counter easy hit

الیکشن کمیشن پر ایک سوالیہ نشان

Election Commission

تحریر: ایم آر ملک
الیکشن کمیشن آف پاکستان متنازعہ کیوں کر ہوا ؟ موجودہ بحران کا پس منظر بھی الیکشن کمیشن کا متنازعہ کردار بنا عوام کے پاس اگر کوئی تبدیلی کی طاقت ہے تو وہ محض ووٹ کی ہی طاقت ہے جسے وہ الیکشن کے روز استعمال کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کرتے ہیں ماڈل ٹائون میں گرنے والی 14بے گناہ افراد کی لاشیں ہوںیا 31اگست کو شہر اقتدار میں ہونے والی ”لیگی بر بریت”ذمہ داری الیکشن کمیشن کے سر جاتی ہے اور اب اگر وطن عزیز ایسے حالات سے دوچار ہوتا ہے جو مڈٹرم الیکشن کا نقشہ کھینچ کر کسی اور کی حکمرانی کی راہ ہموار کردیں یا شہروں کو جام کرنے کا تحریک انصاف کی طرف سے عندیہ اور اس کے نتیجے میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال تو بھی الیکشن کمیشن مبرا نہیں ہوگا عمران خان کو ڈی چوک تک کیوں آنا پڑا ،شہر شہر احتجاج کا کارواں اُس کی قیادت میں کیوں نکلا اس بحث کو سمیٹنے سے قبل ماضی کی ایک مثال دینا ضروری ہے۔

مہر اللہ ڈیوایا تھند جنوبی پنجاب کا ایک شریف النفس سیاستدان ہے جس نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنی وفا کو ایک نہ ٹوٹنے والی لڑی میں پرو دیا حتیٰ کہ جب وہ ایک معاہدے کے تحت خود ساختہ جلاوطنی کے تحت جدہ کے سرور محل پہنچے تو وفا کا یہ پتلا ایک آمر کے خلاف اپنے قائد کی خاطر احتجاجی جلسوں کا انعقاد کر کے وفا کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہا تھا ایک ایسے وقت میں جب ڈیرہ غازیخان کا سردار مشرف کی ضلعی نظامت میں اپنے بیٹے دوست محمد کھوسہ کو حصہ دار بنا کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف تھا مہر اللہ ڈیوایا تھند جنوبی پنجاب کی تاریخ میں ایک ایسے عظیم الشان جلسے کا انعقاد کر کے لیگی قیادت کے سر پر اپنے احسان کی بھاری گٹھڑی رکھ رہا تھا جس کی بازگشت عالمی ذرائع ابلاغ بی بی سی پر ان الفاظ میں سنی گئی کہ ”لگتا ہے میاں نواز شریف آج لیہ میں ہیں ”جب ایک آمر کے ہاتھوں چوہدری پرویز الٰہی کے اقتدار کا سورج طلوع ہورہاتھا تو جنوبی پنجاب میں اس اقتدار کا پہلا ہاتھ مہر اللہ ڈیوایا تھند کی جانب بڑھا وزارت کی آفر کے باوجود مہر اللہ ڈیوایا نے ا پنے مفادات پر پانی پھیر کر اس ہاتھ کو جھٹک دیا گجرات کے چوہدریوں نے اسی پر بس نہیں کیا اُنہوں نے لیہ کے ایک گدی نشین کو ضلع ناظم بنانے کی شرط کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مہر اللہ ڈیوایا تھند کی ق لیگ میں شمولیت کو یقینی بنانے کا وعدہ لیا مگر مہر اللہ ڈیوایا تھند کے نظریات پریہ گدی نشین بھی ضرب لگانے میں ناکام رہا۔

24اکتوبر 1990میں میاںنواز شریف وزیر اعظم بنے مگر میاں نواز شریف کا حکمرانی میں ہمیشہ یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ دوسروں کے اختیارات کو بھی اپنی دسترس میں رکھنے کے خواہاں رہتے ہیں یہی کچھ اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ کیا گیا محا ذ آرائی جب اس حد تک بڑھی کہ صدر غلام اسحاق خان کیلئے اختیارات پر دسترس رکھنا مشکل ہو گیا تو اُنہوں نے 18 اپریل 1993کو اسمبلی توڑنے کااعلان کردیا اسمبلی ٹوٹی تو اقتدار کی ہوس میاں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے در پر لے گئی ملکی سطح پر یہ کشمکش عوام میں بے چینی کا سبب بنی تو پاک فوج کے جنرل وحید کاکڑکی موجودگی میں عوام کو مطمئن کئے بغیر نواز شریف چلتے بنے مگر یہ 9اکتوبر 1993کے عام انتخابات تھے مہر اللہ ڈیوایا تھند جن کی حتمی جیت کا عندیہ عوامی حلقے دے رہے تھے حلقہ پی پی5 21سے وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اُمیدوار تھے جبکہ اُن کے مدمقابل اُن کے پرانے حریف اصغر علی گجر تھے عوامی پذیرائی دیکھ کر مہر اللہ ڈیوایا تھند اپنی متوقع جیت پر شاداں و فرحاں تھے لیکن جس روز الیکشن ہوئے مہر اللہ ڈیوایا تھند کے کیمپوں میں عوام کی تعداد دیکھ کر یہ کہا جاسکتا تھا کہ اُن کا الیکشن ریفرنڈم ہے لیکن جب رزلٹ انائونس ہوا تو دھاندلی کی بنیاد پر حریف جیٹ چکا تھا جس کے آبائی گائوں میں کل کاسٹنگ ووٹوں کی تعداد 1637 تھی لیکن 1808ووٹ کاسٹ ہو چکے تھے مہر اللہ ڈیوایا تھند اس دھاندلی کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں پہنچ گئے جس کے سربراہ اُس وقت جسٹس ثاقب نثار تھے۔

جبکہ ضلع لیہ میں آر او کے فرائض ایک ایماندار فرد سلطان احمد نے انجام دئے جس نے الیکشن ٹربیونل کے سامنے بھی ہونے والی دھاندلی کی تصدیق کی ایس ایم مسعود مہر اللہ ڈیوایا تھند کے وکیل تھے جبکہ اصغر علی گجر کے وکیل شیخ اکرم تھے وہ فیصلہ جو 120روز میں آئین کے مطابق الیکشن ٹربیونل نے سنانا تھا اُسے دانستہ لٹکایا گیا انصاف میں تاخیر ی حربے آزمائے گئے مہر اللہ ڈیوایا پیشی پر پیشی بھگتتے رہے سوا دو سال کا عرصہ گزر گیا جب ایک روز فاروق خان لغاری نے اسمبلی توڑ دی اُس سے اگلے روز مہر اللہ ڈیوایا تھند کے حق میں فیصلہ آگیا۔

سوا دو سال تک انصاف کی لاش کو گھسیٹنے کا مجرم الیکشن کمیشن تھا جس نے وہی حربہ عمران خان کے ساتھ آزمایا محض 4 حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق 120دنوں کے بجائے 18ماہ گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکی یقینا یہ تاریخ کابدترین دھاندلی زدہ الیکشن تھا جس میں آراوز نے افتخار چوہدری کی سربراہی میں عوام کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈالا ،سیاہی کااستعمال بھی دانستہ طور پر ایسا کیا گیاکہ انگوٹھوں کی شناخت ہی نہ ہوسکے ،فارم نمبر 16جس پر ریٹرننگ آفیسرز نے حتمی نتیجہ درج کرکے محض 90روز میں ویب سائیٹ پر ڈالنا تھا آج تک نہیں ڈالا گیا 2013میں بد معاشی اس طرح کی گئی کہ سگریٹ کی ڈبیوں پر پریذائئڈنگ نے رزلٹ بنا کرآر اوز کو دیئے 70لاکھ جعلی بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے عمران خان کو ڈی چوک تک لانے ،ملک میں موجودہ بحران کا مجرم ہمارا الیکشن کمیشن ہے جسکے سربراہ نے حب الوطنی کے جذبہ سے عاری محض نوٹوں کی خاطر انصاف کا قتل کیا۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک