بیوی نے شوھر سے گلہ کیا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ھے ! جس پر شوھر نے پلٹ کر جواب دیا، یہ بچے کیا عامر لیاقت کے پروگرام سے گفٹ میں لائی ھو؟ پہلے یہ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ’ یہ بچے کیا گوگل سے ڈاؤن لؤڈ کیئے ھیں؟ بات لطیفے کی نہیں، بات ھماری نفسیات کی ھے،،جب بھی کسی بیوی نے شوھر سے گلہ کیا ھے کہ اسے اب بیوی سے محبت نہیں رھی تو شوھر نے بچے پکڑ کر اس کے سامنے ثبوت کے طور پر کھڑے کر دئیے،،یا ان کی طرف اشارہ کر دیا ! کیا بچے پیدا کرنا محبت کی نشانی ھے یا کیا بچے محبت کا ثبوت ھیں،، یا کیا جنسی تعلق محبت کا ثبوت ھے ؟؟؟؟ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ھے،، بچے درجن بھی ھوں تو ضروری نہیں کہ ان میاں بیوی کو آپس مین محبت بھی ھو، ، جنسی جذبہ اور جنسی تعلق ایک حیوانی جذبہ ھے ،جنسی تعلق میں انسان اور حیوان صرف ایک ھی جذبے، ایک ھی ضرورت کے غلام ھوتے ھیں، دونوں میں انیس ،بیس کا فرق بھی نہیں ھوتا، اس لئے جنسی تعلق اور افزائشِ نسل کو محبت نہ کہا جا سکتا ھے ،نہ محبت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ھے،،
ھماری اسی غلط فہمی کا نتیجہ ھے کہ گھروں سے محبت کا جنازہ نکل چکا ھوتا ھے اور ھم اولاد کو دیکھ دیکھ کر محبت کی وافر موجودگی کا یقین کیئے بیٹھے ھوتے ھیں،، پھر محبت کیا ھے ؟ محبت ایک جذبہ ھے، جو اپنے اثرات اور نشانیاں رکھتا ھے،، اس کے شواھد ھوتے ھیں،، محبت اپنے محبوب کے سامنے سرنگوں رھتی ھے،، محبوب کی مرضی میں اپنی مرضی گم کر دیتی ھے،،وہ محبوب کو خوش کر کے اس کی خوشی میں سے اپنی خوشی کشید کرتی ھے،،اس میں انا کوئی نہیں ھوتی،، اس میں اتھارٹی کی طلب نہیں ھوتی،، وہ اپنے تمام حقوق لکھ کر محبوب کو دے دیتی ھے اور پھر کبھی پلٹ کر صلہ طلب نہیں کرتی،، وہ محبوب کی ناراضی برداشت نہیں کرتی،، وہ پوری طرح اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جاتی ھے،، وہ تو حکم کا انتظار بھی نہیں کرتی وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے محبوب کی پسند کا اندازہ کرتی اور اسے کہے بغیر پورا کرتی ھے،، جب گھروں میں مطالبے ھونے لگیں اور اپنے اپنے حقوق کا رونا رویا جائے ،ھر ایک اپنے دکھ سنانے کے چکر مین ھو،اپنی قربانیاں گنوانے کو بے قرار ھو تو سمجھ لیں محبت اس گھر سے کوچ کر گئی ھے،،اب اس کی لاش کی چیر پھاڑ جاری ھے،، اللہ جب انسان سے محبت کرتا ھے تو اپنی اتھارٹی بھول جاتا ھے،، اپنی شان کے ساتھ سماء دنیا پر تنزل فرماتا ھے ،،بندہ چل کے آتا ھے تو وہ دوڑ کر آتا ھے،، معاف کرنے پر تلا بیٹھا ھوتا ھے ، خود معاف کرنے کے بہانے فراھم کرتا ھے اورسب سے بڑی بات کہ کائنات میں نہ سما سکنے والا قلبِ انسان میں ٹھکانہ بنا لیتا ھے،
جن گھروں میں محبت ھوتی ھے وھاں سزا نہیں ھوتی،، معافی ھوتی ھے،اور معافی مانگنے کا انتظار بھی نہیں ھوتا، عورت کے لیئے سب سے بڑی سزا اس کے شوھر کا ناراض ھو جانا ھے بشرطیکہ اسے شوھر سے محبت ھو،جسمانی مار تو طلاق کی پہلی سیڑھی ھے ! علماء اللہ سے اپنی محبت کے ثبوت میں نماز روزہ پیش کرتے ھیں،جس طرح بیوی کی محبت کے ثبوت میں شوھر بچے پیش کرتا ھے! جبکہ نماز پڑھنے والا ضروری نہیں اللہ سے محبت بھی کرتا ھو،،وہ بھی نمازی ھی ھیں جن کو ویل کی دھمکی دی گئی ھے اور وہ بھی نمازی ھی ھو گا جس پر بخاری کی رویت کے مطابق جہنم بھڑکائی جائے گی،، نماز مسلمان کی نفسیاتی ضرورت ھے،، اصل بات دل کی ھے کہ نماز کے علاوہ بھی دل محبوب کی یاد میں غرق ھو، اور بار بار اسکی گلی کا خیال آتا ھو،، ارشادِ مصطفی ﷺ ھے کہ جو سات بندے قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے کے نیچے ھوں گے ،ان میں وہ بھی ھو گا جس کا دل مسجد میں اٹکا ھو گا،، بہت سارے حج پر جاتے ھیں مگر ضروری نہیں ان کو محبت بھی ھو،، اپنی جنت کا چکر ساتھ ساتھ ھے،ضرورت اور مطلب پرستی ساتھ ساتھ چلتی ھیں،، محبت ایک الگ جذبہ ھے،جس کی طلب اللہ پاک کو ھے،، والذین آمنوا اشد حباً للہ،، مومن تو شدید محبت اللہ ھی سے کرتے ھیں،،
مصطفی ﷺ فرماتے ھیں تم میں سے کوئی مومن نہیں ھو سکتا جب تک میں اسے اپنی اولاد ،ماں باپ اور ساری دنیا سے زیادہ محبوب نہ ھو جاؤں،، اور محبت کا ثبوت یہ ھے کہ جو تمہیں محبوب ھے وہ محبوب کی خاطر چھوڑ دو،،لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون،، جب تک محبوب کو محبوب پر قربان نہ کرو،محبت ثابت نہیں ھوتی،، ابراھیم کے دل میں اسماعیل کو بسا کر الفت ڈال کر،جب دیکھا کہ دل نے کانٹا نگل لیا ھے، و بلغ معہ السعی،، تو چھری کے نیچے لٹانے کا اشارہ کر دیا،، اور لٹانے والا لٹا کر خلیل بن گیا،، ھمارے گھروں میں یہ منظر شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنی جھلک دکھاتا ھے،، عورت اپنے جہیز کی چیزیں سسرال میں استعمال کرتی نظر آتی ھے،، پھر جوں جوں محبت سمٹتی جاتی ھے،چیزیں دوبارہ پیک ھونا شروع ھو جاتی ھے،، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھروں میں صرف ورکنگ ریلیشن شپ باقی رہ جاتی ھے جس کا ثبوت بچے ھوتے ھیں،،محبت جس گھر میں ھوتی ھے وہ دنیا میں جنت ھوتا ھے، بات بات پر طلاق مانگنا اور بات بے بات طلاق دینا،، پھر فتوے لے کر رکھنا،،یہ کوئی محبت نہیں،،یہ بندہ سوچتا ھے کہ بچوں کا کیا بنے گا،،عورت بھی سوچتی ھے شریک میرے والدین کو طعنے دیں گے،،اپنا اپنا مفاد دیکھ کر گھر بسائے جا رھے ھوتے ھیں ورنہ عورت ایسے شوھر کے ساتھ جنت میں بھی رھنے پر راضی نہیں ھوتی،
مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے 28 سال پرانی بات ھے ھمارے پڑوس میں حیدر آباد انڈیا کی ایک عورت رھتی تھی ،اس کی اپنے شوھر سے بنتی نہیں تھی، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ بہت خوبصورت تھی شوھر اس کے مقابلے کا نہیں تھا، دوسرا وہ امیر گھرانے کی تھی،اس کا والد کویت کا شہری تھا،جبکہ سالم صاحب غریب آدمی تھے،تیسرا وہ عمر میں سالم صاحب سے بہت چھوٹی تھی اور فساد کی چوتھی وجہ یہ تھی کہ سالم صاحب کا زیادہ تر وقت گھر سے باھر سہ روزے اور چلے پر لگتا تھا،،چھوٹے چھوٹے بچوں کی لائن لگی تھی اور زینب کو سودا سلف بھی کسی سے منگوانا پڑتا تھا،، گھر میں فساد کی کیفیت تھی، رمضان کا مہینہ تھا اور عصر کے بعد کا وقت میں اندر لیٹا تھا اور زینب میری امی کے پاس بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی اس نے اتفاقًا پوچھ لیا کہ مردوں کو تو جنت میں حوریں ملیں گی،عورت کو کیا ملے گا،امی نے فرمایا کہ عورت کو اس کا شوھر ملے گا،، اس لڑکی کی بے ساختہ چیخ نکل گئی،،بولی اللہ رے میں ساری نمازیں روزے اس موئے چھوٹی سری والے سالم کے لئے پڑھی؟ میں اب کوئی نماز نہیں پڑھوں گی،یہ سالم میرا پیچھا مر کے بھی نہیں چھوڑے گا،،خطرہ بھانپ کر امی نے اسے فوراً تسلی دی کہ وھاں سالم کا سر بڑا کر دیا جائے گا اور عادتیں ٹھیک کر دی جائیں گی ،اگر پھر بھی اسے پسند نہ ھوا تو اللہ پاک اسے انتخاب کا موقع دیں گے کہ وہ اپنی مرضی کا شوھر منتخب کر لے،،
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ھیں کہ ڈھیر سارے بچے ھونے کے باوجود وہ عورت جنت میں بھی سالم کے ساتھ رھنے کو تیار نہیں تھی،، نماز چھوڑ کر جہنم میں جانے کو تیار تھی،گویا اسے سالم سمیت گھر جہنم سے بھی بدتر لگتا تھا !! عورت سے محبت ھم شادی سے پہلے کرتے ھیں،، جب وہ ھماری محبوبہ ھوتی ھے، محبت کی تکمیل بیوی اور شوہر کے بس کی بات نہیں ہے ،، محبت کی تکمیل محبوب محبوبہ کی مرہون منت ہے جب اس کی ناراضی ھماری نیند اڑا دیتی ھے،جب گھر سے نیا جوڑا اور بال بنا کر انسان نکلتا ھے اور دس چکروں کے بعد آمنا سامنا ھوتا ھے تو صرف ایک نظر پڑ جانے پر انسان سمجھتا ھے اسکی محنت کام آ گئی ھے،جن کے لئے پہنے تھے انہوں نے دیکھ لیا،، اللہ پاک فرماتا ھے،،ھر نماز میں کنگھی پٹی کر کے آیا کرو،،بن سنور کے آیا کرو،، خذوا زینتکم عند کل مسجد،، ھر نماز مین زینت اختیار کر کے آیا کرو،، اس کی وعدہ خلافی مزید آتشِ شوق بھڑکاتی ھے،،اس کا غصہ ادا لگتا ھے،،مگر شادی کے ساتھ ھی ھم افسر بن جاتے ھیں اور وہ ھماری ملازمہ ھو جاتی ھے، اور پھر افسری کی نفسیات شروع ھو جاتی ھیں،، اب اس کا ناراض ھونا اس کا حق نہیں بلکہ ھماری انسلٹ ھوتی ھے،، اب ھم محبت نہیں تابعداری چاھتے ھیں،، پھر اس تابعداری کو ھم ڈنڈے سے پیدا کرتے ھیں،، اور گھر میں ایک چلتی پھرتی لاش ھماری بیوی اور ھمارے بچوں کی ماں کہلاتی ھے..!!ایک حقیقت۔تحریر محمد اشرف سومرو۔