جاپان (کامران غنی) لمبے عرصے کے بعد یہ ایک بہت ہی خوبصورت اتفاق ہے کہ جس حکومت عموما ً لوگ اردو مخالف تصور کرتے ہیں اس نے اب تک کی تاریخ میں انتہائی فعال اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سابق صدر شعبہ اردو دہلی ینورسٹی و معروف نقاد پروفیسر ارتضا کریم کو قومی کانسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ا ڈائریکٹر بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ حوصلے ، نیت ، اور ویزن ہوتو کسی بہتر شخص کا انتخاب کسی ذمہ دار عہدے پر بآسانی کیا جاسکتاہے۔
میں اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی ارتضا کریم کی جہد وجہد سے بخوبی واقف رہاہوں اس لئے مجھے یہ کہنے میں قطعی تأمل نہیں ہے کہ ارتضا کریم کسی ایسے ذمہ داری کو نبھانے کے اہل ہیں جن پر زبان یا قوم کا انحصار بھی ہوا کرتاہے۔ میںانہیں بتدریج ارتقائی منازل سے گذرتے ہوئے دیکھاہے اور یہ بھی ایک طرفہ وتماشہ ہے کہ جو شخص جدوجہد کے کارزار سے گذر کر کندن ہوا کرتاہے عموماًاُسے کسی خاص احساس کمتری کی وجہ سے مورد ِالزام ٹھہرایا جاسکتاہے
تاکہ آفتاب لوگوں کو مدھم نظرآئے ، میں نے دیکھا ہے کہ ارتضا کریم مختلف سازشوں کے پیش نظر پریشان رہے لیکن اپنے عزم کو کبھی پستیوں کی طرف مائل نہیں ہونے دیا۔دلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر کی حیثیت سے جو تاریخ ان کی سرپرستی میں مرتب کی گئی اس کی دستاویزی حیثیت سے یہ انکار کیاجانا محض بد دیانتی ہی ہوسکتی ہے۔ میں خودبھی لمبے جدوجہد سے گذرتا رہاہوں ناانصافیوں کے بھنور میں گردش کرتارہاہوں۔ اس لئے ارتضا کریم یا ایسے دوسرے افراد کے درد کو محسوس کرسکتاہوں۔میں اللہ کی مہربانیوں سے سرکاری ، سماجی ، ادبی اور ثقافتی سطح پر جن بلندیوں پر ہوںعام حالات میں کبھی کوئی اس کا تصور نہیں کرسکتا۔
نامساعد حالات سے جھیلنے کا درد میں اپنی ذات میں اب بھی محسوس کرتاہوںاور زمانے کی بے اعتنائیوں کی وجہ سے کئی مقامات پر دانستہ طورپر محرومی کا شکار ہوتارہاہوںاس لئے ارتضا کریم کی صلاحیتوں ان کے حالات کے پتھر کاٹنے کے درد اور گہرے اندھیر ے میں جگنوں کی طرح چمکنے کے احوال سے واقف ہوں اس لئے یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ ان کی سر پرستی میں حاشیے پر پڑی ہوئی اردو آبادی یا حاشیے پر رکھے گئے اردو کے دانشور اب کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیئے جاسکتے ۔جس طرح موجود ہ حکومت نے ارتضا کریم کی صلاحیتوں اور بے پناہ ادبی معرکہ آرئیوں کو محسوس کرتے ہوئے یہ اہم ترین ذمہ داری سونپی ہے۔
یقینا ارتضا کریم ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے سنگ میل بن جائیں گے۔اور یہ میں اس لئے بھی کہہ رہاہوں کہ ابھی زمینی طور پر این سی پی یوایل کو باد مخالف سے آزاد کر تے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد کے پیش نظر ہندوستان بھر میں فروغ اردو کے مختلف پروجیکٹ کو عملی صورت دیتے ہوئے یہ ثابت کریں گے کہ حوصلوں سے آسمان کی ایسی بلندیاں طے کی جاسکتی ہے جن کا تصور عام اذہان سے بالا تر ہوا کرتاہے۔یقینا ارتضا کریم کے انتخاب سے این سی پی یو ایل کے سنہرے اور روشن باب کا آغازہوگیا ہے۔ہم سب کو اردو کی حمایت میں اس فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔