تحریر:صباءاکرم
بس میں اکا دکا سواریاں تھیں میری اگلی سیٹ پہ ایک ضعیف بزرگ بیٹھے تھے جن کی عمر تقریباً 80 سال کے لگ بھگ تھی۔ ہاتھ میں لاٹھی تھامے ہوئے چہرے پہ سوچوں کا جال بچھائے بابا جی کو دیکھ کہ مجھے ان کا بہت احساس ہوا۔ اچانک بس نے یکم دم بریک لگنے سے ایک زور دار جھٹکا کھایا ، سب ہی مسافر بری طرح چونک گئے ۔ مجھے اپنے پیروں میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی باباجی کو نیچے جھکتے کوئی چیز تلاش کرتے دیکھا میں نے سوچا شاید بابا جی کی لاٹھی زمین پر گر گئی ہے ۔ مگر بابا جی کی آواز پہ میں نے ان کی طرف دیکھا جو مجھ سے التجا کر رہے تھے کہ ”بیٹا میرا یہاں کہیں چشمہ گر گیا ہے زرا ڈھونڈ کر دینا” میں نے انہیں غور سے دیکھا تو وہ شاید ٹوٹلنے کے انداز سے مجھ سے مخاطب تھے۔
بابا جی کے ساتھ پیش آنے والا یہ منظر دیکھ کر مجھے ان کی حالت زار پہ بہت دکھ ہوا۔ کمزوری اور کسی پریشانی میں ڈوبے ہونے کے باعث ان سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جا رہا تھا ۔میں نے جلدی سے نیچے جھک کر باباجی کی مطلوبہ چیز تلاش کر کے انہیں دے دی۔ اب مجھے ان سے پوچھے بنا رہا نہ گیا کہ آپ اس عمر میں یوں اکیلے سفر کیوں کر رہے ہیں ؟ آپ اپنے گھر کے کسی فرد کوساتھ لے آتے ۔ میرے یہ کہنے پہ بابا جی کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں وہ کانپتی آواز میں کہنے لگے ”بیٹا کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میرے ساتھ آسکے اس لیے دوائی لانے کے لیے خود ہی آنا پڑا ”۔ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پہ کرب کے اثرات واضح طور پہ دیکھے جا سکتے تھے میرے دماغ میں بہت دیر تک بس ایک ہی جملہ گونجتا رہا کہ ”کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میرے ساتھ کوئی آسکے” ۔ میرے دماغ میں بار بار ایک ہی سوال اٹھ رہا تھا کہ کہ کیا واقعی آج کل کے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے بزرگوں کا خیال رکھ سکیں۔
ہماری نئی نسل ترقی کی دوڑ میں جتنی تیزی سے آگے جا رہی ہے اتنی ہی تیزی سے اپنا قیمتی اثاثہ پیچھے چھوڑتی جارہی ہے ۔دنیا میں آگے بڑھنے اور پیسے کی ہوس نے ہماری نئی نسل کی آنکھوں پہ لالچ کی پٹی باندھ دی ہے ، اس لالچ کی پٹی نے ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت اور ورثہ کو دھندلا دیا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت میں دن رات خود کو مصروف رکھنے میں ہم اپنے بزرگوں کو بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے دن رات محنت کریں اور معاشرے میں ان کا کوئی نام اور پہچان ہو۔ دوسرے لوگ اچھے منصب کی وجہ سے انہیں سیلوٹ کریں انہیں پڑھائی اور اچھے مقام و مرتبہ کی ترغیب تو دیتے ہیں لیکن انہیں اپنے بزرگوں کے لیے وقت نکالنا نہیں سکھا پاتے۔
اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل اور لیپ ٹاپ تھماکر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ماڈرن بنا رہے ہیں۔ بچے فارغ وقت میں موبائل پہ گیمز کھیلتے ہیں یا پھر دوستوں کے ساتھ گپیں لگانے میں مصروف رہتے ہیں ۔والدین بھی بچوں کے ساتھ ٹی وی کے سامنے رات دیر تک بیٹھے رہتے ہیں ہر کسی کے اپنے اپنے مشاغل ہوتے ہیں ایسے میں کسی کو بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ گھر میں موجود ہمارے بزرگ بھی ہیں انہیں بھی ہماری توجہ کی ضرورت ہے لیکن ہم انہیں یکسر نظر انداز کے ہوئے ہیں ۔ ہم اپنی وراثت اور قیمتی سرمایہ کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے دفن کر رہے ہیں۔ ترقی صرف یہ نہیں کہ ہم ترقی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں بنا سوچے سمجھے مغربی معاشرے کی پیروی کرتے رہیں، بلکہ اصل ترقی تو یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اپنی ثقافت کو کیسے فروغ دیتے ہیں۔
بزرگ تو گھر میں اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت کے سلسلے میں پوری رہنمائی کرتے ہیں۔ معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اس ملک کی ثقافت کا بہت اہم حصہ ہوتا ہے وہ ملک ہر حال میں خوش نصیب ہوتا ہے جو اپنی ثقافت کو ایک ہیرے کی طرح سنبھال کر رکھتا ہے ۔مغربی معاشرے کی تقلید کرتے ہوئے ہم اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کی بجائے انہیں بوجھ سمجھ کر گھر کے کسی کونے میں فالتو سامان کی طرح ڈال دیتے ہیں ۔خوش نصیب ہیں وہ گھرانے جہاں آج بھی بزرگوں کی خدمت کی جاتی ہے اور انہیں عزت و احترام دیا جاتا ہے ۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں بڑے بزرگوں کی محبت پیدا کریں۔ مٹتی روایت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ رات کو سونے سے پہلے بچوں کو بزرگوں کے پاس بیٹھنے اور ان سے ان کی زندگی کے واقعات سننے کی ترغیب دلانی ہوگی۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بڑوں کی باتوں پہ عمل کرنا سکھائیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی ایسے گھرانے دیکھنے میں آتے ہیں جہاں بچے رات کو سونے سے پہلے اپنے دادا دادی ، نانا نانی کیا بزرگوں سے قصے کہانیاں سنتے ہیں۔ اس طرح ہمارے بزرگ بھی ہم سے خوش رہتے ہیں اور بچوں کی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آتی ہے۔ ہمارے بزرگ ہماری تھوڑی سی توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ان کے کھانے پینے اور ان کی صحت کا خیال رکھیں انہیں گھر سے باہر اکیلے نہ جانے دیں۔ اپنے بزرگوں کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال سے نہ صرف انہیں احساس کمتری ختم ہوگا بلکہ ہم اپنے معاشرے کو بابرکت ماحول دے پائیں گے۔ ہمارے بزرگوں کے پاس طویل زندگی کا تجربہ ہوتا ہے اس لیے ہم اپنے مسائل ان کے ساتھ بیان کر کے ان کی زندگی کے مشاہدہ اور تجربہ کی پیش نظر اچھے مشورے سے فیض یاب ہو سکتے ہیں اور ساتھ میں ہم اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ اب یہ ہماری نئی نسل پہ منحصر ہے کہ وہ اپنے ورثہ و تہذیب و ثقافت کی دیکھ بھال کس طرح کرتی ہے۔ یاد رکھیں جو کچھ آج ہم اپنے بڑوں اور بوڑھوں کے ساتھ کریں گے وہیں کل ہماری نسلیں ہمارے ساتھ کریں گے۔ یہ ایسی فصل ہے جو ہم بوئیں گے وہیں ہمیں کاٹنا پڑے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ایک بار خود کو دوہرائے ہمیں اپنے موجودہ کو اچھا بنا لینا چاہیے تاکہ ہمارا مستقل بھی اچھا ہو سکے۔
تحریر:صباءاکرم