پٹنہ (ریحان غنی) امارت شرعیہ باوقار ادارہ ہے۔ یہ کہنا کہ اس نے اپنا وقار کھو دیا ہے ‘ غلط ہے۔ ہاں اس میں کچھ کمزوریاںدر آئی ہیں جو دور کی جائیں گی۔ امارت شرعیہ نے رانچی اور پورنیہ میں ہاسٹل کے ساتھ 2 اسکول کھولنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ یہ باتیں امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نے العزیز اپارٹمنٹ میں ایک انٹرویو دیتے میں کہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے امارت شرعیہ فکر مند ہے اور وہ اس سلسلے کو روکنے کے کی کوشش کرے گی۔ یہ حالات انتہائی خطرناک ہیں ۔ موجودہ حکومت یہ کام اس لئے کررہی ہے کہ تاکہ ملک کی بقیہ آبادی میں یہ پیغام جا ئے کہ دہشت گردی کی جتنی قسمیں ہیں ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ میری قیام گاہ پر وزیر اعلیٰ کے تشریف لانے کا مقصد ”پرسنل ٹچ” دینا اور امیر شریعت بننے پر مجھے مبارکباد دینا تھا۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اجتماعی زندگی کا شعور پیدا کریں اور جس شعبہ سے بھی وابستہ ہوں پوری محنت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کریں۔اس موقع پر سلمان غنی ‘ شیث احمد ‘ انظار احمد صادق اور ضیاء الحسن موجود تھے۔ امیر شریعت سے تفصیلی انٹرویو کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیں۔
٭کئی بڑے اداروں سے آپ سرگرمی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مونگیر کی خانقاہ رحمانی کے آپ سجادہ نشیں ہیں۔ جامعہ رحمانیہ کے سرپرست ہیں ۔ رحمانی 30 بھی آپ کی فعال قیادت میں چل رہا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آپ کارگذار جنرل سکریٹری ہیں ۔ ممبئی سے آپ کی نگرانی میں انگریزی میں ایک بہت معیاری رسالہ ”اسلامی تجارہ” بھی شائع ہورہا ہے۔ اب آپ پر ایک بڑی ذمہ داری امیر شریعت کی بھی آگئی ہے۔ اتنے سارے کاموں کے لیے آپ وقت کیسے نکال لیتے ہیں ؟
ولی رحمانی : کاموں میں ربط قائم رکھتا ہوں ۔اللہ کے فضل سے سارے کام انجام پارہے ہیں ۔ ان کاموں میں غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ اگر وقت کا صحیح مصرف لیا جا ئے تو جو جتنا مصروف ہو وہ اتنا وقت کاموں کے لئے نکال سکتا ہے اور شاید نیک نیتی کی وجہ سے یہ سب کام ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمارے سب کام اللہ کے فضل سے انجام پارہے ہیں ۔
٭آپ سے قبل امیر شریعت کا انتخاب امارت شرعیہ کے صدر دفتر پھلواری شریف میں ہی ہوا تھا۔ اس مرتبہ پٹنہ سے کافی دور ارریہ میں امارت شرعیہ کا اجلاس ہوا او رمجلس ارباب حل و عقد کی میٹنگ ہوئی جس میں آپ امیر شریعت منتخب کیے گئے۔ اس کے لئے ارریہ شہر کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
ولی رحمانی : پہلی بات تو یہ ہے کہ ارباب حل و عقد کے ذریعہ انتخاب حضرت مولانا نظام الدین صاحب کا ہوا تھا۔ ان کے انتقال سے دو سال قبل ارباب حل و عقد کی نشست کے لئے ارریہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ مگر کسی وجہ سے مجلس ارباب حل و عقد کا اجلاس ملتوی ہوتا رہا۔ مولانا نظام الدین صاحب علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد حسب پروگرام یہ اجلاس ارریہ میں ہوا۔
٭بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ہ نے مجلس ارباب حل و عقدکی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں علماء و مشائخ ہوں گے۔ لیکن شکایت یہ ہے کہ اس میں علماء و مشائخ کی تعدادد کم ہے۔ کیا یہ شکایت صحیح ہے ؟ اگریہ صحیح ہے تو کیا اس پر آپ نظر ثانی کریں گے؟
ولی رحمانی : حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد? نے ارباب حل و عقد کا تصور دیا تھا۔ اسی تصور کی بنیاد پر مجلس ارباب حل و عقد تشکیل دی گئی ہے۔اس میں علماء کی بڑی تعداد ہے۔ یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ارباب حل و عقد کے اندر ان لوگوں کو لیا جا ئے جو اپنے علاقوں اور خطوں میں با اثر ہیں ۔ اسی لحاظ سے ارباب حل و عقد کا تعین ہوا ہے۔ ٭کیا امارت شرعیہ کے دستور العمل میں اس کی گنجائش ہے کہ امارت کے اہم عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کوئی شخص کسی سرکاری عہدے کو قبول کرے؟
ولی رحمانی : امارت شرعیہ کے دستور میں ایسا کچھ لکھا ہوا نہیں ہے لیکن ایک آزاد ‘ باوقار اور موثر ادارے کے لیے یہ مناسب ہے کہ اس کا کوئی فرد کسی اور جگہ عہدیدار نہ ہو۔ ٭امارت کے ایک اہم عہدیدار کافی عرصے تک ایک سرکاری عہدے پر بھی فائز رہے کیا بہ حیثیت نائب امیر شریعت آپ سے اس سلسلے میں مشورہ کیا گیا؟ ولی رحمانی : مجھ سے اس سلسلے میں کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ امارت شرعیہ کے موجودہ دستور کے مطابق نائب امیر شریعت کا کام امیر شریعت کے انتقال کے بعد شروع ہوتا ہے اور امیر شریعت کے انتخاب کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔
٭کیا یہ الزام درست ہے کہ امارت شرعیہ کے ایک عہدیدار نے حکومت سے قریب ہوکر اپنے کچھ ذاتی تعلیمی ادارے کو مضبوط بنایا او ران اداروں کو کھڑا کرنے کیلئے امارت شرعیہ کا استعمال کیا۔ ولی رحمانی : مجھے ایسا کوئی علم نہیں ہے۔ ٭آپ کے سامنے امارت شرعیہ کا ماضی بھی ہے اور حال بھی ہے۔ آپ جس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اس نے قوم و ملت کو بہت کچھ دیا ہے۔ کبھی کچھ لیا نہیں ۔ اس پس منظر میں آپ نے ایسے کون سے منصوبے بنائے ہیں جس سے امارت شرعیہ کا کھویا ہوا وقا رواپس آسکے؟
ولی رحمانی : پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مان لینا کہ امارت شرعیہ نے اپنا وقار کھو دیا ہے ‘ غلط ہے۔ یہ باوقار ادارہ ہے۔ ہاں اس میں کچھ کمزوریاںدر آئی ہیں ۔ ان کمزوریوں کو سب کے تعاون سے دور کیا جا ئے گا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ امارت شرعیہ کے لوگ آگے بڑھ کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ امید ہے کہ مجھے تمام لوگوں کا تعاون ملے گا اور امارت شرعیہ پورے وقار کے ساتھ خدمت انجام دیتی نظر آئے گی۔ ٭حال ہی میں امارت شرعیہ کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میں ریاست کے مختلف علاقوں میں اسکول ‘ میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ؟
ولی رحمانی : میڈیکل کالج مشکل معاملہ ہے۔ آج کی تاریخ میں میڈیکل کالج میں بڑی رقم کی اور بڑے رقبہ زمین کی ضرورت ہے۔ وہیں اساتذہ کا بھی بہت مشکل معاملہ ہمارے پیش نظر ہے۔ جو نئے قوانین آئے ہیں اور میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) کا جو رول ہے اس کے بیش نظر سینئر اساتذہ کا ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان تمام چیزوں پر غور کرکے انجینئرنگ کالج کی طرف قدم قدم بڑھائے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں زمین تلاش کی جارہی ہے۔ جہاں تک 2 اسکولوں کا تعلق ہے امارت شرعیہ کے لیے یہ نیا کام ہے۔ اس کے طریقہ کار کا تفصیلی مطالعہ ہورہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ حالیہ تعلیمی سال میں سی بی ایس ای طرز کے دو اسکولوں کی ابتداہو جائے گی۔ایک جھارکھنڈ کے رانچی میں اور دوسرا بہار کے پورنیہ میں ۔ میرے ذہن میں یہ بات ہے کہ اسکول کا معیار بلند ہونا چاہیے اور تعلیمی اکسلنس اسکول کا وجہ امتیاز ہونا چاہیے۔ انشائ اللہ اس کا خیال رکھا جا ئے گا۔ یہ بھی کوشش کی جا ئے گی کہ ہر اسکول کے ساتھ ہاسٹل کی سہولت بھی موجود رہے۔
٭ملک میں مختلف فرضی جنگجو تنظیموں سے تعلق کا الزام لگا کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا جو سلسلہ کانگریسی حکومت کے وقت سے شروع ہوا ہے وہ ا?ج بھی دراز ہے۔ اسے روکنے کے لیے مسلم پرسنل لائ بورڈ یا امارت شرعیہ نے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے ؟ ولی رحمانی : مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دائرہ کار میں یہ چیز نہیں آتی۔ امارت شرعیہ موجودہ حالات سے فکر مند ہے اور وہ اس سلسے کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ یہ حالات انتہائی خطرناک ہیں ۔ ان گرفتاریوں سے مسلمانوں میں بے دلی اور بے اطمینانی کا ماحول بنا ہے۔ موجودہ حکومت یہ کام اس لیے کررہی ہے تاکہ ملک کی بقیہ آبادی میں یہ پیغام جائے کہ دہشت گردی کی جتنی قسمیں ہیں ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔
٭ حکومت پر اثر انداز ہونے کے لئے ہمیں یعنی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟
ولی رحمانی : اگر ہم حکومت پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تو آج کی تہذیب آج کی زبان ‘ آج کا طور ‘ریقے کو سمجھنا اور برتنا ہوگا۔ جو لوگ حکومت میں ہیں ان کی فکر صرف یہ ہوتی ہے کہ آج کیسے گذارا جائے او رکل کیسے گذرے گا۔ اس کے نتیجے میں وہ نفع نقصان کو سامنے رکھتے ہیں ۔ ملت کی کسی جماعت میں ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے جو حکومت کو متاثر کرسکے یا اثر انداز ہوسکے۔ ارباب اقتدار کے دربار میں ملت کی بے وزنی محسوس ہوتی ہے۔
٭گزشتہ دنوں ہوٹل پاٹلی پترا شوک میں آپ کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس میں وزیر اعلیٰ کو بھی شریک ہونا تھا۔ لیکن اس میں وہ نہیں آئے۔ لیکن اسی دن رات میں وہ خاموشی کے ساتھ آپ سے ملاقات کرنے چتکوہرا میں آپ کے مکان پر آگئے۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے ؟
ولی رحمانی : وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ کام اس لیے کیا کہ جلسہ میں اپنی پارٹی کی میٹنگ کی مجبوری کی وجہ سے نہیں آسکے۔ میری قیام گاہ پر ان کے تشریف لانے کا مقصد ”پرسنل ٹچ” دینا تھا او رامیر شریعت بننے پر مجھے مبارکباد دینا تھا۔ ویسے وہ مجھے فون پر مبارکباد دے چکے تھے۔
٭لالو پرساد اور نتیش کمار کی جوڑی اور لالو پرساد کے دونوںکم سن بیٹوں کو بہ حیثیت وزیر آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
ولی رحمانی : یہ سیاست ہے۔ اس میں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ لالو اور نتیش مل گیے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے جہاں تک لالو جی کے دو نوں بیٹوں کے وزیر بننے کی بات ہے ‘ یادووں کے علاوہ دوسرے تمام طبقات نے اس کو اچھا نہیں سمجھا ہے۔
٭تحریک تنظیم ائمہ مساجد’ ائمہ کی مضبوط تنظیم ہے۔ اس کو امارت شرعیہ سے جوڑنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
ولی رحمانی : میں نے اس سلسلے میں سوچا نہیں ہے۔ ویسے میں اس تنظیم کو بہت اہم مانتا ہوں۔
٭مسلمانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہوگا۔
ولی رحمانی : مسلم نوجوانوں کو کڑی محنت کرنی چاہیے۔ وہ جہاں رہیں اور جس شعبہ حیات سے وابستہ رہیں انہیں پوری محنت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اجتماعی زندگی کا شعور پیدا کرنا چاہیے اور بیدار و چوکس رہنا چاہیے۔