لاہور: پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا التواء کے حوالے سے پائی جانے والی افواہیں اور بے یقینی دم توڑ رہی ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ جولائی2018 کے آخری ہفتہ میں پاکستانی عوام ملکی تاریخ کے 13 ویں مگر سب سے اہم جنرل الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1954 میں ہوئے تھے۔ اس ان ڈائریکٹ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ کامیاب ہوئی تھی۔ 1962 ء میں دوسرے عام انتخابات بھی ان ڈائریکٹ تھے اور فاتح بھی مسلم لیگ تھی۔1970 ء میں ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی ۔ 1977 ء کے عام انتخابات ملکی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوئے اور ان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی ۔1985 ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کامیاب ہوئی تھی اور انہی انتخابات کے نتیجہ میں میاں نواز شریف سیاسی افق پر نمودار ہوئے تھے۔
1988 ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور 1990 ء کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کامیاب ہوا۔1993 ء میں پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر الیکشن جیت لیا اور 1997 ء میں مسلم لیگ نواز کامیاب ہو گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں 2002 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کامیاب ہوئی لیکن یہ انتخابات ’’انجینئرڈ‘‘ اور ق لیگ ’’کنگز پارٹی‘‘ قرار پائی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت مل گئی تھی جبکہ 2013 ء کے متنازعہ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کامیاب ہوئی۔ تاہم 2013 ء کے انتخابات شاید ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک سابق آرمی چیف اور ایک سابق چیف جسٹس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر نواز حکومت کے قیام میں مبینہ رول ادا کیا تھا اور اس مقصد کیلئے مبینہ طور پر انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت کو بھیجی گئی سمری میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 25 26, اور 27 جولائی کی تاریخ میں سے کسی ایک کے انتخاب کی سفارش کی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے امیدوار فائنل کرنے اور ان امیدواروں کے پاس الیکشن مہم چلانے کیلئے آج کے بعد مزید 62 دن باقی ہیں۔ الیکشن مہم کیلئے یہ وقت بہت مختصر معلوم ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نازک صورتحال پاکستان تحریک انصاف کی ہے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد امیدواروں کا انتخاب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے لیکن تحریک انصاف اس مرتبہ پارٹی میں سے مضبوط امیدواروں کے انتخاب سے زیادہ توجہ دوسری پارٹیوں کے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو تحریک انصاف میں شامل کرنے پر دے رہی ہے ۔
پاکستان میں گوشت کی دستیابی میں تو ہفتہ میں 2 دن کا ناغہ ہورہا ہے لیکن تحریک انصاف میں شمولیت کے حوالے سے کوئی ناغہ دیکھنے میں نہیں آرہا، ہر روز کوئی نہ کوئی الیکٹ ایبل کپتان کی ٹیم میں شامل ہو رہا ہے اور شامل ہونے والوں کی سنچری کب کی مکمل ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے جہانگیر خان ترین کا کردار سب سے اہم ہے جن کی کلیئرنس کے بعد عمران خان شمولیت کرنے والوں سے باضابطہ ملاقات کرتے ہیں۔ شمولیت کرنے والوں کی کثرت کے حوالے سے جہانگیر ترین کے بارے میں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک بڑا وائرل ہو رہا ہے جس میںن لیگی قیادت بن کر کہا گیا ہے کہ’’گھر سے مت نکلنا،باہر جہانگیر ترین گھوم رہا ہے‘‘۔
تحریک انصاف کے اندر ہر سطح کے رہنماوں اور کارکنوں میں اتنی بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز کے شامل ہونے پر تحفظات اور خدشات موجود ہیں۔ کارکن اور رہنما سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح سیاسی توازن خراب ہورہا ہے۔ ہر سیاسی موسم کے ساتھ بدلنے والے یہ الیکٹ ایبلز آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندر بھی اور پارلیمنٹ میں بھی توازن خراب کر سکتے ہیں جبکہ میڈیا اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی تحریک انصاف پر یہ تنقید بڑھا سکتی ہیں کہ پرانے الیکٹ ایبلز کے ساتھ الیکشن جیتنے والے عمران خان کس طرح سے نیا پاکستان بنا سکتے
ہیں۔ پارٹی کے اندر یہ سوچ اپنی جگہ درست ہے لیکن عمران خان کی مجبوری ہے کہ وہ الیکٹ ایبلز کے بغیر یہ الیکشن جیت نہیں سکتا۔ تحریک انصاف آج تک ایک مکمل سیاسی جماعت نہیں بن پائی ہے اور نہ ہی اس کے رہنماوں نے پختہ سیاسی سوچ اور راہ عمل اپنائی ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کیلئے اگر تحریک انصاف میں ایسے 272 امیدوار تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، جو اپنے حلقوں میںعوامی سطح پر مقبول بھی ہوں اور قابل قبول بھی، گزشتہ پانچ برس سے حلقہ میں خوشی،غمی میں شرکت کے علاوہ ووٹرز کو ہمہ وقت دستیاب رہے ہوں۔
حلقہ میں پارٹی کی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہو، ان کے پاس انتخابی مہم چلانے اور پولنگ ڈے کو بھرپور طریقہ سے مینج کرنے سمیت دیگر اخراجات کیلئے غیر یقینی اور زبانی جمع تفریق والے ’’سپانسرز‘‘پر انحصار کی بجائے اپنی جیب میں وافر مالی وسائل دستیاب ہوں تو شاید عمران خان مطلوبہ تعداد کا نصف بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ایسی صورتحال میں عمران خان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ کم سے کم متنازعہ یعنی اندھوں میں کانا دکھائی دینے والے الیکٹ ایبلز کو ساتھ لیکر چلیں ۔ ویسے عمران خان جس مزاج اور انداز کے انسان ہیں وہ حکومت بننے کے بعد ان الیکٹ ایبلز کو بے لگام نہیں ہونے دیں گے۔ عام پاکستانی اس وقت یہی سوچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو تو متعدد مرتبہ آزما لیا،ایک مرتبہ تحریک انصاف کو بھی موقع دیکر دیکھتے ہیں شاید عمران خان ملک و قوم کی بہتری کیلئے وہ کر جائے جو آج تک سیاستدان نہیں کر سکے ہیں۔
میاں نواز شریف جان چکے ہیں مگریہ ماننے کو تیار نہیں کہ’’پارٹی از اوور‘‘۔ ان کی سیاست اور جماعت’’کٹ ٹو سائز‘‘ ہو چکی ہے،ان کی پارٹی کے اراکین بددلی اور غیر یقینی کا شکار ہو کر اپنے الیکشن پر زیادہ اخراجات نہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب پارٹی کی حکومت ہی نہیں آرہی تو کروڑوں روپے الیکشن پر لگانے سے کیا فائدہ ہوگا لہذا محدود بجٹ میں الیکشن جیت گئے تو ٹھیک ورنہ حلقہ کی سیاست تو ہار کر بھی کی جا سکتی ہے۔ نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کا تقرراس وقت سب سے اہم معاملہ ہے جس پر گزشتہ روز تک اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص تحریک انصاف ایک غیر جانبدار، اچھی ساکھ اور متفقہ فرد کو نگران بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تحریک انصاف 2013 ء کے الیکشن میں نگرانوں کے ہاتھوں زخم کھا چکی ہے لہذا وہ اس مرتبہ کوئی غلطی کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔
تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دن کا روڈ میپ بڑے پر اعتماد اور منظم انداز میں پیش کیا ہے گو کہ مخالف سیاسی جماعتیں اور مبصرین اس روڈ میپ کو ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ عام پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس روڈ میپ کو سن کر متاثر ہوئی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس میں سے آدھا کام بھی کر لیا جائے تو یہ تاریخ ساز ہوگا۔