اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی انتخابات کے فیصلہ کن مرحلے میں الیکٹورل کالج کی ووٹنگ جاری ہے، منتخب نمائندے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرینگے، نو منتخب صدر بائیڈن کی ٹرانزیشن ٹیم کے مطابق الیکٹورل کالج سے توثیق کے بعد بائیڈن قوم سے خطاب کریں گے جسے براہ راست نشر کیا جائے گا۔ بائیڈن کی ٹیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اپنے خطاب میں نو منتخب صدر امریکی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کریں گے۔مگر صدر ٹرمپ ابھی تک الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے دعوے پر قائم ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ میں جلی حروف میں لکھا کہ “یہ امریکہ کی تاریخ کے سب سے کرپٹ الیکشن تھے۔”ایک دوسرے ٹوئٹر پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ریاستیں اور سیاست دان کیسے ان نتائج کی تصدیق کر سکتے ہیں جن میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ ٹوئٹر نے ماضی کی طرح صدر ٹرمپ کی ان ٹوئٹس پر بھی انتباہی نوٹس لگا دیے ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کے باوجود امریکہ میں صدارتی انتخابات کی توثیق کے لیے الیکٹورل کالج کے اراکین پیر کو جمع ہو رہے ہیں۔ الیکٹورل کالج کے اراکین ہر ریاست کے دارالحکومت میں جمع ہو کر 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن کی توثیق کریں گے۔صدرٹرمپ نے اپنے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ صدر نے کہا کہ ہم آگے بڑھتے رہیں گے کیوں کہ مقامی سطح پر دھاندلی کے خلاف تاحال کئی کیسز زیرِ التوا ہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ “کئی ریاستوں میں الیکشن نتائج چوری کیے گئے۔ ہم پینسلوینیا میں جیتے، مشی گن میں جیتے جب کہ جارجیا میں بھاری اکثریت سے جیتے۔” واضح رہے کہ الیکٹورل کالج کوئی ادارہ نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ 538 افراد کا ایک گروپ ہے جو صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ صدارتی الیکشن میں کامیابی کے لیے اُمیدوار کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ امریکی عوام صدارتی الیکشن میں درحقیقت ان 538 الیکٹرز کو ووٹ ڈالتے ہیں جو 14 دسمبر کو باضابطہ طور پر صدر اور نائب صدر کے انتخاب کی توثیق کرتے ہیں۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن 306 ووٹ لے چکے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ کو 232 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی سپریم کورٹ اور ریاستی عدالتیں صدر کی انتخابی مہم کی جانب سے دھاندلی کے خلاف دائر لگ بھگ 50 درخواستیں مسترد کر چکی ہے تاہم صدر ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کا اصرار ہے کہ 3 نومبر کے الیکشن میں دھوکہ دہی اور ووٹر فراڈ کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے۔
How do states and politicians confirm an election where corruption and irregularities are documented throughout? A Swing State hustle!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) December 13, 2020
MOST CORRUPT ELECTION IN U.S. HISTORY!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) December 13, 2020
خیال رہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے ریاست ٹیکساس میں بھی 3 نومبر کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کے مقدمے کو خارج کر دیا ہے جس سے ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کو کافی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اس مقدمے میں چار ‘سوئنگ’ ریاستوں پینسلوینیا، مشی گن، وسکانسن اور جارجیا کے نتائج کو چیلنج کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے حامیوں نے ہفتے کو صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حق میں واشنگٹن میں ‘میگا ملین مارچ’ کے نام سے احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔
الیکٹورل کالج کا اجلاس
خیال رہے کہ امریکہ میں صدر اور نائب صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ وہ الیکٹورل کالج کے عمل کے ذریعے الیکٹرز منتخب کرتے ہیں۔