تحریر : ایم سرور صدیقی
ضروری نہیں کتابیں لکھ لکھ کر انبار لگادئیے جائیں یا اتنے منصوبے شروع کہ لوگوں کا جینا عذاب بن جائے تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے ایک حوالہ ہی کافی ہوتاہے لیکن یہ بات آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ہر صاحب ِ اختیار یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ عقل مند ابھی تک کسی ماں نے جنا ہی نہیں حکمرانوں کی بات جھوڑیں ان کی تو دنیا ہی الگ ہے یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی انہیں سمجھ کیونکر آئے گی کہ حکمران سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔ جس طرح باتیں کرنا کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے سفر یا ہو دفتر باتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں حتی کہ کسی جنازے میں شرکت کرنی ہو پھر بھی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے کسی طور رکتی ہی نہیں اس عادت سے پاس بیٹھنے والے خواہ کتنے ہی بیزار کیوں نہ ہوں۔
کوئی بیمار ہو، کسی کے سر میں دردہو یا ان کی نان سٹاپ باتیں سن سن کر سر میں درد ہونے لگے لگتاہے انہیں ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا کچھ لوگ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے واسطے ایسا کرتے ہیں۔۔۔آخرکوئی شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ باتیں تو حکمران بھی کمال کی کرتے ہیں دنیا میں شاید سب سے زیادہ جھوٹے سیاست میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔ بات ہورہی تھی تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے ایک حوالہ ہی کافی ہوتاہے ہم نے بیشترحکمران اس خبط میں مبتلا دیکھے ہیں کہ ان کے ناموں کی تختیاں پورے ملک کے گلی گلی محلے محلہ لگی ہوں یہ الگ بات ان کی اس معصوم سی خواہش کے نتیجہ میں بے شک ملکی معیشت کا دھڑن تختہ ہوجائے کوئی مضائقہ نہیں کتنے ہی شعر ایسے ہیں جو ضرب المثل بن گئے اکثر باخبر لوگ بھی شاعرکا نام نہیں جانتے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے
یہ شعر بہت سوں نے سنا یا پڑھا ہوگا بلکہ عاشورہ ٔ محرم میں کیا مولانا کیا ذاکرحضرات اکثر پڑھتے ہیں آپ بھی سنئے
قتل ِ حسین اصل میں مرگ یزیدہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
یہ شعر تحریک ِ پاکستان کی ایک معروف شخصیت کاہے بہت کم لوگ ان کو بطور ِ شاعر جانتے ہیں۔۔۔وہ ہیں مولانا محمد علی جوہر ۔۔۔یہ شعراتنا مشہور ہے کہ کسی بھاری بھر کم دیوان سے بھی بھاری ہے اس میں کوئی شک نہیں بحیثیت شاعر مولانا محمدعلی جوہر کو یہ شعر تاقیامت زندہ رکھے گا۔۔۔ اسی طرح بر ِصغیر کو دہلی سے پشاور تک ملانے والی اکلوتی شاہراہ جنرنیلی سڑک کا تحفہ دینے والے” شیرشاہ سوری”کانام اس جی ٹی روڈنے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید بنادیا آج بھی جب کوئی حکمران سڑکیں تعمیر کرواتا ہے یار لوگ خوشامد کے لئے اسے شیر شاہ سوری ثانی کا خطاب دے کر بینر لگوا دیتے ہیں اور چمچے کڑچھے قسم کے ورکر اسی پر اتراتے پھرتے ہیں دور ِ حاضر میں میاں نواز شریف نے موٹروے بنا کر یقینا ایک اچھا کام کیا جس کا اعتراف اپنے پرائے سب کرنے پر مجبور ہیں۔
لیکن اب ایسے نمائشی منصوبے تیار کئے جارہے ہیں جن کا مقصد ستائش کے سوا کچھ نہیں ایک طرف تو پاکستان سٹیل ملز،پی آئی اے سمیت درجنوں ادارے اس لئے فروخت کئے جارہے ہیں کہ وہ قومی خزانے پر بوجھ ہیں جبکہ میٹرو بس،اورنج لائن ٹرین منصوبوں کو قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے کی سبسٹڈی دی جارہی ہے ہم ان منصوبوںکے مخالف نہیں ہیں ملک کو عصر ِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لئے ایسے منصوبوںکی اشد ضرورت ہے لیکن ملک و قوم کے لئے ترجیحات کا تعین کرنا حکومت کی اولین ضرورت ہے کون نہیں جانتاملک کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا بحران ہے لوڈشیڈنگ نے معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیاہے کسی حکمران نے اس طرف توجہ نہیں دی موجودہ حکومت بھی اپنے پیش رو کے نقش ِ قدم پرچلنا فخر سمجھتی ہے اس لئے محض واہ واہ کیلئے نمائشی کام کئے جارہے ہیں۔
ایک طرف پنجاب حکومت نے دانش سکول پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے جس پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں بچوں کی بہتر تعلیم کیلئے ایسے سکول قائم کئے جانا ضروری ہیں اڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے اس میں بھی اربوں کی کرپشن کی گئی ہے ایک طرف دانش سکول تو دوسری طرف سرکاری سکولوں کی حالت ِ زار سب پر عیاں ہے لاہور کے مضافاتی علاقوں میں بااثر لوگوں نے سرکاری سکولوں پر قبضہ کر رکھاہے جہاں بیشتر گورنمنٹ تعلیمی ادارے جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں بچوںکو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں اگر لاہور کے مضافاتی علاقوں کا یہ عالم ہے تو دور دراز کے شہروں میں کیا ”قیامت” ہوگی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا پرائیویٹ سیکٹر ایجوکیشن کے شعبہ میں سرمایہ کاری نہ کرتا تو آج 5 کروڑ بچے گلیوں میں آوارہ پھررہے ہوتے یا دکانوں ورکشاپوںمیں چھوٹے موٹے کام کررہے ہوتے آج بھی اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے ہمارے خادم ِ اعلیٰ اپنا ہیلی کاپٹرکسی بھٹہ خشت کے نزدیک کھیتوں میں لینڈ کرتے ہیں مٹی سے اٹے کسی بچے کو گود میں اٹھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہر بچہ سکول جانے لگاہے جناب قوم کو ان نمائشی کاموںکی ضرورت نہیں بچے صرف بھٹہ خشت پرہی مزدوری نہیں کرتے پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں اس وقت بھی لاکھوں بچے مزدوری کررہے ہیں حکومت کو ان کا خیال کیوںنہیں آتا۔
ان کی ایجوکیشن کے لئے ہنگامی بنیادوںپر کام کیوں نہیں ہورہا۔۔ حال ہی میں حکومت نے ایک صحت کارڈ جاری کیاہے جس پر غریبوںکا علاج مفت ہونے کی نوید سنائی گئی ہے ۔۔۔کوئی ہے جو میاں نوازشریف سے پوچھنے کی جرأت کرے ۔۔ جناب صرف صحت کارڈ کے حامل لوگ ہی بیمار ہوتے ہیںکیا؟۔۔ ملک کے دوسرے کروڑوں افرادکا کیا قصورہے کیا انہیں علاج معالجہ کی ضرورت نہیں ہے محترم وزیر ِ اعظم جان کی امان پائیں تو عرض کرتاہے یہ نمائشی کام چھوڑئیے وہ اقدامات کریں جس کا فائدہ پوری قوم ہو کیا آپ کو معلوم نہیں سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈپر چار چار مریض زیر ِ علاج ہیں کہیںڈاکٹر نہیںکہیں ادویات ناپید۔۔۔سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ درجنوں مریض دم توڑ جاتے ہیں صرف چلڈرن ہسپتال میں ویٹی لیٹرنہ ہونے کے سبب نہ جانے کتنے بچے جاںبحق ہوچکے ہیں متعدد شہروں میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں یہ سہولیات کی فراہمی کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ جتنی رقم حکمرانوںنے میڈیا میں تشہیر کیلئے اشتہارات پر خرچ کی ہے اس سے ہزاروں مریضوںکا علاج ہو سکتا تھا۔۔۔
شاید حکمران نہیں جاننا چاہتے تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے ایک حوالہ ہی کافی ہوتا ہے صحت کارڈ، بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام،سستی روٹی سکیم، پیلی ٹیکسی، مالٹاٹرین، میٹروبس جیسے منصوبوں کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ قطاردر قطاریں لوگوں کو دیکھ کر شاید حکمرانوں کی انا کو تسکین ہوتی ہو۔۔۔ بھوک سی بلکتی عوام۔۔۔غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اولاد کو قتل کرنے والے۔۔۔بازاروں میں اپنے لخت ِ جگربیچنے والے۔۔ مسائل کے حل کی خاطرسرکاری دفاترمیں ذلیل ہونے والے۔ ۔۔پاپھر انصاف کیلئے تھانوں، کچہریوں اور عدالتوں میں خوار ہونے والے، روٹی کے لقمے لقمے کو ترستے ،مہنگائی کے مارے اور بیروزگار بھی پاکستان کے شہری ہیں ان کیلئے کچھ کیجئے یہ لوگ اصل پاکستان ہیں اصلی پاکستانی ہیں تمام وسائل عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کیلئے وقف کردئیے جائیں تو پھر ملک ترقی کرے گا جہاں پینے کا صاف پانی میسرنہ ہو۔۔۔
اڑھائی بچے سکول نہ جاتے ہوں۔۔جس ملک میں انصاف بھی نہ ملتاہو وہاں میٹرو بس،اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبے ایسے ہی ہیں جیسے بچے فاقے کررہے ہوںاور گھرکا سربراہ قسطوں پر کارلے آئے۔بلند وبانگ دعوے چھوڑئیے عوام کی حالت اور ملکی حالات بہتربنانے کیلئے کچھ کرگذرئیے گا ۔گے ۔گی نہیں عملی اقدامات۔۔۔لمبے چوڑی باتیں نہ کریں ۔۔۔سبزباغ نہ دکھائیں ۔۔۔اللہ کا نام لے کر مرحلہ وارہی سہی کچھ تو کریں ترجیحات کا تعین کیجئے ایک کے بعد ایک محکمہ ۔۔ ۔ ایک کے بعد ایک ادارہ ماڈل بناکر مثال قائم کردیں ورنہ سب اقدامات ہاتھی کے دانت جیسے ہیں یادرکھیںتاریخ میں زندہ رہنے کیلئے ایک حوالہ ہی کافی ہوتاہے لیکن یہ بات آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ہر اختیاروالا یہ سمجھتاہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ عقل مند ابھی تک کسی ماں نے جنا ہی نہیں حکمرانوں کی بات جھوڑیں ان کی تو دنیا ہی الگ ہے یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی انہیںسمجھ کیونکر آئے گی کہ حکمران سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
تحریر : ایم سرور صدیقی