تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
میری پاکستانی قوم جو بدقسمتی سے ابھی تک ہجوم کے مشابہ ہے اِن دِنوں سیاستدانوں کے دِکھائے جانے والے سُرخ و سبز اور حسین وجمیل خوابوں اور رنگیں ودلفریب و دلکش (ہالہ ) نعرے لگاتی اورسیراب نماخوابوں کو پکڑنے کے خاطر دوڑ لگاتی میری یہ گھامڑ قوم بلدیاتی انتخابات کے مراحل سے گزررہی ہے آج جوکہیں گزرچکی ہے اور کہیں گزرنے والی ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ میری قوم( نماہجوم) مُلک کے جن صوبوں اور شہروں اور اضلاع میں کس طرح سے بلدیاتی انتخابی مراحل سے گزراہے…یہاں مجھے اِس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
بس یہ عرض کرناہے کہ اِس سے بھی سب واقف ہیں کہ اِس دوران اِسے کیسے کیسے لمحات اور مراحل سے گزرناپڑاہے..؟؟ اَب تو یہ بھی کسی سے ڈھکاچھپانہیں رہاہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران بعض مقامات پر پیش آئے واقعات و حوادث کیوں اور کیسے پیش آئے…؟؟ اور اِن کے پسِ پردہ کون سے عوامل اور عناصر کس لئے اور کیوں کارفرمارہے …؟؟؟۔ ایسے میں یہاں سب سے زیادہ باعث تشویش نکتہ یہ ہے کہ اَب آنے والے دِنوں ، ہفتوںاور مہینوں میں یہ میرے دیس کا قوم نما ہجوم جن شہروں اور اضلاع میں بلدیاتی انتخابی مراحل سے گزرے گا…یا گزرنے والاہے…. پچھلے دِنوںجن شہروں اور اضلاع میں جیسے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے اور اِن شہروں اور اضلاع میں پیش آئے واقعات اور حوادث سے سبق سیکھتے ہوئے اُن صوبوں اور شہروں کی انتظامیہ کو چاہئے جو اپنے یہاں آنے والے وقتوں میں اگلے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں اِنہیں اپنے یہاں ہونے والے اگلے بلدیاتی انتخابات کو ایسے واقعات اورحوادث سے محفوظ رکھنے کے لئے ہرقسم کے شک وشبہات سے بالاترہوکر فول پروف سیکورٹی کے انتظامات اور اقدامات کرنے کی اشدضرورت ہے تاکہ جن شہروں اور اضلاع میں آنے والے وقتوںمیں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں وہاں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پُرامن طریقے سے ہو سکے اور ساتھ ہی انتخابات کو دھاندلی سے پاک کیاجائے اور انتخابی مہم کے دوران اور انتخابات والے روز سمیت بعدازانتخابات جیت والوں کو مخالفین کے حملوںاور تصادم سے بچایا جا سکے۔
بہرکیف ..!! اگرانتظامیہ اگلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کاانعقاد پُرامن اور پُرسکون ماحول میں یقینی نہیںبناسکتی ہے تو پھرراقم الحرف کا انتظامیہ سے بس ایک یہی مطالبہ و اپیل اور درخواست ہے کہ اگلے بلدیاتی انتخابی مرحلے میں کراچی سمیت دیگر شہروں اور اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے عمل کو امن و امان کی صورتحال یقینی بنائے جانے تک موخرکردیاجائے کیوں کہ ایسے انتخابی عمل کا کیا فائدہ ہے …؟؟جس میں سانحہ خیرپورجیساکوئی المناک واقعہ رونماہواورسارا انتخابی عمل اِنسانی جانو ں کے ضیاع سے گزرے مگر پھر بھی ایسے نتائج حاصل نہ ہوسکیں جن کی انتخابات سے قبل توقعات کی جائیں۔
اگرچہ پچھلے دِنوں سندھ اور پنجاب میں پہلے مرحلے میں ہونے والے ماردھاڑ اور خون خرابے سے لبریز بلدیاتی انتخابات کے بعدووٹوں کی گنتی کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیاہے جس سے اتناتو واضح ہواہے کہ پنجاب میں ن لیگ1192،سندھ میں پی پی کو 789نشتوں پر کامیاب ہوئی جبکہ دونوں صوبوں میں1239 آزاد اُمیدوار کامیاب قرارپاکر دوسری بڑی قوت بن کر اُبھرے ہیں اور اِسی طرح غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق پنجاب کے 12اضلاع کی 2696نشتوں میں سے مسلم لیگ(ن) نے1192،آزاد1065 ، پی ٹی آئی287، پی پی پی100،مسلم لیگ (ق)44،جماعت اسلامی اور عوامی تحریک2,2تاہم دیگر سیاسی جماعتوں نے 4نشتیں حاصل کی ہیںجبکہ مُلکی سیاسی میں اپنااہم رول اداکرنے والے صوبہ سندھ کے 8اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیرحتمی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر1070نشتوں میں سے789 پرکامیابی حاصل کرلی ہے۔
اَب پی پی پی نے اپنے تئیں یہ دعویٰ کرناشروع کردیاہے کہ سندھ میں اِس کا گراف ابھی گرانہیں ہے بلکہ عام انتخابات کے بعد اِس نے سندھ میں قابلِ حوصلہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرکے بھی عوامی سطح پر اِس کا مورال اتناہی بلند ہے جتنی کہ اِس کی خوش فہمی ہے یوں پاکستان پیپلزپارٹی اِس ہی سیراب میں گم ہے کہ اِس نے سندھ میں کچھ نہ کرکے بھی اپناوقاربرقراررکھاہواہے اور عوام کے دلوں میں اِس کی عزت ووقارقائم ہے جبکہ عوام کو یہ بھی معلوم ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی کو کس نے ووٹ دیئے اور اِسے یہ کامیابی کیسے کیسے…؟؟اور کون کون سے پاپڑبیل کرحاصل ہوئی ہے…؟؟ پی پی پی کو اپنی اِس کامیابی کو دھمال ڈالنے کی ضرورت نہیںہے بلکہ اِس موقعے پر اِسے اگلے (2018میں)ہونے والے عام انتخابات پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے اپنااحتساب اور محاسبہ کرناہوگااِسے بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی کامیابی پر اقتفانہیں کرناچاہئے اگر ایساہی کیا تو پھر پی پی پی کو عام انتخابات میں اِس سے بھی اُلٹ نتائج کے سامنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
بہرحال…!! چند روزقبل سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ فنکشنل72،جمعیت علمائے اسلام (ف)12، پاکستان تحریک انصاف5، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان4اورمسلم لیگ (ن)نے بھی صرف 3نشتوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر عوامی خدمات گار ہونے کا علم لہرادیاہے کہ جب تک نچلی سطح سے عوامی خدمات کے منصوبوں پر عملدرآمدنہ کیاجائے بڑے منصوبوں کا خواب پورانہیں کیاجاسکتاہے اور قوم کی خوشحالی کے ثمرات جتنے اچھے انداز سے نچلی سطح تک پہنچیں اُتناہی مُلک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا تاہم پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیاب قرارپانے والی سیاسی و مذہبی جماعتو ں اور آزاداُمیدواروں کے قوم کی خدمت کرنے اور مُلک کو اُوجِ ثریاکی بلندیوں سے بھی اُونچالے جانے والے تمام دعوے اور وعدے اپنی جگہہ مگر کامیابی سے ہمکنار سیاسی جماعتوں اور آزاداُمیدواروں کو یہ بھی چاہئے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے اور نبھانے سے قبل اپنے خدااور اپنے ضمیرکے سامنے اپنااپنامحاسبہ اور احتساب ضرورکرلیں کہ وہ کیا اِس قوم اور مُلک جو اپنے قیام سے ابتک صاف وشفاف پینے کے پانی کے حصول سے محروم ہے۔
جدید طریقوں کے مطابق سیوریج کے پانی کی نکاسی درست نکاسی نہ ہونے کے باعث آلودگی اور گندگی و غلاظت جیسے مسائل سے نہیں نکل پائی ہے کیا بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے ذمہ داران اپنی صلاحیتوں سے اپنی قوم اور مُلک کو اِن مسائل سے نجات دلائیںگے یا سیاسی مصالحتوں کا شکار ہوکر جو جیساہے اِسے ایساہی پڑارہنے دے کروقت گزارکرچلتے بنیں گے یا حقیقی معنوں میں بلدیاتی انتخابات کے کامیاب اُمیدوارمُلک اور قوم کی خدمت اور مُلک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نجات دلانے کے جذبوں سے سرشارہوکربھی میدانِ عمل میں اُتریں گے توآنے والے وقتوں میں مُلک اور قوم میں مثبت اور تعمیری تبدیلیاں ضرورمحسوس کی جاسکیں گیں ورنہ میری گھامڑ قوم نماہجوم ہمیشہ ہجوم ہی بنا رہے گا اوریہ ہجوم کبھی بھی حقیقی اور بامعنی اور بامقصد قوم کے رنگ میں سامنے نہیںآ سکے گا۔
تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com