گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر،خوش خوراک لوگوں کا مسکن،حسن پرستوں اور مہمان نوازوں کا گھر ہے۔گوجرانوالہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔جو رقبہ کے لحاظ سے 3198 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔شہر کی کل آبادی 2238243 نفوس پر مشتمل ہے۔گوجرانوالہ کو صنعتی لحاظ بڑا درجہ حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ، پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں گوجرانوالہ کی 5 فیصد کی شراکت ہوتی ہے۔ضلع گوجرانوالہ کی بات کی جائے تو اس میں شہر کی دو تحصیلوں (صدر سٹی) کے ساتھ دیہی علاقوں کی تحصیلوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس میں کامونکی ،وزیر آباد اور نوشہرہ ورکاں شامل ہیں۔رقبہ کے لحاظ سے ضلع کی حدود3622 اسکوائر کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔جبکہ ضلع کی کل آبادی 5014196 نفوس پر مشتمل ہے۔سیاست کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ،گوجرانوالہ کی بھولی عوام ہمیشہ سے اپنے نمائندے چننے میں فہم و فراست سے کام نہیں لیتی۔یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ جیسا بڑا ضلع آج بھی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
قومی اسمبلی کی نشتوں کی بات کی جائے تو، گوجرانوالہ ضلع چھ قومی حلقوں پر مشتمل ہے۔حلقہ بندیوں سے پہلے نشتوں کی تعداد سات تھی ،جو اب کم ہوکر چھ رہ گئی ہے۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشتوں کی تعداد 14 ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقے 79 سے لے کر 84 تک جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے 51 سے لے کر 64 تک ہیں۔گوجرانوالہ کو جی ٹی روڈ کی سیاست کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جو ماضی میں حکومتوں کی تخلیق میں اہم کردار نبھاتا رہا ہے۔
گوجرانوالہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور ق کا گڑھ رہ چکا ہے ،بلکہ گوجرانوالہ کو اب بھی مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔مگر الیکشن 2018 کی بات کی جائے تو صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔الیکشن سے عین قبل مسلم لیگ ن کے دو ایم این ایز رانا عمر نذیر اور میاں طارق کا پارٹی کو خیر آباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہونا ،اور اپنے ساتھیوں اور حلقے پر اثر انداز ہونا۔ تحریک انصاف کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔اسی بنا پر گجرانوالہ اب مسلم لیگ کے لئے آسان حدف نہیں رہا۔
میڈیا ایجنسیز کے سروے اور ہماری اپنی تشخیص کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو گوجرانوالہ کے ووٹرز کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے۔مسلم لیگ ن 45فیصد،تحریک انصاف39فیصد ،باقی تیسری پوزیشن تحریک لبیک اور آزاد امیدوران جبکہ چوتھی پوزیشن پی پی پی کی ہوگی۔ضلع کے ہر حلقے میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔گوجرانوالہ کے حلقہ این اے 79 کی بات کی جائے تو یہ حلقہ تحصیل وزیر آباد اور علی پور ٹاؤن کے علاقوں پر مشتمل ہے ۔جس کی کل آبادی 830396 نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر نثار چیمہ ہیں جو سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ اور سابق ایم این اے افتخار چیمہ کے بھائی ہیں۔افتخار چیمہ اسی حلقہ سے دو دفعہ 2008 اور 2013 میں ایم این اے منتخب ہو ئے تھے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار احمد چٹھہ ہیں۔ جو سابق اسپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے ہیں۔
اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔تاہم پی ٹی آئی کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں۔اس حلقہ کے زیر نگیں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 51,52 پر کانٹے کامقابلہ متوقع ہے۔حلقہ این اے 80 کی بات کی جائے تو یہ حلقہ گوجرانوالہ کینٹ راہوالی قلعہ دیدار سنگھ اور شہر کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی کل آبادی 833310 نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمود بشر ورک ہیں۔جو سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے امیدوار میاں طارق محمود ہیں ۔جو سابق ایم این رہ چکے ہیں اور کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے تاہم الیکشن سے قبل جیت کا اندا زہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہاں ففٹی ففٹی چانسز ہیں۔تاہم اس کے زیر نگیں صوبائی نشتوں پی پی 53,62 پر پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔
حلقہ این اے 81 کی بات کی جائے تو یہ گوجرانوالہ شہر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ جس میں سیٹلائٹ ٹاؤن اورپیپلز کالونی کے علاقے بھی شامل ہیں۔جس کی کل آبادی 852472 نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار خرم دستگیر ہیں ۔جو سابق ایم این اے دستگیر خاں کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔دستگیر خاندان عرصہ درازسے ہی گوجرانوالہ سے یہ نشست جیت رہا ہے۔خرم دستگیر کے مد مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار صدیق مہر ہیں۔اس حلقہ میں خرم دستگیر گروپ کافی مضبوط ہے اور ان کے جیتنے کے امکانات واضح ہیں۔تاہم اس کے زیر نگیں صوبائی نسشتوں پی پی 54,58 پر کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔خصوصی طور پر پی پی54جہاں پومی بٹ کے بھائی عمران خالد بٹ مسلم لیگ ن اور سابق میئر اسلم بٹ کے بیٹے رضوان اسلم بٹ پی ٹی آئی کی طرف سے مد مقابل ہیں۔
اندرون شہر کی اس نسشت پر مقابلہ بازی زور و شور سے جاری ہے۔ دونوں ہی گروپ خاصے مقبول اور مضبوط ہیں۔ یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی ہے، اسی لئے اس صوبائی نشت کے نتائج کے بارے کچھ کہنا جلد بازی ہوگی ۔حلقہ این اے 82 گوجرانوالہ کا سب سے بڑا حلقہ ہے ۔جس کی کل آبادی 867382 نفوس پر مشتمل ہے۔اس حلقہ میں گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن اور ضلع گوجرانوالہ کے مختلف علاقے شامل ہیں۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق وفاقی وزیر عثمان ابراہیم ہیں ۔جبکہ ان کے مد مقابل سپر ایشیاء گروپ کے مالک علی اشرف مغل ہیں۔تاہم اس حلقے میں عثمان ابراہیم کے جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔اس کے زیر نگیں صوبائی نشستوں پی پی 55,56 پر بھی مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔
حلقہ این اے 83 تحصیل کامونکی،ٹاؤن سادھوکی،تلونڈی موسی خان،منڈیالہ میر شکاراں، کوہلوال، اور گوجرانوالہ شہر کے دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔اس کی کل آبادی 837017 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے ذوالفقار علی بھنڈر ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار سابق وفاقی وزیر رانا نذیر احمد خاں ہیں۔ رانا نذیر گروپ اس حلقہ میں خاصہ مقبول ہے اور سات دفعہ اس حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں۔ موجودہ الیکشن میں کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا ہے ۔تاہم مختلف زرائع کے مطابق رانا نذیر گروپ کے جیتنے کے چانسز واضح ہیں۔اس حلقہ کے زیر نگیں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پی پی 59,60,61 پر کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ خصوصی طور پر پی پی 60 جہاں پر مسلم لیگ ن کی طرف سے سابق ایم پی اے قیصر سندھو اور پی ٹی آئی کی طرف سے سابق ایم پی اے ظفراللہ چیمہ مد مقابل ہیں۔ یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی ہے اسی لئے قبل از وقت کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔
حلقہ این اے 84 یہ گوجرانوالہ کا آخری حلقہ ہے۔جوتحصیل نوشہرہ ورکاں، ایمن آباد ٹاؤن اور گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن کے مختلف علاقوں پر مشتمل ہے۔اس کی کل آبادی 793857نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوارسابق ایم این اے اور حاجی مدثر قیوم ناہرہ کے بھائی اظہر قیوم ناہرہ ہیں۔جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار سابق ایم این اے بلال اعجاز ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔اس کے زیر نگیں صوبائی نشستوں پی پی 63,64 پر مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔ تاہم پی پی 63 جہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق صوبائی وزیر اقبال گجر اور تحریک انصاف کے امیدوار سابق ایم این اے راعمر نذیر کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
قارئین یہ تھی ہماری رائے مگر اصل نتائج تو 25 جولائی کو ہی سامنے آئیں گے۔
گوجرانوالہ کے ووٹروں کی بات کی جائے تو آج بھی لوگ گلیوں ،نالیوں، سوئی گیس اور تھانے کچہریوں کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں سیاسی فہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ اندرون شہر میں لوگوں کی کچھ تعداد سیاسی بصیرت رکھتی ہے۔مسائل کی بات کی جائے تو سنٹرل پنجاب کے اس ضلع میں آج بھی تعلیم اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔شہر آج بھی بڑی سرکاری یونیورسٹی سے محروم ہے۔ایک سول ہسپتال ہے۔ جہاں مناسب سہولیات نہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹرز سیریس مریضوں کو لاہور ریفر کردیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔امن وامان کی صورتحال ضرور بحال ہوئی ۔تاہم کاروبار و زراعت آج بھی ویسے ہی ہیں۔ چھوٹے کسان مسائل کی گرفت میں ہیں۔روزگارکے مواقع کم ہیں۔سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے آمدورفت کافی بہتر ہوئی ہے ۔تاہم محلوں گلیوں میں آج بھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔گنجان آباد محلوں اور دیہاتوں میں سیوریج کے مسائل ہیں۔اہم گزرگاہ کنگنی والا پل جو شاید زمانہ انگریز سے بنا ہوا ہے۔اس پل کی ازسر نو تعمیر بہت ضروری ہے۔اس کے علاوہ دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہر کے بھی اکثر علاقوں میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔اس کے علاوہ نہ جانے کتنے مسائل جو برسوں سے چلے آرہے ہیں نمائندوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔
گوجراونوالہ کے پہلوانوں،حسن پرستوں اور بھولے بھالے لوگوں سے گزارش ہے کہ، اس بار ضرور دیکھ بھال کر ووٹ دیں اور 25 جولائی کو اپنا فیصلہ سنا دیں۔