الیکشن اصلاحات کے لیے یہ آخری سال ہے۔ کہتے ہیں جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے، اب ہر کام جلدی میں ہوگا اور جلدی جلدی میں سب کچھ غلط بھی ہوگا اس لیے کہا جائے گا کہ پرانے الیکشن سسٹم کو ہی فالو کیا جائے گا کیوں کہ ’’نئے سسٹم میں بہت سی خرابیاں ہیں‘‘ ۔ اور پھر کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو 2013ء کے الیکشن کے بعد ہوا، بلکہ اسی کی دوبارہ سے ریہرسل کی جائے گی۔ وہی کنٹینر ، وہی چار پانچ حلقے ، وہی شعبدہ بازیاں،وہی عوامی لیڈرز، وہی عدالتیں، وہی الیکشن کمیشن اور وہی عوام ہو گی۔
2013ء کے بعد کے ماہ و سال کسی کو نہیں بھولے۔ جو جیت گئے انھوں نے شکر الحمدللہ کہا اور جو ہار گئے انھوں نے دھاندلی کا شور مچایا اور شور بھی ایسا تھا کہ پوری دنیا نے سنا، پھر الیکشن اصلاحات کے لیے کمیٹیاں قائم کی گئیں جن میں ٹیکنو کریٹس کے علاوہ اپوزیشن اور حکومتی نمایندوں کو شامل کیا گیا۔ دو تین سال اسی میں گزار دیے اور اب عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً سوا سال کا عرصہ رہ گیا ہے مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور عوامی فورمز پر ہونے والے بحث مباحثے کے باوجود انتخابی اصلاحات نہیں لائی جا سکی ہیں۔
نہ ہی احتساب کے قوانین میں کوئی تبدیلی ممکن ہوئی ہے۔ جولائی 2014ء میں انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ کمیٹی کو 90 روز میں اپنا کام مکمل کرنے کے لیے کہا گیا تھا ، مگر ایک تو کمیٹی کی میٹنگز تسلسل سے نہ ہو سکیں، دوسرا ارکان کی سیاسی نیت بھی کمزور تھی اور تیسرا دوسرے سٹیک ہولڈروں سے مشاورت بھی نہ کی جا سکی یوںکمیٹی اپنا کام مکمل کرنے میں ناکام ہو گئی۔مجھے ایک بار فرانس کا الیکشن مانیٹر کرنے کا اتفاق ہوا تو وہاں اس بات کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ کتنے فیصد عوام نے ووٹ کاسٹ کیا جب کہ یہ ضرور دیکھا گیاکہ کتنے فیصد عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔ گزشتہ انتخابات میں فرانس میں 17فیصد عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔ تو یہ خبر فرانس کے بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر چھپی۔ وہاں موجود الیکشن کمیشن فکر مند تھا کہ اس قدر ووٹرز نے ووٹ کیوں نہیں کاسٹ کیا۔
میری اس حوالے سے وہاں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ یہاں کی حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اور پالیسی بناتے ہیں تاکہ اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کو ووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کر سکیں۔دنیا کے تمام ممالک ووٹ‘ ووٹروں اور الیکشن کے بارے میں حساس ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں‘ عوام جب تک حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے ملک میں اس وقت تک اچھی حکومت نہیں آتی اور ملک میں جب تک اچھی حکومت نہ آئے اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے چنانچہ تمام ممالک زیادہ سے زیادہ عوام کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کرتے ہیں‘ سوائے ہمارے۔ ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی۔
اس دن ہماری آمرانہ سوچ‘ آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا۔ بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں‘ بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے‘ ہم اگر ملک میں فرنچ‘ برٹش‘ امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے‘ بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی‘ پرانی حکومت چلتی رہتی ہے‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔
یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے‘…انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں‘ وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں ۔ 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں‘ ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے‘ مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے۔ اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آجاتے ہیں‘ یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے‘ یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا، مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی۔ کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے‘ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے‘ سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں‘ پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔
ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں‘ ایک‘ الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے‘ یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں‘ یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں‘ دو‘ بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں۔
پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے‘ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی‘ ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاؤنٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس سلسلے میں کیا کررہی ہیں؟ اور اگلے انتخابات کو شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدار بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے جارہے ہیں؟ کمیٹی اس سلسلے میں کہاں تک پہنچی ہے اور وہ کون سی اصلاحات ہیں جو کرنا مقصود ہے تاکہ انتخابات منصفانہ ہوں (اور باقاعدہ قرار بھی دیے جا سکیں)۔