لاہور;امیدواروں کے رنگا رنگ پوسٹرز ، بینرز اور ہورڈنگز اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں یقیناًاس میں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ پنڈی کے قومی اسمبلی کے دو حلقوں NA-60 اور NA- ساجد حسین ملک انتخابات 2018 ء کے حوالے سے کچھ استثناء کو چھوڑ کر ابھی تک روائتی گہما گہمی
معروف کالم نگار ساجد حسین ملک اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اور سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کی طرف سے بھر پور انتخابی مہم پوری طرح شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی وجہ شاید سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے ٹکٹ یافتہ اُمیدواروں مکمل اور حتمی فہرستوں کے اجراء میں تاخیر ، اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی واپس لینے اور الیکشن کمیشن (ریٹرننگ افسران) کی طرف سے اُمیدواروں کی حتمی فہرستیں جو (جو 29 جون کو جاری ہو ئی ہیں) ور 30 جون کو انہیں انتخابی نشانات الاٹ کیے جانے کے عمل کا مکمل نہ ہونا ہے۔ تاہم ان سطور کی اشاعت تک مختلف حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کی حتمی فہرستیں ہی جاری نہیں ہو چکی ہونگی بلکہ اُمیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے کا عمل بھی آخری مراحل میں پہنچ چکا ہو گا اس کے بعدانتخابی مہم میں یقیناًتیزی آئے گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس وقت انتخابی مہم ٹھنڈی پڑی ہے یا اس میں خاموشی پائی جاتی ہے۔ اس وقت بھی مختلف انتخابی اُمیدواروں کے رنگا رنگ پوسٹرز ، بینرز اور ہورڈنگز اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں یقیناًاس میں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ پنڈی کے قومی اسمبلی کے دو حلقوں NA-60 اور NA-62 سے انتخابات میں حصہ لینے والے عوامی مسلم لیگ کے
سربراہ شیخ رشید احمد جنہیں ہر دو حلقوں میں تحریکِ انصاف کی حمایت بھی حاصل ہے اور جو 1985 سے انتخابات میں لگا تار حصہ لیتے چلے آ رہے ہیں اور اب جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں حصہ لے کر مجموعی طور پر 10 بار انتخابات میں حصہ لینے کا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے اپنے آپ کو مجاہد ختمِ نبوتؐ کے روپ میں پیش کر رہے ہیں اور ہر روز کارنر میٹگز سے خطاب کرنے کا سلسلہ بھی پچھلے کئی دنوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سابقہ وزیرِ داخلہ اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما چوہدری نثار علی خان نے عید الفطر کے بعد لگا تار انتخابی جلسوں سے خطاب کی صورت میں اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے ۔ چوہدری نثار علی خان قومی اسمبلی کے دو حلقوں NA-59 اور NA-63 اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں PP-10 اور PP-12سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں انہیں پارٹی کی اعلیٰ قیادت بالخصوص پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کی پالیسیوں سے اختلافات کرنے اور اُن کے بارے میں مخالفانہ بیان دینے کی بنا پر مسلم لیگ ن نے ٹکٹ جاری نہیں کیے ہیں اور حتمی طور پر اُن کے مقابلے میں
چاروں حلقوں میں اپنے ٹکٹ یافتہ اُمیدواروں کو لا کھڑا کیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان NA-59 میں اپنے آبائی قصبہ چکری کے علاوہ تھانہ روات کے مرکزی قصبہ جھٹہ ہتھیال ، تھانہ چونترہ کے اہم قصبے اور سب تحصیل چک بیلی خان اور اقبال پیلس قائد اعظم کالونی دھمیال روڈ راولپنڈی اور NA-63 کے مرکزی قصبے اور تحصیل مرکز ٹیکسلا میں عوامی اجتماعات میں خطاب کر چکے ہیں ۔ غیر جانبدار عینی شاہدین اور مؤقر مبصروں کے مطابق چوہدری نثار علی خان کے یہ پانچوں جلسے ماضی کے انتخابات میں انہی مقامات پر منعقدہ اُن کے جلسوں کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ کامیاب اور حاضری کے لحاظ سے بھرپور رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان اپنی انتخابی مہم کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں اور چاروں حلقوں جہاں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں کامیابی کی منزل سر کرتے ہیں یا ناکام رہ جاتے ہیں اس بارے میں فی الحال کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی ہے تاہم راقم کا تعلق اُن کے قومی اسمبلی کے حلقے NA-59 کے اہم قصبے اور تھانہ چونترہ سے ہے اور چوہدری نثار علی خان اپنے انتخابی جلسوں میں بڑے واضح لفظوں میں یہ اعلان کرتے سُنائی دیتے ہیں کہ اے چونترے والو سر اُٹھا کر مجھے ووٹ دینا اس کے لیے ہمیں 25 جولائی کا انتظار کرنا ہو گا
کہ کتنی تعداد میں ووٹ پولنگ سٹیشنوں سے اُن کے بکسوں سے نکلتے ہیں تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری نثار علی خان اپنی انتخابی مہم کو بڑے منضبط اور بھرپو رانداز سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان اور اُن کے مدِ مقابل اُمیدواروں کے بارے میں تفصیلی جائزہ بعد میں کسی وقت پیش کیا جائے گا اس وقت ہم قومی اسمبلی کے حلقوں NA-60 اور NA-62 کی طرف آتے ہیں جہاں بڑے زور کا رن پڑنے والا ہے۔ جیسا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ NA-60 اور NA-62 سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد تحریکِ انصاف کی حمایت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ NA-60 میں مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی اور پیپلز پارٹی کے مختار عباس اُن کے مدِ مقابل ہیں جبکہ NA-62 میں اُن کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے بیرسٹر دانیال تنویر چوہدری سے ہے جو مسلم لیگ کے اہم رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان کے صاحبزادے ہیں ۔ ان دونوں حلقوں میں شیخ رشید احمد اور مسلم لیگ ن کے اُمیدواروں کی کامیابی اور ناکامی پر کئی چھوٹے بڑے عوامل اثر انداز ہوسکتے ہیں لیکن دو ایسے عوامل ہیں جن کا فیصلہ کن کردار ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ تحریکِ انصاف جسے ان دونوں حلقوں میں معقول حمایت حاصل ہے
اور 2013 ء کے انتخابات میں اس کا ثبوت اس طرح سامنے آیا کہ NA-60 (سابقہ NA-56 ) سے عمران خان خود کامیاب ہوئے جبکہ NA-62 (سابقہ NA-55 ) سے تحریکِ انصاف کی حمایت سے کامیابی شیخ رشید احمد کے حصے میں آئی ۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا تحریکِ انصاف کا ووٹر شیخ رشید احمد کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے انہیں ووٹ دے کر اُن کی حمایت کا ثبوت مہیا کرے گا یا وہ اپنی قیادت کے اصرار کے باوجود شیخ رشید احمد کی زبانی کلامی حمایت تو کرے گا لیکن شیخ رشید احمد کے حق میں فیصلہ کن ووٹ ڈالنے سے اجتناب کرے گا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-60 کی ذیل میں آنے والے صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں جناب راشد حفیظ اور فیاض الحسن چوہان تحریکِ انصاف کے اُمید وار ہیں ۔ راشد حفیظ مئی 2013 ء کے انتخابات میں بھی یہاں سے صوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ۔ اُن کے بارے میں زیادہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ شیخ رشید احمد کی دل و جان سے حمایت کریں گے یا نہیں کریں گے۔ البتہ صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقے جہاں سے فیاض الحسن چوہان اُمیدوار ہیں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں سے شیخ رشید احمد کو شاید بھرپور حمایت حاصل نہ ہو سکے۔
فیاض الحسن چوہان جو تحریکِ انصاف کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات بھی ہیں وہ اس بات کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف NA-60 میں شیخ رشید احمد کی حمایت کرنے کی بجائے انہیں ٹکٹ دے۔ اب جب انہیں ٹکٹ نہیں ملا ہے تو زیادہ گمان یہی ہے کہ فیاض الحسن چوہان شاید دل و جان سے شیخ رشید احمد کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہونگے۔ شیخ رشید احمد کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا قومی اسمبلی کے حلقہ NA-62 میں بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ وہاں بھی تحریکِ انصاف نے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اپنا امیدوار اعجاز خان جازی کھڑا کر رکھا ہے دیکھنا ہو گا کہ اس حلقے میں بھی تحریکِ انصاف کے ووٹرز کس حد تک شیخ رشید احمد کی حمایت میں جاتے ہیں۔ دوسرا فیصلہ کن پہلو جو مسلم لیگ ن کے اُمیدوار وں کی حلقہ NA-60 اور NA-62 میں کامیابی یا ناکامی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے وہ سینیٹر چوہدری تنویر خان اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما حنیف عباسی کے آپس کے تعلقات کی نوعیت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ کے یہ دونوں اہم رہنما جو ماضی میں ایک دوسرے کی جڑیں کاٹتے رہے ہیں اب ظاہری طور پر ایک ہی پیج(Page ) پر ہونے کے باوجود دل و جان سے ایک پیج(Page ) پر اکٹھے نہیں ہو سکے ہیں
اب بھی ان کے مابین اختلافات کی خلیج پہلے ہی کی طرح موجود ہے۔ یہ دونوں رہنما اگر دل و جان سے ایک دوسرے کی حمایت پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ چوہدری تنویر خان قومی اسمبلی کے حلقہ NA-60 میں شامل علاقوں جھنڈا چیچی ، چکلالہ سکیم III ، غریب آباد ، رحمت آباد ، گلستان کالونی اور گلریز کالونی اور ملحقہ علاقوں میں جہاں انہیں بلا شبہ مقبولیت حاصل ہے حنیف عباسی کی دل و جان سے حمایت کرتے ہیں تو پھر حنیف عباسی کے لیے کامیابی کی منزل سر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حنیف عباسی NA-62 میں پورے دل و جان سے اپنے گروپ اور اپنے حامی بلدیاتی چئیرمینوں اور نمائندوں سمیت بیرسٹر دانیال چوہدری کی دل و جان سے حمایت کرتے ہیں تو بیرسٹر دانیال چوہدری کیلئے شیخ رشید کو ہرانا مشکل ضرور ہو سکتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہو گا۔سینیٹر چوہدری تنویر خان کی نیک نامی اور کسی طرح کے مالی سکینڈل یا بد عنوانی میں ملوث نہ ہونا یقیناًبیرسٹر دانیال چوہدری کے لیے ایک اضافی مثبت پہلو ہے۔