تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
دہشتگردی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا واقعہ جس میں القائدہ سے تعلق رکھنے والے انیس دہشتگردوں نے امریکا جیسے سپر پاور ملک کے سیکیورٹی اداروں کی پول کھول کر رکھ دی۔ اور ان کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کر دیا یہ خودکش حملہ آور جو ایک نہایت معنظم اور مضبوط پلانینگ کر کے امریکا پر حملہ کرتے ہیں اور سو فیصد کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس حملے کے اثرات اس دنیا کے کونے کونے پر پڑے ۔ کرہ عرض کا شائد ہی کوئ انسان ہو جو کہ امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں متاثر نہ ہوا ہو۔
اس حملے نے امریکا کو برائے راست تین کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا دس ارب ڈالر کی مالیت کی عمارتوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ یہ تو ہوا نقصان امریکا کا۔ مگر اس حملے کے نتیجے میں جس دہشتگردی کی جنگ کا آغاز ہوا اس کے نقصان کا تخمینہ لگاتے لگاتے ہمارے کیلکولیٹر ختم ہو جائے گے۔ صرف ہمارے ملک پاکستان میں 70 ہزار پاکستانیوں نے اس جنگ کے نتیجے میں اپنی جانوں کی قیمت چکائ۔ 160 ارب ڈالر کا ہمارا انفراسٹیکچر اور دیگر نقصان اس کے علاوہ ہ ہے۔ دنیا میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں گئیں ۔انسانی تاریخ میں جانی نقصان کا سب سے بڑا نقصان دوسری جنگ عظیم پر ہوا جس میں سات سے آٹھ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد دنیا پھر متحد ہوئ اور اس اتحاد کو اقوام متحدہ کا نام دیا۔ اس جنگ میں دوست اور دشمن کی تمیز بھی ہو گئ۔ اور دنیا دوسری جنگ عظیم کے محض 15 سال میں کہاں سے کہاں پہنچ گی۔
یورپ میں صعنتوں کا جال بچھ گیا۔ زخمی جاپان بھی امریکیوں کے زیر سایہ سب کچھ بھول کر آگے بڑھ گیا۔ مگر یہ دہشتگردی کی جنگ جس کا باقائدہ آغاز 11 سپتمبر کو ہوا اس کے اختتام کا دور دور تک پتا نہی ہے۔ اقوام عالم کے درمیان جنگوں میں حیا بھی ہوتی تھی اور شرم بھی۔ ان جنگوں کے اصول بھی تھے۔ ان جنگوں کے درمیان ہسپتالوں پر حملے نہی ہوا کرتے تھے۔ بلکہ رڈ کراس کا ادارہ جنگ کے درمیان جب اپنا کام کرتا تھا تو ان کے نشان اور یونیفارم دیکھ کر ان کا احترام کیا جاتا تھا کہ یہ دونوں فریقوں کی زخمیوں کو طبئ امداد پہنچاتے تھے۔ مگر اب تو نہ مندر محفوظ اور نہ ہی مسجدیں اور چرچ محفوظ ہیں۔
آج اس دہشتگردی کی جنگ کو 15 سال گزرنے کے باوجود بھی یہ معلوم نہی ہو سکا کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ایک اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لئے لاکھوں لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا آج ایک کیا بےشمار اسامہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ارے بھائ وہ اسامہ ہی اچھا تھا کم از کم ہمارے پاس اسکی تصویر تو تھی۔ اب تو پتہ ہی نہی چلتا کہ ٹرین میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص ہی کلہاڑی اور چاقو کے وار سے آپ کو زخمی کر دے۔ آج کے دشمن سُلیمانی ٹوپی پہن کر گھوم رہے ہیں۔ یہ کسی کے ہاتھ نہی آتے اگر آتے بھی ہیں تو ان کے پھٹے کٹے جسم۔ اس جنگ نے اقتصادی طور پر بہت سے ممالک کی کمر توڑ دی ہے۔ اور اس کی تباہی ابھی ختم نہی ہوئ ہے بلکہ مستقبل قریب میں کہیں ختم ہوتی نظر نہی آ رہی ہے۔ اس جنگ نے یوروپیئن یونین میں بھی دراڑ ڈال دی ہے۔
2001 ہی وہ آخری سال تھا جس کے بعد یوروپیئن کرنسی ایک ہو گئ تھی۔ ہم نیدرلینڈ میں گلڈر دے کر یورو وصول کر رہے تھے۔ مجھے آج بھی 11 سپتمبر کا دن یاد ہے کہ اسی دن ہمارے ایک بھائ ایگبرٹ الیاس نے گھر شفٹ کرنا تھا۔ میں مایئکل اور کچھ دوست ایگبرٹ بھائ کا سامان شفٹ کروا کر واپس فریزلینڈ آ رہے تھے شائد سپہر کے تین یا چار ہونگے جب مائیکل کو فون آیا کہ امریکا پر کسی نے حملہ کر دیا ہے۔ گاڑی ایک مقامی ڈچ دوست چلا رہا تھا۔ اس نے ریڈیو آن کیا تو اسے بھی سمجھ نہی آئ کہ ہوا کیا ہے۔ پھر ہم گھر پہنچے میری فیملی پاکستان میں تھی میں اکیلا تھا۔ میں نے گھر آ کر ٹی وی آن کیا اپنے بیڈ روم سے اپنا میٹرس (گدا) اٹھا کر سٹینگ روم میں شفٹ کیا اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں تین دن رات اپنے سیٹینگ روم میں رہا اور میرا ٹی وی بند نہی ہوا۔
میں صرف کھانے پینے اور رفع حاجت کے لئے اپنا سیٹینگ روم چھوڑتا تھا۔ اس دوران مقامی اور پاکستانی دوست بھی آتے تھے تو ان کو اپنی چایے اور کافی خود ہی بنانا پڑتی تھی۔ ہاں ایک بات پر مقامی ڈچ دوستوں سے بحث ہوتی تھی کہ ان کا خیال تھا کہ امریکا اس کے زمہ داروں کو عبرت کا نشان بنا دے گا اور پھر کوئ ہمت نہی کرے گا۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ جو میں کہتا تھا وہ بعد میں سچ ہوا کہ یہ جنگ اتنی آسانی سے ختم نہی ہوگی۔ میں یہ بھی کہتا تھا کہ جو امریکا میں اتنا بڑا حملہ کر سکتے ہیں جو کہ سپُرپاور ہے تو یورپ کو تو یہ زیادہ نقصان پہنچائے گے۔ اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اس جنگ کی بہت بڑی قیمت چُکا رہا ہے۔ دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان نے بڑے بڑے دہشتگرد گرفتار کئے۔
اگر یہ گرفتار نہ ہوتے تو دنیا کا زیادہ نقصان ہوتا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس وقت دنیا ایک بار پھر رنگ، نسل، مزہب اور قومیت میں اسی طرح تقسیم ہو رہی ہے جیسے کہ آج سے ہزار سے پندرا سو سال پہلے تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اگر اس تفریق کے درمیان جنگ ہوتی تھی تو وہ جنگیں تلواروں اور نیزوں سے لڑی جاتی تھیں مگر آج اگر اس تفریق کے درمیان جنگ ہوئ تو بائلیوجیکل، کمیکل اور نیوکلر ہتھیار استمال ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں جانی نقصان کروڑوں سے تجاوز کر سکتا ہے۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بہت بڑا نقصان ہے جس کے لئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے رویئوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ اور اپنے علاوہ دوسروں کو برداشت کرنا ہوگا، اب ہمیں انفرادی طور پر اس تفریق کے درمیان ہونے والے فاصلے کو کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور یہ تب ہو گا جب ہم رنگ ، نسل، مزہب اور قومیت کو اپنی زات میں قید کر کے دوسرے کی جانب محبت کا ہاتھ بڑھاہیں۔ ورنہ تو خدا ہی حافظ ہے۔
تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم