ملک کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہے۔ گو نون لیگ کی حکومت کو کبھی ڈان لیکس تو کبھی دھرنوں، کبھی پانامہ لیکس تو کبھی دہشتگردی، کبھی معاشی مسائل تو کبھی لوڈشیڈنگ، کئی ملکی اور بین الاقوامی بحرانوں اور طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جمہوریت کی کشتی نے ہر طوفان اور بپھری موج کا مقابلہ مضبوطی سے کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا اور آج بھی محو سفر ہے۔ آمریت کے ڈسے ملک میں اس سنگ میل کو کامیابی سے طے کر کے جمہوریت اور زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور یہ امر خوش آئند ہے۔ جمہوریت پسند اس پر داد کے مستحق ہیں اور آمرانہ ذہن رکھنے والوں کو اپنی ہار مبارک ہو۔
ملک میں عام اتخابات 25 جولائی کو ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن کا انعقاد جمہوریت کو اور زیادہ پائیدار کرے گا۔ نگران حکومتوں کے قیام کے بعد اب ملک میں عام انتخابات کا بول بالا ہے۔ بڑی سیاسی طاقتوں کے درمیان جمہور کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے کشمکش تو شروع دن سے جاری ہے، لیکن اب اس میں اور شدت آ چکی ہے۔
اگر ماضی کا ایک مختصر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سوائے 1970 کے تقریباً ہر الیکشن کے بعد انتخابی بے ضابطگیوں اور دھاندلی کا شور ہوا۔ جیتنے والی جماعتوں پر اپوزیشن کی جانب سے الزامات لگائے گئے۔ کبھی دھاندلی تو کبھی کرپشن الزامات کی زد میں آ کر کئی حکومتیں ختم ہوئیں۔ ماضی میں پولنگ سٹاف، ریٹرننگ افسران اور اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ انتخابات پر امن و عامہ کی صورتحال کو برقرار رکھنا بھی ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔
اگر موجودہ سیاسی حال کا موازنہ ماضی کے حالات و واقعات سے کیا جائے تو یہی لگتا ہے کہ آنے والے انتخابات بھی شاید ماضی کے انتخابات سے مختلف نہ ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
گزشتہ ماہ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اللہ کے کرم سے وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ حملہ آور کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے تھا جس کا تقریباً ہر حلقے، خاص کر پنجاب میں، ووٹ بینک موجود ہے اور یہ جماعت آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ حملے کی وجہ ختم نبوت والا معاملہ بتائی جاتی ہے۔ خاکم بدہن، اس نازک معاملے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ نون لیگ کو سیاسی ہی نہیں، لیڈران پر حملوں کی صورت میں بھی نقصان پہنچے۔ جو وزیر داخلہ جیسے اہم ترین منصب پر فائز شخص کے ساتھ ہوا، اسی طرح کے حملے الیکشن کمپین پر باقی سیاسی قیادت پر بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم جذباتی ہیں۔ ختم نبوت خالصتاً مذہبی معاملہ ہے جس کو ایک مذہبی جماعت رنگ دے کر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابات پر امن و عامہ کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب انتظامات کئے جائیں۔
دوسرا حال ہی میں پلڈاٹ کی شائع رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ انتخابات پر اثرانداز ہونے میں فوج اور میڈیا کا کردار غیر منصفانہ ہے۔ یہ رپورٹ ایک سروے کے ذریعے مرتب کی گئی ہے۔ سروے میں حصہ لینے والے صرف 34 فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فوج اور میڈیا کا الیکشن میں کردار غیرجانبدار ہوگا۔ اگر حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے کیونکہ اس طرح کے سروے پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں تو یہ قابل افسوس ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے کیونکہ فوج اور میڈیا ملک کے طاقتور ترین ادارے ہیں اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔
ماضی کے انتخابات میں فوج کے کردار پر کئی سوال اٹھائے گئے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، عمران خان صاحب نے گزشتہ دنوں 2013 کے الیکشن میں فوج کے کردار پر سوال اٹھائے اور کہا کہ جنرل کیانی نے نون لیگ کو الیکشن جتوایا۔ ایسے ہی الزامات آنے والے انتخابات کے بعد ہارنے والی جماعت کی طرف سے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ نون لیگ کے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا جھکائو پی ٹی آئی اور باقی جماعتوں کی طرف ہے اور مسلم لیگ نون کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اگر نون لیگ الیکشن ہارتی ہے اور مرکز میں تحریک انصاف حکومت قائم کرتی ہے تو نون لیگ اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرائے گی، دھاندلی کے الزامات لگائے جائیں گے اور شاید وہی کچھ دیکھنا پڑے جو پچھلے پانچ سال ہوا۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کردار ‘غیر جانبدار’ ثابت کرنا ہو گا تاکہ الیکشن کے بعد ہارنے والے دوسروں پر الزامات نہ لگائیں۔
تیسرا نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے معاملے پر جو ڈیڈلاک پیدا ہوا اور پھر حسن عسکری صاحب کی بطور وزیرِ اعلیٰ تعیناتی، دونوں معاملات انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بے شک حسن عسکری صاحب کی تعیناتی آئینی طور پر ہوئی ہے اور تمام پارٹیوں کو اب الیکشن کمیشن کا فیصلہ ماننا پڑے گا، لیکن نون لیگ جو پنجاب میں پچھلے دس سال سے برسراقتدار ہے، اس کی جانب سے نگران وزیرِ اعلیٰ کی تعیناتی پر خدشات کا اظہار الیکشن کے نتائج پر سوالات کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پی ٹی آئی نے 2013 کے انتخابات کے بعد کیا تھا جب الیکشن کے بعد نجم سیٹھی صاحب پر 35 پنکچر لگانے اور پنجاب میں نون لیگ کی معاونت کرنے کے الزام لگائے گئے۔ محض یہی نہیں، پی پی پی نے اس الیکشن کو ‘آر اوز کا الیکشن’ قرار دیا۔ اسی کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف نے نون لیگ کی حکومت کو ‘جمہوری حق’ کے طور پر تقریباً مفلوج کئے رکھا۔ لہٰذا حسن عسکری اور باقی نگران وزرائے اعلیٰ کو الیکشن کی ساکھ کو متاثر کئے بغیر اپنا کردار منصفانہ اور غیر جانبدار ثابت کرنا ہو گا۔
چوتھا عدلیہ کا مسلسل مسلم لیگ نون کی وفاق اور پنجاب میں کارگردگی پر سوال اٹھانا اور مسلم لیگ کے لیڈران کے خلاف چلنے والے کیسز بھی کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے نون لیگ کی کارگردگی پر سب سے زیادہ سوموٹو لئے۔ حالانکہ باقی صوبوں میں حالات پنجاب سے زیادہ مختلف نہیں۔ بلکہ پنجاب کئی حوالوں سے باقی صوبوں سے بہتر ہے۔ میاں نواز شریف بھی پانامہ فیصلے کے بعد عدلیہ کہ غیرجانبداری پر مسلسل سوال اٹھا رہے ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نون لیگ کی قیادت اصل ٹارگٹ ہے۔ اور اسی کو بنیاد بنا کر نواز لیگ انتخابات لڑنے جا رہی ہے۔
لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان اندیشوں کا سدباب نہیں کیا جاتا تو 2018 کے انتخابات بھی شاید ماضی کے انتخابات کی نسبت مختلف نہ ہوں۔ یہ الیکشن 1970 کے بعد اہم ترین ہیں اور پاکستان کی سیاست اور معیشت کا رخ متعین کریں گے۔ اگر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدارانہ طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کرتی تو یقین کریں اس غلطی کا خمیازہ وطن عزیز کو بہت زیادہ عرصے تک بھگتنا پڑے گا۔ اگر کوئی ملک میں جمہوریت کا بول بالا دیکھنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے جمہوریت کی مکمل حمایت ضروری ہے۔ ایسا طرزِ عمل جو پی ٹی آئی کی جانب سے پچھلے پانچ سال میں دیکھا گیا، اگر ویسا ہی کچھ اگلے پانچ سالوں میں ہوتا ہے تو یہ خوش آئند نہیں بلکہ جمہوری عمل کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ لہٰذا اداروں کو جمہوری عمل کی حمایت کرنی چاہئیے، نہ کہ غیرجمہوری قوتوں کی۔