تحریر : ڈاکٹر پیر سید علی عباس شاہ
ہجرت ِمدینہ کے بعد سرکار دوعالم نے جناب ابو ایوب خالد بن زید انصاری کے خانہ ٔ اقدس میں قیام فرمایا اور اُن کی حد درجہ مہمان نوازی اور عقیدت و مودَّت کے باعث بیشتر مقامات پہ آپ کو نمناک آنکھوں سے دعا دی کہ ابو ایوب! اللہ تمہاری اولاد میں برکت دے یہی میزبان ِرسالت بعد از وصال نبوی ۖوصی ِمصطفٰی ۖسیدنا علی مرتضٰی کے جانثار وسپہ سالار بنے ۔خوارج کے ساتھ لڑی جانے والی گھمسان کی جنگ ِ نہروا ن میں سلطان ِولایت نے آپ کو کمانڈر نامزد کرتے اپنا معروف پرچم رَأیَةُ الْاِیْمَان عطا فرمایا ۔حضرت ابو ایوب انصاری کی اولاد بھی آپ کی سیرت پہ گامزن رہی اور وقتاً فوقتاً آپ کی اولاد میں اولیاء اللہ ،صوفیا وعرفا اور صالحین امت مسلمہ کی رہنمائی اور اصلاح ِاحوال کر تے رہے ہیں جن میں پیر ہرات خواجہ عبداللہ انصاری (٤مئی١٠٠٦تا١٠٨٨ئ)اور پیر روشن خواجہ بایزید انصاری کے نام نمایاں ہیں ۔خواجہ عبداللہ انصاری حضرت ابوایوب انصاری کی آٹھویں پشت اور خواجہ بایزید انصاری میزبان ِرسول کی اکیسویں پشت میں آتے ہیں ۔یہ دونوں ہستیاں جہاں روحانیت اور تصوف میں نمایاں ہیں وہیں علم وادب میں بھی منفرد مقام کی حامل ہیں۔
ابتدائی حالات ونسب نامہ
سراج الدین خواجہ بایزید انصاری(٩٣١ھ تا ٩٨٠ھ ) شیخ شہاب الدین سہردوری کے خلیفہ اور سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے پیر طریقت سلطان ابراہیم دانشمند (مزار ڈھاکہ بنگال) کی اولاد میں سے تھے جو بغرض ِتبلیغ ِدین عراق سے ہندوستان آئے اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کے مہمان رہے ۔آپ شیخ ابراہیم دانشمند کی نسل میں آٹھویں پشت میں آتے ہیں ۔آپ کے داداشیخ محمد اور ناناشیخ محمد امین سگے بھائی تھے ۔شیخ محمد کے بیٹے شیخ عبداللہ قاضی اور شیخ امین کی بیٹی امینہ کے عقد سے ٩٣١ ھ ،١٥٢٤ء میں جالندھر پنجاب میں بایزید انصاری کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے برادر ِخورد شیخ محمد یعقوب تھے ۔علی محمد مخلص بن ابی بکر قندہاری نے حالنامہ میں آپ کا نسب نامہ یوں لکھا ہے ؛ ” بایزید بن عبداللہ القاضی بن الشیخ محمد بن الشیخ بایزید المعروف باباشہبازبن شیخ سراج الدین بن چراغ الدین بن شیخ ابراہیم دانشمند بن شیخ زادہ حمزہ بن خواجہ محمود بن شیخ دائود بن شیخ شمس الدین بن شیخ خلیل بن شیخ لقمان بن شیخ خداداد بن شیخ منصور بن شیخ محمد بن خواجہ زید احمد الانصاری بن شیخ منصور محمد بن شیخ احمد بن شیخ زادہ بن خواجہ ابی ایوب الانصاری ”چھ سال کی عمر میں مغل حکمرانوں کے نامناسب رویے اور ظالمانہ اقدام کے باعث آپ نے اپنے خاندان کے ہمراہ جالندھر سے پختونخواہ ہجرت کی ۔آپ کا گھرانہ مذہبی وروحانی حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔
ازدواج واولاد
خواجہ بایزید انصاری نے اپنے چچا شیخ حسن کی صاحبزادی شمسہ بی بی سے عقد کیا جن سے آپ کے پانچ بیٹے شیخ عمر ،شیخ کمال الدین ،شیخ نور الدین ،شیخ خیر الدین اور شیخ جلال الدین اور ایک بیٹی کمال خاتون زوجہ علی خان مہمند زئی کی ولادت ہوئی ۔(دریائے سندھ کے کنارے یوسف زئی ،دلازاک اور کافر آباد قبائل کے مشترکہ لشکر سے جنگ لڑتے شیخ عمر ،شیخ خیر الدین ، شیخ نور الدین اور دیگر جانثار ساتھی قتل ہو گئے ۔شیخ کمال الدین کو تیراہ میں مار دیا گیا ۔سب سے چھوٹے پندرہ سالہ شیخ جلال الدین دریائے سندھ میں کود کر زخمی حالت میں جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے معتقدین تک پہنچ گئے ۔انہوں نے ہی بعد ازاں روشنیہ تحریک کی قیادت سنبھالی اوربایزید کی درگاہ کے مسند نشیں ہو کر پیر جلالہ کے نام سے معروف ہوئے ۔افغانستان کا شہر جلال آباد آپ ہی کے نام سے موسوم ہے ۔ آپ ہی نے اپنے والد کا تابوت تیراہ لا کر نہایت عزت واحترام سے بھت پور میں شیخ کمال الدین کی قبر کے پاس دفن کیا ۔آپ کے بعد آپ کے داماد شیخ احدداد جو اُن کے بڑے بھائی شیخ عمر کے بیٹے تھے گدی نشین ہوئے )۔ بایزید نے تورے ادی نامی خاتون سے عقد ِثانی کیا جن سے شیخ دولت انصاری کی ولادت ہوئی ۔دنی نامی خاتون سے عقد ِثالث ہوا جن سے شیخ اللہ داد انصاری کی ولادت ہوئی۔
سیر وسلوک
خواجہ بایزید انصاری پیدائشی طور پہ فلسفیانہ سوچ اور مفکر انہ ذہن رکھتے تھے جو بعد ازاں اجتہادکے روپ میں سامنے آیا اولیاء اللہ ،فقرا اور درویشوں سے محبت اور عقیدت رکھتے تھے اوائل ِحیات ہی میں اوراد ووظائف کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔شب بیدار عابد تھے ۔محافل ِسماع میں شرکت کرتے جس سے وجد طاری ہو جاتا ۔آپ کی روح میں ازلی سرمستی کی ترنگ ودیعت ہوئی تھی تو دل میں اسلام سے والہانہ محبت اور اہل ِاسلام سے ہمدردی فطری وموروثی تقاضا تھا ۔ بایزید انصاری نے مروجہ اقدار کے برعکس طریقت اورسیر وسلوک کی راہ اپنائی جس باعث علمائے وقت اور مفتیان ِدین نے آپ کی تعلیمات اور افکار کی شدید مخالفت کی ۔آپ نے تصوف کے تن ِمردہ میں نئی روح پھونک کر پیروں اور مریدوں کو راہبانہ زندگی کے خلاف متحرک مجاہدانہ زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دی ۔شدید مخالفت کے باوجود آپ کا حلقہ ارادت بڑھتا چلا گیا اور پشتون وافغان قوم کی بڑی تعداد آپ کے نظریات ِوحدت الوجود اور ہمہ اوست کی قائل ہو کر آپ کی معتقد ہوئی ۔آپ فرماتے کہ ہیں آپ نے خواب میں حضرت خضر عَلَیْہِ الْسَّلاَمْ کی زیارت کی جنہوں نے آپ کو بیعت لے کر رموز ِطریقت سے آشنا کیا ۔آپ نے روحانیت کے آٹھ مدارج شریعت ،طریقت ،حقیقت ،معرفت ،قربت ،وصلت ،وحدت اور سکونت کے اسرارومعانی کے مفاہیم میں کمال حاصل کیا ۔تکمیل ِسلوک کے بعد آپ نے خیبر واورکزئی ایجنسی کے سنگم پہ واقع تیراہ کے گائوں مستورہ میں آستانہ آباد کر کے فیضان ِطریقت عام کرنا شروع کیا ۔افغان آپ کے معتقد اور مرید ہوئے ۔جو ایک دفعہ آپ کی صورت دیکھ لیتا گرویدہ ہو جاتا ۔ آپ عمومی طور پہ پیر ِروشن (پختونوں میں روخان) کے نام سے معروف ہیں اور قدیم پنجابی وہندکو ادب میں وجید کے نام سے یاد کیے گئے ہیں۔
نقش ِخاتم
آپ کی مہر پہ ” سُبْحَانَ الْمُلْکَ الْبَارْ، جُدَاکَرْدعَالَم ِنُوْرْ زِنَارْ، بَایزیْداَنْصَارْ ”اور ” بَایزیْد مِسْکِیْن ، ھَادِْ اَلْمُضِلِّیْن ”نقش تھا ۔ذوق ِسماع دیگر اہل اللہ کی مانند خواجہ بایزید انصاری بھی سماع کا ذوق رکھتے تھے ۔آپ فرماتے ہیں ، ” اَلْسَّمَاعُ عَلیٰ ثَلاَثَةِاَنْوَاعْ حَرَاموَمُبَاحوَحَلاَل، مَنْ سَمِعَ الْصَّوْتُ مِنْ شٍَٔ بمُحَبَّةِالْدُّنْیَاسَمِعَ حَرَاماًوَمَنْ سَمِعَ الْصَّوْتُ بمَحَبَّةِالْجَنَّةْ فَقَدْ سَمِعُ مُبَاحاًوَمَنْ سَمِعَ الْصَّوْتُ بمَحَبَّةِاللّٰہْ فَقَدْسَمِعَ حَلاَلاً”، ”سماع تین اقسام میں حرام مباح اور حلال ہے ۔جن سے صوت ِسماع دنیا کی محبت میں سنی حرام سنا ،جس نے صوت ِسماع جنت کی محبت میں سنی مباح ہے ،جس نے صوت ِسماع اللہ کی محبت میں سنی پس حلال سنا ۔”آپ کے عقیدت مند علی محمد مخلص جو بذات ِخود پشتو تاریخ وادب میں نمایاں مقام کے حامل ہیں اس ذوق ِسلیم سے متعلق رقمطراز ہیں ؛ ”پیر روشن کے جو احسانات پشتو ادب پر ہیں اس سے زیادہ افغان موسیقی پر ہیں ۔پیر بایزید اور ان کے مریدوں نے اس علاقے کی موسیقی کے فروغ میں بڑا حصہ لیا ۔حق تعالیٰ نے دو خزانے افغانوں سے پوشیدہ رکھے تھے ۔دو اشخاص کے طفیل وہ دونوں خزانے افغانوں پہ ظاہر کیے ۔ایک خزانہ جو ظاہر کیا گیا وہ علم ِتوحید کا ہے جو افغانوں سے پوشیدہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے پیر ِروشن کے ذریعے ظاہر کیا ۔دوسرا خزانہ علم ِموسیقی کا ہے جو حاجی محمد خلیفہ فضل اللہ ولی مرید پیر روشن کے طفیل افغانوں پہ ظاہر ہوا۔اس لیے کہ افغان پہلے غنچگیں (ساز)پہ اکتارہ بجاتے تھے اور پانچ تار کے رباب یعنی سرمدہ (سازندہ)پر دوتار بجاتے تھے اور اسے دوتار کہتے تھے ۔حاجی محمد کی تعلیم کے باعث ان کے سازندوں نے کئی کئی تار سازوں میں ڈالے اور نئے نئے نغمے نکالے لیکن وہ اکثر غیر ملائم نغمے بجاتے تھے ۔جب یہ سازندے پیر دستگیر (پیر روشن )کی خدمت میں پہنچے تو پیر دستگیر کی صحبت وبرکت کے باعث ملائم نغمے بجانے لگے اور چھ نغمے ایجاد کیے ۔ایک ناصری ،دوسرے پنج پردہ، تیسرے چار پردہ ،چوتھے تین پردہ ،پانچویں پردۂ جنگ جو جنگ کے وقت بجاتے ہیں ۔چھٹے مقام شہادت اور اس نغمہ میں بہت سے نغمے اور بند گائے جاتے ہیں ۔علاوہ ازیں اس سے پیشتر افغان شاعری میں شعردو تین قسم سے زیادہ نہ تھے ۔پیر دستگیر نے افغانی زبان میں قصیدے ،غزلیں ،رباعیات ،قطعے اور مثنویاں ایجاد کیں ۔پیر دستگیر کے باعث ان کے فرزندوں اور مریدوں نے دیوان مرتب کیے۔ ”
روشنیہ تحریک
بایزید انصاری جہاں علم وادب اور طریقت میں یکتا تھے وہیں متغیر حالات کے باعث آپ کو اکبر اعظم سے ٹکر لینا پڑی اور تاریخ ِافغانستان میں ”روخانی تحریک ” (روشنیہ موومنٹ)نمایاں ہے جس نے ایک عرصہ تک مغل سلطنت کو لرزہ براندام رکھا ۔اس تحریک سے صوفیانہ شاعری اور پختونوں کے قومی استقلال کو ترقی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے پشتو نظم و نثرکے تقلیدی اورتخلیقی ادبیات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔روخانیہ تحریک کے متعلق معروف جرمن دانشور این میری شیمل اپنی کتاب Mystical Dimensions of Islamمیں لکھتی ہیں ؛ ”برصغیر کے ہمسایہ علاقوں میں بھی لوگوں نے صوفیانہ ادب کو اپنی زبانوں میں شامل کیا تھا ۔پشتو صوفی ادب کا سب سے اہم دور اورنگ زیب کے زمانے کا ہے ۔سندھی اور پنجابی صوفیانہ
شاعری سے قدرے پہلے ایک اور صوفیانہ تحریک جو اکبر اور ہمایوں کے دور میں اٹھی تھی روخانیوں کی تحریک تھی ۔اس تحریک کے قائد کا نام بایزید انصاری یا پیر روخان متوفی (١٥٨٥ئ) تھا ۔یہ پہلے شخص ہیں جس نے فارسی تصوف کو اپنی مادری زبان پشتو میں منتقل کیا ان کی کتاب ”خیر البیان ”مسجع نثر میں ہے جو پشتو صوفیانہ ادب میں پہلی مکمل کوشش ہیں لیکن یہ صوفیانہ افکار اخوند درویزہ باباکی مخالفت کا شکار ہوئے۔ ” علم وادب کے متلاشی اور سیر وسلوک کے راہی کو ایک ایسی جنگ میں دھکیلا گیا جس کا نتیجہ اُن کے مدبر سیاستدان اور ماہر جرنیل ہونے کی صورت میں نکلا ۔اپنوں بیگانوں کی مخالفت او ر تیغ وتبر کا مقابلہ کرنے والے پیر روشن خواجہ بایزید انصاری پختونوںمیں پہلے ”صاحب ِسیف وقلم ”ہیں جن کے نقوش ِپا کو خوشحال خان خٹک نے اپنایا ۔ملی سوزودرد کے ساتھ کامل سماجی شعور ومتانت رکھنے والے بایزید انصاری اپنے عہد کے تمام نامناسب سیاسی ،ادبی اور فکری رویوں سے منحرف اور ان کے خلاف برسرپیکار رہے۔ معاشرتی ناسوروں سے نبرد آزما رہنے والے بایزید انصاری کی روخانی تحریک نے پختونوں کو فکری ،سیاسی اور ادبی اسا س فراہم کرتے دوررس انقلابی اثرات مرتب کیے۔
بحیثیت ادیب
جید عالم اور صاحب ِطریقت ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ پیر روشن ماہر لسانیات ،ادیب اور شاعر بھی تھے ۔آپ کی معرکة الآرا کتب میں خیر البیان (جو عربی ،پشتو،فارسی اور ہندی زبان میں لکھی گئی) ، صراط التوحید ،فرحت المجتبیٰ ،مقصود المومنین ،فخر الطالبین، حالنامہ،رسالہ علم ،مکتوبات اور رسم الخط پشتو آفاقی شہرت رکھتی ہیں۔آپ نے پشتو زبان کے رسم الخط کے لیے موزوں حروف وضع کیے ۔ممتاز محقق رضا ہمدانی ،ادبیات ِسرحد میں رقمطراز ہیں ؛
”پیر روخان بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے ۔ادب ،فلسفہ ،تبلیغ وارشاد اور قومیت سب میں ماہر تھے ۔اگرچہ پیر روخان زندگی کے تمام شعبوں میں کامل دسترس رکھتے تھے لیکن ان کی ادبی
زندگی بہت نمایاں تھی درحقیقت پشتو ادب کی ترقی کا باعث پیر روخان تھے ۔آپ نے نثر کے ذریعے پشتو ادب کی بہت بڑی خدمت کی اور ایک نئے مکتب ِفکر کی بنیاد رکھی۔اُن کی تصانیف میں
”خیر البیان ”بڑی مشہور کتاب ہے ۔یہ کتاب پیر روخان نے چار زبانوں پشتو ،فارسی ،عربی اور ہندی میں لکھی ۔یہ کتاب شریعت ،طریقت اور دینی مسائل سے متعلق ہے۔ ”
آپ نے وسیع تر لسانی وادبی مکتب قائم کیا جس کے پیروکار عربی ،فارسی اور ہندی زبانوں پر کامل عبور رکھتے تھے اور اِن زبانوں میں خامہ فرسائی کرتے رہے کہ اُن کا پیغام پختون علاقوں کے علاوہ ہندوستان اور اس خطے کی دیگر اقوام تک پہنچ سکے ۔ان لوگوں نے عرفان وعالم ِلاہوت کی اصطلاحات پشتو زبان میں سموئیں اور تصوف کے ادق مسائل وحدة الوجود،وحدة الشہود اور تصوف کی روحانی لذات الہام ،ماورائے مادہ ،فلسفہ اور مابعد الطبیعات پہ اشعار کہے اور ان اصطلاحات کا استعمال اپنی غزلوں ،قصائد اور اشعار کا حصہ بنایا ۔ متقدمین کے برعکس تشبیہ ،استعارہ اور شاعرانہ تلازموں سے ہٹ کر اپنے اشعار کو صنائع و بدائع سے مزین کیا ۔بدیع اور بیان کے فنون کی مراعات پشتو زبان میں پہلی بار استعمال کیں ۔ بایزید اور آپ کے ارادتمند پختونخواہ ،ہندوستان ،ماورا النہر ،افغانستان اور ایران کو ایک ملی وحدت میں پرونا چاہتے تھے جس کے لیے مکتب ِروخانی نے متوازن اور ہم آہنگ اقدامات کیے ۔آپ کا بڑھتا ہو اثر ورسوخ مغل ایوانوں کو خطرہ محسوس ہو ااور نوبت خونریز جنگوں تک جا پہنچی جس کا دورانیہ سو سال پہ محیط ہے ۔جنگی میدانوں کے ساتھ ساتھ مغل حکمرانی نے زر خرید علماکی مدد سے اس تحریک ومکتب کی بھرپور مخالفت کی اور ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچانے کی تگ ودو میں مصروف ِعمل رہے ۔امپیریل گزیٹیئرآف انڈیا جلد ٢٣صفحہ٣٨٩کے مطابق؛
Besides his reputation as a revolutionary, Pir Roshan invented Pushto script thus ensuring the emergence of Pashto literature and writing. Pir Roshan realized that Pashto could not be written in Arabic script owing to some of its sounds. He invented 13 characters to represent those sounds, thus making written Pashto a reality. Some of these characters patched up vocal differences between the hard and soft dialects of Pashto as well. Pir Roshan’s contribution to Pashto nationalism and Pashto language has been neglected, possibly because: first, he was from the small—but influential—tribe of Baraki, whose mother tongue was Ormuri (a Western Persian language) not Pashto and whose lineage was attributed via his Baraki roots to the Kurdistan region and could not supposedly be traced to one of the Pashtun confederations, although rumor has it[clarification needed] that the Barakzai (sons of Barak) are originally “Baraki”, and secondly his “Roshaniya” movement was militarily crushed over and over although his ideas spread beyond the Pukhtunkhwa region. The victors in a concerted effort demonized the man and his movement as being a “secret cult,” and in the minds of many this character assassination stuck. Pir Roshan, however, is credited with writing the first book in Pashto language; Khair-ul-Bayan and thus sowing the seed of Pashto literature. The book was thought to be lost till recently when an original hand written Persian manuscript was found, preserved in the university of Tübingen, Germany. This reached London through the courtesy of Norwegian professor Margestierne, who delivered it to Sir Denison Ross, then the Director of London School of Oriental and African Studies. Moulana Abdul Qaadir of Pashto Academy-Peshawar, obtained it from there and published the Pashto edition in 1987. Khairul-Bayan was written in four languages – Pashto, Persian, Arabic, and Hindi by the author himself and is considered the first book on Pashto prose. However this Pashto book is not in author’s words but a Pashto Academy translation of his original Persian manuscript. He wrote nearly a dozen books, although less than half of these have survived to modern days, mostly in private and family libraries. His works include, “Khayr al-Bayan”, “Maksud al- Muminin”, “Surat-i Tawhid”, “Fakhr”, “Hal-Nama” “Maksud al- Muminin”, “Surat-i Tawhid”, “Fakhr”, “Hal-Nama” quiet meditation, known as Khilwat.
Tirah – Imperial Gazetteer of India, v. 23, p. 389.
بحیثیت شاعر
بایزید انصاری متحرک رہنے کے باعث شاعری پہ خاص زور نہ دے سکے مگر اس کے باوجود آپ نے اپنے خیالات واحساسات اشعار میں پروئے ہیں ۔پشتو شاعری میں مسکین اورپنجابی وہندکو شاعری میں وجیدمتخلص تھے ۔آپ کی پنجابی شاعری کو اونکار ناتھ نے ترتیب دے کر” وجید دے شلوک ”کے نام سے شائع کیا ۔خواجہ بایزید نے اپنی بعض نظموں اور اشعار میں ان راگوں کی نشاندہی کی ہے جن میں شاعر ی کو موزوں کر کے گایا جاسکتا ہے ۔آپ نے اپنے اشعار راگ تلنگ کافی ،راگ بلاول ،چھند وغیرہ میں موزوں کیے ہیں۔ آپ کی شعری اسا س پہ پشتو زبان کے نامور شعرانے کام کیا ۔پشتو شعر وادب کا ابتدائی دور بایزید انصاری پیر روخان سے شروع ہوا جن کے افکار سے پیوست مریدین وخلفا نے اسے آگے بڑھایا ۔آپ نے اپنے اشعار میں اہلبیت ِاطہار اور خاندان ِزہرا پاک کا متعدد مقامات پہ ذکر کیاہے ۔فرماتے ہیں ؛ ”پہاڑیوں کے درمیان انہوں نے مکہ بسایا جہاں گرمی سے زمین بھٹ کی طرح تپتی اور جھاڑیاں خشک ہو جاتی ہیں ۔کاشی میں باریابی کی تمنا دلوں میں جگائی ،گنگا کو نیلاہٹیں دیں ۔ اے وجید !کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” ”حسن اور حسین رسول پاک ۖکے نواسے تھے اور فاطمہ اور علی کے فرزند تھے جنہیں ان ہی کی امت کے ہاتھوں شہید کرایا ۔ اے وجید کون اللہ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ””وہ خود نبی تھے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ۔وہ نبیوں کے سردار تھے اور اللہ کے رسول ۔حیرت ہے کہ امت کے لوگوں کے بیٹے جئیں اور رسول کے بیٹے مر جائیں ۔ اے وجید ! کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” ”ایک وہ لوگ ہیں جن کے گھر بیٹے اور بیٹوں کے گھر پوترے پیدا ہوتے ہیں۔
بعض کے گھر بیٹیاں اور بیٹیوں کے ہاں نواسیاں پیدا ہوئیں ۔ ایک وہ ہیں جن کے ہاں صرف ایک پیدا ہو اور وہ بھی مر جائے ۔اے وجید !کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔” ”گھی شکر اور میدے کے ملیدے تو کتوں کو نصیب ہوں اور جن کا دودھ پیا جاتا ہے وہ بھوکے مریں ،بِکیں ،اُن سے کھیتوں میں ہل چلائے جائیں اور پھر انہیں باندھ کر لے جایا جائے ۔اے وجید کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” ”چور چوری کرنے جائیں اور لوگوں کے گھر لوٹ لائیں اور پھر دودھ بالائی اور ملیدے بنا کر کھائیں ۔جو تیری آ س پہ رہتے ہیں وہ بھوکے مرتے ہیں ۔ اے وجید!کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” ”ایک وہ ہیں جن کے پاس دہن دولت ہے اور وہ صاحب سرکار کہلاتے ہیں ۔وہ خاصہ مخمل جیسے ریشمی پیرہن پہنتے ہیں ۔ایک وہ ہیں جنہیں دربدر پھرنے کے باوجود بھیک نہیں ملتی ۔ اے وجید!کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” کابل میں ناقابل لوگ میوے کھاتے ہیں ،گرما گرم خوراک کھاتے اور نرم لباس پہنتے ہیں ۔دکن میں ہنرور بھوک کے ہاتھوں مر رہے ہیں ۔ اے وجید !کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” بے وقوف کو ہاتھی گھوڑوں کی سواری میسر ہے ۔پنڈت ،پیر ،پیارے نے دھن جمع کر لیا ہے ۔ہنر مند اور باسلیقہ لوگ جاہلوں کے گھر جا کر مزدوری کر کے پیٹ پالتے ہیں ۔ اے وجید !کون اللہ تعالیٰ سے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” طوائفوں اور بھانڈوں پر مال وزر لٹایا جاتا ہے ،بیل تو بوجھ اٹھائیں اور گدھوں کو عمدہ خوراک ملے ۔برہمن اور سید دربدر پھرتے ہیں۔ اے وجید!کون اللہ تعالیٰ سے یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرو۔ ” ”غرور نہ کرو ،اترائو مت ،خوش فہمی میں مت رہو ،جوان مر جائو گے ۔دولت اور جوبن بے بنیاد چیزیں ہیں آخر پچھتائو گے ۔جس طرح کانچ کی چوڑی ویسا ہی تیرا بدن عارضی اورکچاہے ۔ اے وجید!صرف اللہ کا نام باقی رہے گا۔
باقی سب کچھ خاک اور گندگی کا ڈھیر ہے۔ ”ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؛ ”پہلا علم توحید ہے ،جس کا سیکھنا مسلمانوں پہ واجب ہے ،جو مسلمان توحید کی حقیقت سے بے خبر ہوں،تو وہ توحید سے متعلقہ حقائق کا جواب نہیں دے سکتے ،پہلی پرسش توحید کی ہو گی ،تا کہ موحد اس کا جواب دے سکے ،دانا لوگ وہی ہیں ،جو دین کا علم سیکھتے ہوں ،وہ لوگ اپنا مقصود پائیں گے ،جو اخلاص سے علم پر عمل کریں گے ،یہ با ت مسکین (بایزید )کی کہی ہوئی ہے ،لوگوں کو چاہئے کہ اسے غور سے سنیں۔ ”وفات کابل کے مغل گورنر محسن خان کے لشکر کے ساتھ چورے کے مقام پر خونریز جنگ میں بایزید کے مریدوںنے مغل فوج کو شکست دے دی ۔فتح کے بعد خواجہ بایزید نے اپنے عقیدت مندوں کے ہمراہ ننگرہار پہ حملہ کیا اور بڑو نامی گائوں میں اپنا دفاعی مرکز قائم کیا ۔مغل فوج منظم ہو کر شنواری قبیلہ کے علاقہ توراغہ میں لشکر ِبایزید پہ حملہ آور ہوئی جس میں انہیں شکست ہوئی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑا ۔بایزید کا لشکر منتشر ہو کر کلپانی مردان پہنچا ۔راستے کی شدید گرمی ،بھوک پیاس اور شدت ِحالات کے باعث اڑتالیس سال تک علم وعرفان کی ضیاپاشی فرما کر ٩٨٠ھ مطابق ١٥٧٢ء بایزید انصاری کا آفتاب ِحیات عدم میں غروب ہو گیا ۔پشتو زبان وادب کے محسن ِاعظم اور افغان وپختون قوم کے تابندہ ستارے کے احوال وآثار افسوسناک حد تک پردئہ اخفا میں ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر پیر سید علی عباس شاہ
سجادہ نشین آستانہ عالیہ کندھانوالہ شریف ضلع منڈی بہا الدین
darbarshareef@gmail.com