حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ اطلاع صرف میرے پاس ہے۔ اس حکومت کو جانا ہوگا، اس میں تو کوئی شک نہیں۔ لہذا میرے بلاگ پر یقین کرلیجیے کیونکہ یہ بلاگ انتہائی باخبر ذرائع کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔ حکومت کس کی بنے گی؟ کون کتنی نشستیں لے گا؟ کون روئے گا اور کون پچھتائے گا؟ سیاسی گداگر اب کس جماعت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ سب طے ہوچکا ہے۔
مرکز میں کون ہوگا؟ صوبے کس کی جیب میں جائیں گے؟ یہ منصوبہ ابھی زیر غور ہے۔ اس مرتبہ کسے پنکچروں کی ضرورت ہے اور یہ پنکچر35 ہوں گے یا زیادہ؟ یہ مشورے کے بعد بتادیا جائے گا۔ انتخابی نعرے بنانے والے کو اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار کیا جائے گا، شرط یہ ہے کہ وہ گندی باتیں کرنے کا ماہر ہو۔ اگر اس صلاحیت میں کمی ہو تو لیڈروں کی تقریریں سنے، سوشل میڈیا پر اچھا سوچنے والے اور گندا لکھنے والوں کو ترجیح دی جائے گی۔ صرف سچ سنو اور جھوٹ بولو، یہی سیاسی لیڈر کی پہچان ہے۔ سیاسی کیمپوں میں قیمے والے نان اور کھیر، دونوں دھوکہ ہیں اس لیے یہ ضرور کھائیے۔
دیکھو دیکھو کون آیا، سب پہ بھاری، کون بچائے گا پاکستان، ان سب نعروں کے آگے اپنی مرضی کے الفاظ لگا لیجیے۔ جلسوں، گلی محلوں، چوراہوں، رکشوں اور ویگنوں میں فلک شگاف نعرے گونجنے میں صرف چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ باسی دال کو دیسی گھی کا تڑکا لگا کر جوتوں میں بانٹا جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ دال کھانا ’’فرائض ضروریہ‘‘ میں شامل ہے۔ جوڑ اور توڑ کی سیاست میں ذاتی مفادات کا ہر صورت خاص خیال رکھا جائے گا۔ پارٹی بدلتے وقت پرانے لیڈر کی کم از کم تین برائیان بیان کرنی ہوں گی۔
ایک خاندان سے دو افراد کے الیکشن لڑنے کی صورت میں دو مختلف پارٹیوں میں جانا لازمی ہوگا تاکہ خاندان کا نام اونچا رہے۔ پرانے سیاسی لوٹے قلعی کی دکانوں پر بھجوا دیئے گئے ہیں اور نئے لوٹے پرانے کباڑیوں سے اِلیکشن کے بعد تول کے حساب سے خریدے جائیں گئے۔
بینک دولت پاکستان نئی ہدایات کے مطابق نوٹ چھاپنے کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ سیاسی رادھا نو من تیل کے انتظار میں بیٹھی گھنگھرو باندھ رہی ہے۔ آخری اطلاع کے مطابق تیل کا انتظام ہوچکا ہے، اب رادھا کا ناچ کچھ دیر میں شروع ہوجائے گا۔
ملکی اور غیر ملکی مندوبین بغور جائزہ لے کر اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ حکومت کی کرسی کے کتنے پائے ہونے چاہئیں اور ایک پائے کے مزید کتنے پائے رکھنے ہیں۔ الیکشن سے پہلے قوم پرستوں نے خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے اپنے حقوق اور ووٹ حاصل کرنے کےلیے جدوجہد عملی طور پر شروع کردی ہے اور ذرا سخت لہجے میں اپنی حُب الوطنی کے بارے بتا دیا کہ کوئی ہماری حب الوطنی پر شک نہ کرے۔
سیاسی ملاؤں نے حلال اور حرام کے فتوے دینے کےلیے کاغذ اور قلم کو بطور ہتھیار اِستعمال کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اونچی اور لمبی دیواروں کے پیچھے عارضی سربراہان مملکت نے کمیوں کے مسائل پر بات چیت شروع کر دی ہے اورجلسہ گاہ میں ملک صاحب نے بم پروف کیبن میں بیٹھ کر اِعلان کیا ہے کہ آج سے اِس مُلک کے غریب اور ہماری سوچ میں کوئی فرق نہیں ہوگا، ہم دونوں اکٹھے تھے اور رہیں گے، سارے غریبوں نے اپنے لیڈر کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔
کچھ جمہوریت پسندوں نے اپنی عوام کے جان ومال کے تحفظ کی خاطر مُلک سے باہر رہنے کا آخری فیصلہ کیا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا اِستعمال کرتے ہو ئے اِلیکشن کی مہم جاری رکھی جائے گی۔
جن کو اِس دفعہ جیتنے کی اُمید نہیں اُنہوں نے رونے کا اِعلان کردیا ہے۔ وڈیرا شاہی نے بھی پانچ سال بعد مزارعوں کو حویلی میں حاضر ہونے کا حکم صادر کردیا ہے اور گلے لگا لگا کر اپنااِنتخابی نشان اُن کے ہاتھ میں پکڑایا ہے۔ گلی محلے کے کن ٹُٹّوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے چکر لگانا شروع کردیئے ہیں اور اِلیکشن کی دیہاڑیاں بھی طے کرلی ہیں۔
میڈیا کے نمائندوں کو سب سے پہلے اِلیکشن کا نتیجہ دینے کی ذمہ داری دی گئی ہے مگر ’’محبت اور جنگ میں سب جائز ہے‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا۔ گلی کے کونے پر تاش کھیلتے بابوں نے اپنی مدبرانہ سوچ سے اگلے الیکشن جیتنے والی جماعت کی نشان دہی کردی ہے، باقی کام ادارے کرلیں گے۔
محلے کے کتے کو بھی ملک صاحب نے آج تازہ ہڈی ڈال دی ہے اور فضول بھونکنے سے منع کردیا ہے۔ بشیر احمد کو بھی یقین کروایا گیا ہے کہ کسی اور کی گلی پکی ہو یا نہ ہو تمہارے گھر کا تھڑا ضرور پکا ہوگا۔ خواجہ صاحب نے مشیر خاص کو ذرا تیز قسم کی بیوہ عورتوں کو ڈھونڈنے کا کہہ دیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ گلی محلے کی لڑائی کا وسیع تجربہ رکھتی ہو۔ جمہوریت کے علمبردار، مفاہمت کی مقدس گائے کو قربان کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنارہے ہیں۔ بھانڈ سیاست دان رات شیشے کے سامنے گزاریں اور دن کو ہاتھ منہ پر کر انتخابی مہم میں حصہ لیں۔ خفیہ والے بھی اپنی کارکردگی دکھانے کےلیے بیتاب بیٹھے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی نیند کی گولیوں والی چائے پیش کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ پرانے فیتوں کو کاٹنے کےلیے نئی قینچیوں کا استعمال ضروری قرار دیا جائے گا۔ بند لفافوں میں بند نذرانے قائدین کے قدموں میں ڈالے جائیں گے۔
اگر اس بلاگ میں لکھی گئی کوئی بات غلط ثابت ہوگئی تو الیکشن کے بعد مجھ پر ایک ارب ہرجانے کا دعوی کرنے کا آپ کو پورا حق حاصل ہوگا۔