تحریر: عمران چنگیزی
پاکستان کی تاریخ میں سیاسی بنیادوں پر پہلی بار ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تیسرے و حتمی مرحلے کے تحت 7 ملین سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز پر مشتمل شہر کراچی کے 6اضلاع میں پولنگ ہوئی اس دوران امن و تحفظ کی ذمہ داری نبھانے کیلئے رینجرز اور پولیس کے 42 ہزار اہلکاروں نے فرائض انجام دیئے جبکہ کراچی کے ضلع شرقی کی یو سی 28 کے وارڈ نمبر 1 اوریو سی 4 کے وارڈ نمبر 2 میں بیلٹ پیپرز پر جنرل کونسلرز کے امیدواروں کے غلط نشانات کی اشاعت اور ایم کیو ایم کی جانب سے 10 پولنگ اسٹیشنز پر غلط بیلٹ پیپرز چھپنے کی تحریری شکایت پر الیکشن کمیشن نےانتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نیا شیڈول بعد میں جاری کرنے کا اعلان کیا۔
سندھ کی صوبائی کابینہ میں وزارتوں سے مکمل محروم سندھ کے دارالخلافہ کراچی میںہونے والے بلدیاتی انتخابات میںشہری نمائندگی کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ اور صوبائی حکمران پیپلز پارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی و تحریک انصاف جیسی بڑی جماعتوں کے علاہ ایم کیو ایم حقیقی اور دیگر جماعتوں اور کثیر تعداد میں آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لیا جس کے باعث شہر کے تقریباً ہر حصے میں سیاسی رقابت کے بعد کشیدگی اور اشتعال انگیزی کے مظاہرے دیکھنے میں آئے اور سیاسی جماعتوں کے رہنما روایت کے مطابق ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگاکر بد امنی کا ذمہ دار حریف جماعتوں کو قرار دینے کی روایت پر کاربند دکھائی دیئے اور شہر بھر میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے سے گتھم گتھا ‘ محاذآراء‘ برسر پیکار اور صف آرا ¿ دکھائی دیئے جس کے باعث تشد د کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے مگر رینجرز ‘ پولیس اور سیکورٹی اداروں نے اپنی فعالیت کے ذریعے انتخابات وپولنگ کے موقع پر بد امنی و دہشتگردی اور خون خرابے کے خدشات کو باطل ثابت کردیا۔
انتخابات میں حصہ لینے والی ہر سیاسی جماعت کراچی کی عوامی نمائندگی کی دعویدار ہونے کے ساتھ کراچی کی میئر شپ کی امیدوار بھی ہے جن میں 3 بار کراچی میں اپنا میئر لاکر حکمرانی کرنے والی جماعت اسلامی اور دوبار ذمہ داری کی یہ سعادت حاصل کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ بھی شامل ہے جبکہ عوام کو نئے پاکستان کا خواب دکھاکر خیبر پی کے میں حق حکمرانی حاصل کرنے کے باوجود اس صوبے کی عوام کو کسی بھی قسم کی ریلیف فراہم کرنے میں ناکام پاکستان تحریک انصاف بھی کراچی میں متحدہ کے بیس سالہ اقتدار کو شکست فاش دیکر کراچی پر حق حکمرانی کے حصول کا دعویٰ کررہی ہے۔
سیاسی جماعتیں کراچی کے تمام مسائل وپریشانیوں کا ذمہ دار سابقہ حکمران جماعت کو قرار دےکر اس کے سیاسی تابوت پر اپنے اقتدار کا ایوان سجانا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا ہے کہ اہل کراچی کے پاس ٹارگیٹ کلرز سے چھٹکارا پانے کا بہترین موقع ہے اور اگر متحدہ کو مصنوعی آکسیجن فراہم نہیں کی گئی تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بڑے مارجن سے جیتیں گی ۔سراج الحق کے بیان پر کراچی سے تعلق رکھنے والے کسی دل جلے نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام دیا کہ کراچی کے عوام ٹارگیٹ کلرز سے چھٹکارہ پانے کیلئے کبھی خود کش حملہ آوروں کا انتخاب نہیں کریں گے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں عوام کی جانب سے مکمل اعتماد کے حصول کی توقع ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ امید ہے مخالفین الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے جس پر تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل کا جواب آیا کہ انتخابات کا بائیکاٹ ہم نہیں متحدہ کرے گی اسلئے بناءبائیکاٹ اور بناءکسی بد امنی و قتل و غارت انتخابات کا انعقاد اور پولنگ کی تکمیل حکومت ‘ الیکشن کمیشن اور سیکورٹی اداروں کی کامیابی ہے جس پر یقینایہ تینوں مبارک و تحسین کے مستحق ہے جبکہ کراچی کے عوام بھی یقینا مبارکباد کے حقدار بنتے ہیں۔
جنہوں نے نہ صرف حق رائے دہی استعمال کرکے قومی فریضہ نبھایا بلکہ تمام تر خدشات و خطرات کے باوجود گھروں سے نکلے اور خوف کے ہر حصار کو توڑ کر بلدیاتی قیادت کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کیا ۔ شہریوں میں ووٹ کاسٹ کرنے کے احساس ذمہ داری کا شعور اجاگر کرنے اور پولنگ اسٹیشن پہنچاکر ان سے ووٹ ڈلوانے کا سہرا جہاں سیاسی جماعتوں ‘ ان کی قیادتوں اور کارکنوں کو جاتا ہے وہیںڈی جی رینجرز کی جانب شہریوں سے ووٹ کیلئے گھروں سے نکلنے اور حق رائے دہی استعمال کرنے کی اپیل کے ساتھ مکمل امن و تحفظ کی فراہمی کے اعلان کو بھی کارگر نہ کہنا نانصافی ہوگی اور پولنگ کے دن عام تعطیل کا اعلان کرنے والی حکومت کو پولنگ کی شرح میں اضافے کا کریڈٹ نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔
بلدیاتی انتخابات کا حتمی و تیسرا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور کراچی کے 6اضلاع کے عوام بلدیاتی قیادت اور شہر کی حکمران جماعت کے حوالے سے اپنا فیصلہ دے چکے ہیں جس کے تحت کامیاب امیدواروں کا اعلان جلد شروع ہونے والا ہے اور کامیاب امیدواروں کی تعداد و پارٹی نسبت سے شہر کی نمائندگی کی دعویداری کا پول کھلنے کے ساتھ میئر کراچی کی حیثیت سے شہر وعوام کی سہولت و ترقی کیلئے ملنے والے ذمہ داری پر سے بھی پردہ اٹھ جائے گا اور پتا چل جائے گا کہ کراچی میں عوام کی مقبول ترین جماعت کون سی ہے اور عوام شہر پر عرصہ سے حکمران جماعت کی پروگریس و کردار سے مطمئن ہیں یاقائد اعظم کے پاکستان پر اظہار عدم اعتماد کرنے اور نئے پاکستان کی تشکیل کا خواب دیکھ کر اقبال کے خواب پاکستان کو باطل ثابت کرنے والوں کو کراچی کو بھی کے پی کے جیسے حالات کی جانب لیجانے کا موقع دینے کے خواہشمند ہیں۔
اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شاہی سید کی جانب سے دیا جانے والا بیان انتہائی اہمیت و دلچسپی کا حامل ہے جس میں انہوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ حکمران و سیاستدان بلدیاتی اداروں کو مستحکم و مضبوط اور فعال و ذمہ دار بناکر اپنے اختیارات میں تخفیف و شراکت قطعی نہیں چاہتے رہی بات کراچی میں انتخابی فتح کی تو وہ متحدہ کے مقدر میں لکھی جائے گی۔
شاہی سید کے بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کراچی میں میئر کس سیاسی جماعت کا ہوگا مگر راقم کی دعا صرف یہ ہے کہ میئر کراچی جس جماعت سے بھی ہو اسے عوام کی خدمت ‘ سہولیات کی فراہمی اور کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے مکمل عوامی حمایت حاصل ہو یعنی بلدیاتی کونسل بھی کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو مکمل و بھرپور اکثریت حاصل ہو یا پھر اکثریتی جماعت اور مخالف اپوزیشن عوامی مفاد میں ایسے مشترکہ طور پر ایسے میئر کا انتخاب کریں جسے اپنا میئر کہا جاسکے اور جو صوبائی حکومت سے کراچی اور اس کے عوام کے حقوق کے حصول کیلئے اتنا مضبوط ہو کہ قانون سازی کے ذریعہ میئر اور بلدیاتی کونسل کو بے اختیار بنانے والے با اختیار بھی اپنے اختیارات اس کے ساتھ شیئر کرنے اور کراچی کی تعمیر و ترقی کے ساتھ عوام کی خدمت و سہولت کیلئے ہر طرح سے اس سے تعاون کرنے اور کراچی کو استحقاق کے مطابق فنڈز کی فراہمی کیلئے مجبور ہوجائیں۔
اگر اللہ کے کرم اسے اہل کراچی پر یہ مہربانی ہوگئی تو پھر کراچی کی تعمیرو ترقی کا کریڈٹ مشرف ‘ مصطفی کمال یا متحدہ کو نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں ‘ تمام محب وطن قوتوں اور کراچی میں بسنے والی تمام قومیتوں ‘ تمام طبقات اور تمام عوام کو جائے گا مگر اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو الزامات کی سیاست کی بجائے خدمت کے منشور کو فوقیت دینی ہوگی اور کراچی پر قبضے کی بجائے عوام کے دلوں کو تسخیر کرنے کاخواب دیکھنا ہوگا اب دیکھا یہ ہے کہ عوام نے میئر کراچی کیلئے کس کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور کون عوام سے مخلص ہے اور دلوں کو تسخیر کرنے کا عزم رکھتا ہے اور اپنے میئر کے انتخاب میں مثبت کردار ادا کرتا ہے!۔
تحریر: عمران چنگیزی