تحریر : اشفاق چوہدری، پیرس
یوں تو یورپ بھر میں وطن عزیز پاکستان سے لوگ جو کے مزدوری کی غرض سے یہاں آباد ہیں اور اپنی انتھک محنت سے پورے کا پورا خاندان زر مبادلہ پاکستان بھیج کر چلا رہے ہیں. ان میں سے اب بہت سے یہاں کی سیاست میں حصہ دار بھی بن رہے بہیں اور فلاحی تنظیموں کے حوالے سے اپنی خدمات پردیس میں سر انجام دیتے نذر آ رہے ہیں.
کچھ ایسے بھی ہیں کے ان کا تعلق کاروباری شخصیات ممبر پارلیمنٹ و سینیٹرز کے ساتھ بھی خاصہ بنتا ہے لیکن یہ سب جو اپنی واقفیت بتاتے ہیں اپنے مراسم اچھے دکھاتے بھی ہیں پیرس کے میئر کے اک بیان جس میں انہوں نے اک مقامی ریڈیو ا ور اخبار کو کہا ہے کے ہم ایفل ٹاور کو پاکستانی پرچم (سفید اور سبز) میں رنگ نہیں سکتے کیوں کے ہمارے تعلقات بیلجیم سے اور قسم کے ہیں اور پاکستان سے اتنے نزدیک کے نہیں. اس بیان کے بعد پاکستانی کمیونٹی کی ایلیٹ اور یہاں کے لوکل پاکستانی سیاستدانوں کے مقامی انتظامیہ سے تعلقات کا اندازہ اچھی طرح ہو گیا ہے.
پاکستانی سوشل میڈیا پر غلطاں ہیں اور دھڑا دھڑ بحریہ ٹاون لاہور و اسلام آباد میں چھوٹے ٹاور کی فوٹو وہ بھی سبز رنگ والی پوسٹ کر رہے ہیں بنا کسی تحقیق کے یعنی مان نہ مان میں تیرا دلبر جان، بلا شبہ اس میں حکومت وقت کی نہ اہلی بھی ہے اور یہاں پیرس میں موجود سفارت کھانا پاکستان کی سستی بھی. حالانکے حکومت پاکستان کے ڈیفنس اور کمرشل تعلقات فرانس حکومت کے ساتھ بہت اچھے ہیں لیکن بات ہے اصل سستی کی.
باقی ہر بات میں حکمرانو سے لے کر نوکر شاہی تک رنگینیوں کا خوب خیال رکھا جاتا ہے یقینن جو لوغ لاہور اور دیگر واقعات میں شہید ہوے ہیں وہ ایفل ٹاور کو رنگ دینے سے اپنے خاندان میں واپس نہیں آجائیں گے لیکن اس بات سے لوگوں میں تشویش ضرور پائیی جاتی ہے کے مرنے والوں کی قدر اک جیسی نہیں.
انٹرنیشنل میڈیا بھی یہی سابط کرتا ہے اپنے رویہ سے جس سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وو مزید بربریت دیکھا تے ہیں .اگر مہذب دنیا اس دہشت گردی کے عفریت سے نجات چاہتی ہے تو اس کو انسانی خون کی قدر کرنا ہو گی اور بلا تفریق اس مسلے کو انجام تک پونہچانا ہو گا.
تحریر : اشفاق چوہدری، پیرس