16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول میں جب درندے حملہ آور ہوئے تو آڈیٹوریم میں جس پر ان کی پہلی نظر پڑی وہ ولید ہی تھا
لاہور (ویب ڈیسک) مثل یوسف ، نازک اور حسین کہ بیان سے باہر اور خاموش اتنا لیکن جب بولے تو سننے والا سنتا ہی رہے ، 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کی آٹھ گولیاں کھا کے بھی دشمن کو للکارنے والے نڈر طالبعلم غازی ولید خان ہیں ۔
دانت کھٹے کرنے والا ، لغت میں یہ الفاظ پڑھ کر کسی جواں مرد کا خیال آتا ہے لیکن یہ الفاظ ہم جس کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہ چودہ سال کا حسِین لڑکا ولید خان ہے ۔16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول میں جب درندے حملہ آور ہوئے تو آڈیٹوریم میں جس پر ان کی پہلی نظر پڑی وہ ولید ہی تھا ، کلاس پراکٹر ہونے کی وجہ سے اس کی ذمہ داری تھی کہ فرسٹ ایڈ کے لیکچر میں تمام سٹوڈنٹس کو ڈسپلن کے ساتھ آڈیٹوریم میں لاتا لیکن قدرت اس سے کچھ اور ہی کام لینا چاہتی تھی ۔ایک دو نہیں آٹھ گولیاں کھانے کے باوجود ہر بار کھڑا ہوا ولید جب ہسپتال پہنچا تو باپ کے لیے اسے پہچاننا مشکل تھا ، ایک قیامت ہی تو تھی جو اس پر ٹوٹ پڑی تھی ، پختون روایت سے ہٹ کر باپ باپ نہ رہا ولید کا یار بن گیا ، ماں غشی میں سجدے کی حالت میں رب سے اس کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی لیکن ہمیں روشن کرنے کے لیے اس ستارے نے تو چمکنا ہی تھا ۔کون کہتا ہے کہ غازی ہونے کے لیے جواں مرد ہونا ضروری ہے اگر قدرت مہربان ہو تو چودہ سالہ لڑکا بھی یہ کام کر سکتا ہے ، غازی ہی تو ہے دشمن کی آٹھ گولیاں کھانے کے بعد آج بھی ولید میدان میں ہے ۔