تحریر: ایم سرور صدیقی
پرانے وقتوں میں بادشاہ جس سے ناراض ہوجاتے ان کو ہاتھی انعام میں دیدیا جاتا غریب اپنے خاندان کی کفالت کرے یا ہاتھی کو پالے انکار اور اظہار دونوں مشکل۔۔نتیجتاً اس کی باں باں ہو جاتی اور رحم ظل ِ الہی۔۔۔ رحم عالم پناہ رحم کی صدائیں لگاتا دربار میں بادشاہ کے قدمو ںمیں بیٹھ کر معافی کی درخواست کرتا اب بادشاہ سلامت کی مرضی وہ کیا ارشاد فرماتے معافی ملتی یا ایک اور ہاتھی عطا کرتے یہ سراسر ان کے موڈپر منحصر ہوتا۔۔ لیکن آج کے دور میں ہمارے حکمرانوں کو ازخود درجنوں سفید ہاتھی پالنے کا شوق ہے۔۔۔بھوک سے بلبلاتی، لوڈ شیڈنگ کی ماری،قیامت خیزمہنگائی کی ستائی قوم کیلئے یہ ستم ظریفی نہیں اشرافیہ کی حفاظت کیلئے نصف لاکھ اہلکار آن ڈیوٹی۔۔۔ہر وقت الرٹ ۔۔اٹین شین۔۔ سینکڑوں گاڑیاں،ہوٹر،موٹرسائیکلیں ۔ ہیوی مینڈیٹ سے بھی ہیوی پروٹو کول۔۔حکمران اس انداز اور شان سے نکلتے ہیں جیسے کشمیر فتح کرلیا ہو تاریخ بتاتی ہے اس کروفکرسے تو شاہ ِ ایران کی سواری بھی نہیں جاتی تھی۔۔
دل کو یقین ہی نہیں آتا یہ پاکستان جیسے غریب ملک کے نمائندے ہیں گذشتہ دنوں اپنے خادم ِ اعلیٰ کسی ہسپتال کے دورے پر گئے تو وہاں کی ا نتظامیہ میاں شہبازشریف کے پروٹوکول میں اس قدر مگن تھی کہ مریضوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا درجنوںایڈمٹ ہی نہیں کئے گئے اخبارات میں تین تصویریں دیکھیں ایک میں بوڑھی عورت مین انٹرس کے قریب کھلے آسمان تلے شدید گرمی میں لاوارثوںکی طرح پڑی ہے۔ دوسری میں میاں بیوی اپنے بیمار بچے کو گودمیں اٹھائے کسی اور ہسپتال لے جارہے ہیں تیسری تصویر میں ایک مریض درد کی شدت سے رورہاہے۔۔۔ اگر مریضوں کے ساتھ ایسا برتائو ہی ہوناہے تو میری میاں شہبازشریف سے ہاتھ جوڑ کرگذارش ہے وہ آئندہ کسی ہسپتال کا دورہ نہ کریں کم از کم مریض اور انکے لواحقین خجل خوار ہونے سے تو بچ جائیںگے اور شاید بروقت علاج بھی ہونے کی امیدہے۔۔۔ کئی ماہ پہلے ایک خبر سن پڑھی آج تک حیران ہوں کہ ہماری حکومت کس انداز میں سفید ہاتھی پال رہی ہے سابق ڈکٹیٹرپرویز مشرف کے غداری کے مقدمہ( کو اب قانون شکنی کا نام دیدیا گیاہے) میں گذشتہ بجٹ میں پونے6کروڑ مختص کئے گئے اس سال بھی خصوصی بجٹ رکھا گیاہے
جس میں خصوصی عدالت کے ججوں اور دیگر عملہ کی تنخواہیں،سرکاری وکلاء کی فیسیں اور دیگر اخراجات شامل ہیںعدالت پیشی والے روزپرویز مشرف کی حفاظت کیلئے 300 پولیس کمانڈراور 100 رینجر اہلکار انکی رہائش گاہ سے عدالت تک کے راستوں میں تعینات کئے جاتے ہیں پرویز مشرف کی ہر طلبی پر وزارت ِ داخلہ کم از کم 10 لاکھ کے اخراجات کرتی ہے اب یہ سابق صدر کی مرضی ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہوں یا نہ ہوں جبکہ ہسپتال میں سیکورٹی پر ماہانہ ایک کروڑ سے زائد الگ خرچ ہورہاہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس مقدمے کے اخراجات 10 کروڑ سے تجاوز کر سکتے ہیں۔۔۔اسی طرح کئی ماہ تک PCCB بار بار برطرف اور چارج سنبھالنے والوںذکاء اشرف اور نجم سیٹھی کے درمیان شٹل کاک بنی رہی۔شنیدہے کہ دونوں چیئرمین تنخواہ اوردیگر بھاری مراعات سے فیض یاب ہوتے رہے صرف نجم سیٹھی بارے 26لاکھ ماہانہ لینے کاانکشاف ہواہے۔۔۔
سابق صدر آصف علی زردار ی کے خلاف کئی سالوں سے ایک درجن کے قریب ریفرنس دائرہیں بیشتر میں ان کی بے گناہی ثابت ہوگئی اس مد میں تین چارحکومتیں اب تلک کروڑوں روپے خرچ کرچکی ہیں مزے کی بات ہے کہ ثابت کچھ بھی نہیں ہوا یہ تو وہی بات ہوئی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔۔ یہ ریفرنس بھی سفید ہاتھی بن کر قوم کیلئے ذہنی اذیت اورقومی خزانے کو کروڑوں روپے نقصان پہچانے کا سبب بن چکا ہے اس کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، اور اسمبلیوں سپیکر،ڈپٹی سپیکرز، وزیر ِ اعظم ، وزیروں، مشیروں کی سیکورٹی پر سالانہ اربوں روپے صرف کئے جارہے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتاہے ایک غریب ملک جس کو غیر ملکی قرضے نہ ملیں تو دیوالیہ ہو جائے اس ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی قرضوںپرہو اسے یہ عیاشی زیب دیتی ہے
قرض کی پیتے تھے اور اس سوچ میں گم تھے
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ایک طرف ہمارا یہ حال ہماری حکومتیں قرض لے کر بھی اترتی پھرتی ہیں۔۔۔اکثروبیشترصدر اور وزیراعظم غیر ملکی دوروں میں مصروف رہتے ہیںشایدانہوںنے حالات سے” فرار ”کا یہ اچھا طریقہ نکالاہے ایک بات فہم و ادرراک سے بالا ترہے ہمارے صدر یا وزیراعظم جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں وہاں کے حالات، عوام کو میسر سہولیات دیکھ کر بھی ان کے دل میں کوئی تڑپ پیدانہیں ہوتی کہ وہ اپنے عوام کیلئے بھی کچھ کریں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں ماہ ِ صیام میں قیامت کی چال چلتی گرمی، گرانفروشوںکے رحم وکرم پر بے بس عوام ،اکثر سرکاری اداروں کے ہڈ حرام اہلکار پھر بھی حکمرانوں میںاگر سفید ہاتھی پالنے کا شوق ختم نہیں ہوتا تو کیا ہم اسے اپنا مقدر سمجھ کر خاموش ہو جائیں؟۔۔
اس وقت صورت ِ حال یہ ہوگئی ہے کہ کسی ایک بھی سرکاری ادارے، محکمے یا دفتر کے متعلق ہمارا کوئی وزیر ِ اعلیٰ، سپیکر،ڈپٹی سپیکرز، وزیر ِ اعظم ، وزیر، مشیر بانگ ِ دہل نہیں کہہ سکتا اس میں کرپٹ اہلکار نہیں ہیں بڑے بڑے ادارے ریلوے، PIA، سٹیل ملز سمیت نہ جانے کتنے سفید ہاتھی شوق سے پالے جارہے ہیں بہتری کی کوئی امید نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے حقیقی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ڈنگ ٹپائو انداز، ڈھیلے ڈھالے اقدامات، کھوکھلے دعوے اورعبوری امداد کرپشن کا سبب بنتی ہے اور کرپٹ افسروں اہلکاروں کی موجیں ہمیشہ پانچوں گھی میں۔۔۔اربوںکی عبوری امداد سے باسی کڑھی میں کچھ دیر ابال آتاہے تو کاریگر چاروں اطراف سے مبارکبادیں دینا شروع کردیتے ہیں چند دن دکھاوے کی تیزی، آنیاں جانیاں پھر چاردن کی چاندنی پھر اندھیری رات کے مصداق توے پراتیں اوندھی۔۔۔حکمرانوں کو بہتری مقصودہوتو فی الفور تمام غیرضروری اخراجات بند کردے۔ جو ادارے سفید ہاتھی بن کر قومی معیشت کو چاٹ رہے ہیں فائدہ مند بنانے کیلئے تمام جزئیات کو مدِ نظررکھ کر حکمت ِ عملی ترتیب دی جائے۔
وزیر ِ اعظم کا خاندان خود کامیاب کاروباری خاندان ہے وہ بہتر منصوبہ بندی سے یقینا بہتری لا سکتے ہیں ماضی میں پاکستان صنعتی اعتبار سے ایک ترقی یافتہ ملک بن کر ابھررہا تھا آج بھی ایساہو سکتاہے معیشت کی بحالی حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اس سے روزگارکے مواقع بڑھیں گے تو خوشحالی در آئے گی سفید ہاتھی قومی معیشت کیلئے پورس کے ہاتھی ثابت ہورہے ہیں۔ حکمران دل سے کوشش کریں تو ایک خوشگوار درخشاں و تاباںنئے مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے
یہ موسم میری بینائی کو تسلیم نہیں
میری آنکھوں کو وہی خواب پرانا لادے۔
تحریر: ایم سرور صدیقی