجیب طریقے سے ہورہا ہے۔اللہ نے جب قرآن میں کہہ دیا ہے کہ قربانی کے معاملے میں نہ تمہار گوشت مجھ تک پہونچتا ہے نہ خون بلکہ تمہاری نیت اور تمہارا تقویٰ پہونچتاہے ۔ اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم اللہ کے لئے اخلاص سے یہ عمل کر رہے ہیں کہ دنیا کو دکھانے کے لئے۔ جب شہروں میں بکروں کی مارکیٹ پر نظر ڈالی جائے تو کچھ لوگوں کو بھاری بھاری قیمت کے بکرے خریدتے اور ان کی تصاویر کو فیس بک واٹس اپ پر لگاتے دیکھا گیا کہ دیکھو ہماری دولت کا اظہار۔ اس طرح کے عمل سے ہم ایک طرف اللہ کو ناراض کر رہے ہیں تو دوسری طرف متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی دل آزاری کا باعث بن رہے ہیں۔ جو دل میں یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ نے دولت کیوں نہیں دی۔ قربانی کے معاملے میں کچھ دین بیزار لوگوں کا حال یہ ہے کہ قرض دار ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے قربانی جیسی سنت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ قرضے بے جا بھی ہوتے ہیں اور روز مرہ کے معمولات بھی جاری رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقروض ہونے کو بہانہ نہ بنائیں اور ضرور قربانی دیں۔ قربانی کو گوشت کی تقسیم میں کہا گیا کہ غریبوں رشتے داروں اور خود کے تین حصے کئے جائیں۔
لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ لوگ بکرے کا گوشت زیادہ تر فریج میں رکھ کر مہینے دو مہینے تک استعمال کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ حج کے موقع پر قربان کردہ جانوروں کے گوشت کو جس طرح محفوظ کرکے غریب ممالک کے عوام تک پہونچانے کا نظم کیا جارہا ہے اسی طرح ہندوستان میں بھی گوشت کی غریبوں تک بہتر طور پر تقسیم کے نظام کی کوشش ہونی چاہئے۔ صفا بیت المال ‘مجلس ختم نبوت ‘جماعت اسلامی اور دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے قربانی کے گوشت کے حصول اور دیہاتوں کے غریبوں تک تقسیم کی مثالیں گزشتہ کچھ سال سے مل رہی ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اہل ثروت گھرانوں کے جو بچے بیرون ملک مقیم ہیں ان کی بڑی تعداد میں قربانیاں ہندوستان میں ہوتی ہیں۔ اور بعض گھرانوں میں گوشت کی کثرت دیکھی گئی۔ اس لئے ایسے گھرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی قربانیاں ایسے مراکز پر کرائیں جہاں گوشت کی غریبوں تک مناسب تقسیم کی سہولت ہو۔ اگر گھر پر قربانی ہو تو کوشش کی جائے کے وافر مقدار میں موجود گوشت غریبوں تک پہونچے۔ گھر آئے غریبوں کو اور غیر مسلموں کو جو چاہتے ہیں کہ گوشت دیں انہیں ضرور قربانی کو گوشت دیا جائے۔ ان دنوں ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں بیل کی قربانی پربھی پابندی ہے۔ بیف پر پابندی کے عنوان سے مسلمانوں کو بڑے جانور کی قربانی سے منع کیا جارہا ہے۔
جو لوگ بکرا خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کے لئے یہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے اللہ کی مدد اور سیاسی سطح پر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمارے مسلم قائدین اور سیاست دانوں کو غیرمسلمین کے سامنے یہ واضح کرانے کی ضرورت ہے اسلام نے جو طریقہ قربانی پیش کیا ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ اللہ نے حلال جانوروں کی پرورش کا نظام رکھا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ہر سال کٹنے والے جانور پھر اگلے سال تک دستیاب رہتے ہیں۔ اور یہ کہ ان حلال جانوروں کا گوشت اللہ نے جسم انسانی کی پرورش اور اس کے بعد اچھے کاموں کے لئے اس جسم کو استعمال کرنے کے لئے رکھا ہے۔ ہمارے قائدین اور دین کی دعوت پیش کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کے سامنے یہ بات رکھیں کہ مغربی ممالک میں حرام جانور جیسے خنزیر وغیرہ کا ناجائز حرام گوشت کھانے سے کیسے لوگوں میں بے حیائی عام ہورہی ہے۔ اور یہ کہ ان حلال جانوروں کو ذبح نہیں کیا گیا تو کیسے ان کی تعداد بڑھنے سے دشواری ہوگی۔
ہمیں یہ دعوت بھی رکھنی ہے کہ گائے اللہ کی مخلوق ہے۔ یہ کیسے ماتا ہوسکتی ہے۔ جب اسے کھانے پینے کی حاجات ہوں تو وہ کیسے ماتا ہوسکتی ہے۔ ہمیں کسی کی دل آزاری منظور نہیں لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غیروں تک یہ بات پہونچائیں کہ عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی عین فطرت کے مطابق ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑی تعداد میں جانور ختم کئے جارہے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ پھر اگلے سال یہ جانور کہاں سے آرہے ہیں۔ اسی طرح ہم مرغ کو کاٹ کر کھارہے ہیں جب ہمدردی کی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ بہر حال ان ریاستوں میں جہاں بیل کی قربانی پر بھی پابندی عائد ہے وہ لوگ کوشش کریں کہ ان ریاستوں میں منظم طریقے سے اپنی اجتماعی قربانیاں کرائیں جہاں بیل کی قربانی کی اجازت ہے۔اور گوشت کو غریبوں میں تقسیم کرانے کا انتظام کرادیں۔ قربانی کے معاملے میں کچھ دین بیزار لوگوں کا یہ معاملہ ہے کہ جب اپنی عزیز چیز قربان کرنے کی بات آتی ہے تو ہم جانور ہی کیوں ذبح کریں کچھ اور مال و دولت اللہ کی راہ میں قربان کیوں نہ کردیں۔ ایسے دین بیزار لوگوں سے کہہ دینا چاہئے کہ قربانی کرنا سنت عمل ہے۔ اور اس کے ذریعے سے جو جذبہ قربانی پیدا ہورہا ہے اس سے ہم اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے دیگر مواقع پر اپنی ہردلعزیز چیزیں قربان کرنے کے اہل بنیں۔
مسلمانوں سے امید ہوتی ہے کہ پاکی آدھا ایمان ہے پر عمل کرنے والی یہ قوم عید قربان کے موقع پر صفائی کا انتظام کرے گی۔ لیکن ہر سال دیکھا جارہا ہے کہ عید کے موقع پر مسلم محلوں میں بدبو اور تعفن ناقابل برداشت ہوتاہے ۔ لوگ گھروں میں قربانی کرتے ہیں لیکن صفائی کا خیال نہیں کرتے۔ خون اور گندگی باہر گلیوں میں بہتا رہتا ہے اور کچرے کی کنڈی میں قربانی کی گندگی ڈال دی جاتی ہے۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم صفائی کا خاص خیال رکھتے اور دوسروں کو تکلیف نہیں دیتے۔ اس سال ٹیم بقرعید کے نام سے حیدرآباد میں مہم شروع کی گئی ہے کہ قربانی کے موقع پر مسلمان گندگی نہ پھیلائیں اور ماحول کو صاف ستھرا رکھیں گے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اضلاع میں خاص طور سے بڑے جانور کو گھروں کے سامنے کاٹتے ہیں اور اس کے مناظر کے ویڈیو بنا کر فیس بک اور واٹس اپ پر ڈالتے ہیں۔ ذبح کے مناظر اس طرح عام کرنے سے لوگوں پر مسلمانوں کے تعلق سے غلط تاثر پڑتا ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بڑے جانوروں کی قربانی محلے سے باہر کسی میدان میں ‘ کسی مدرسے کے احاطے میں ہو اور وہاں سے گوشت گھر میں منتقل کیا جائے۔ اس سے صفائی بھی رہے گی اور گھروں کے سامنے یا محلوں میں تماشہ بھی نہیں بنے گا۔ شہروں میں سرا پائے بھوننے کے جو مراکز گھروں اور گلیوں میں لگ رہے ہیں اس سے بھی آلودگی اور بدبو پھیل رہی ہے ۔
اس کام کو بھی کسی میدانی علاقے میں کرایا جائے تو مناسب ہوگا۔ قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت بھی ہر سال مسئلہ بنتی جارہی ہے خود ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے لاکھ تیقنات دینے کے باجود راستوں میں قربانی کے بڑے جانوروں کو روکا جارہا ہے اور لوگوں کو ستایا جارہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے یہ کہا جارہا ہے کہ لوگ اضلاع یا دیہات میں خریداری کر رہے ہوں تو معاملت ہونے کے بعد ہم جانور کے مالک سے یہ کہیں کہ وہ جانور کو ان کے مقام تک پہونچانے کی ذمہ داری لے تب ہی جانور خریدے جائیں اور خریداری کی رسید لی جائے ۔ ورنہ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ جو شخص فروخت کر رہا ہے وہ ہی پولیس کو خبر دے رہا ہے کہ فلاں گاڑی میں جانور جارہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کے بچنے کے لئے ہمیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ شہروں میں سڑکوں پر بکرے فروخت کرنے سے ٹریفک کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شہر کے باہر کے میدانی علاقوں میں بازار قائم کریں اور سڑکوں پر بازار لگاتے ہوئے ٹریفک کے مسائل پیدا نہ کریں۔
اس سال حکومت نے ٹولی چوکی کے علاقے میں بازار لگانے کی شائد اجازت نہیں دی ہے۔میدانوں میں بازار لگانے سے ہی اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ قربانی کی اس عید کے موقع پر اہم مرحلہ چرم کی ادائی کا ہوتا ہے۔ اکثر دینی مدارس چرم کے حصول کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ تحقیق کے بعد ان مدارس اور اداروں کو اپنا چرم دین جن کے بارے میں اطمینان ہو کہ وہاں اس چرم کا صحیح مصرف ہوگا۔ جو لوگ قصائی کی دکانوں سے حصہ لیتے ہیں وہ اطمینان کر لیں کہ فی حصہ کچھ رقم لے کر جو قربانی یہ لوگ کرتے ہیں وہ چرم کو کٹوائی کے بدلے میں نہیں رکھتے بلکہ چرم خیرات کردیتے ہیں۔ حیدرآباد کے اکثر قصائی کٹوائی کے بدلے چرم رکھ لیتے ہیں اور حصہ لینے والوں کو آگاہ بھی نہیں کرتے اس سے قربانی درست نہیں ہوگی۔ اس لئے حصہ لینے والے ان مقامات پر حصہ لیں جہاں چرم کا درست مصرف ہوتا ہے۔بہر حال ہر سال کی طرح اس سال کی عیدا لاضحی ہمارے لئے اللہ کا ایک انعام ہے کہ ہم اس کی دی ہوئی دولت میں سے جانور قربان کرتے ہوئے اللہ سے اطاعت کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔اور یہ عہد کرتے ہیں کہ اللہ اگر چاہے تو ہم اپنی ہردلعزیز چیز اپنی جان ‘اولاد مال سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے تیار ہیں۔ ہمیں اس موقع پر اللہ سے دعا کرنا چاہئے کہ اللہ ہماری قربانی کو قبول فرمائے اور جن علاقوں میں مسلمانوں پر مشکل حالات پیش آرہے ہیں وہاں ان کے لئے آسانیاں فراہم ہوں اور دنیا میں اسلام کی سربلندی ہو(آمین)
تحریر: محمد محبوب ظہیر آباد