یہ بات اب کسی دلیل اور ثبوت کی محتاج نہیں رہی کہ ریاست پاکستان کے لیے اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرپشن، بدعنوانی اور ناانصافی کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ فکر و خیال اور زبان و قلم سے آگے اب یہ قتل و غارت اور مرنے مارنے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ آخر ایسا جان لیوا کھیل صرف مذہبی طبقات میں ہی کیوں کھیلا جاتا ہے؟ ہمارا مذہب اسلام ہمیں امن، بردباری بھائی چارے کا درس دیتا ہے اسکے باوجود بھی یہ گھناؤنا کھیل سرِبازار کھیلا جا رہا ہے۔
ایک وہ وقت تھا جب ایک کم سن بچہ مدرسے سے قرآن پاک حفظ کر کے نکلتا تھا تو اسے دہشت گرد تصور کیا جاتا تھا۔ مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ سمجھا جاتا تھا۔ معزز قارئین! تب اِس بدنامی کی وجہ اُس وقت کے خارجیت اور انسان نما درندے، انسانیت کے دشمن تھے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف پاکستان کو بلکہ پورے عالم اسلام کو نقصان پہنچایا۔ اللہ رب العزت کی مدد سے اس فتنے سے پاکستان کو اور ریاست پاکستان کے شہریوں کو پاک افواج نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بچایا۔ پاکستانی عوام ابھی اس فتنے سے نکلے ہی تھی کہ اب اسے ایک اور شدت پسندی کا سامنا ہے۔ انتہا پسندی کا یہ عفریت براہ راست آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ یہ اُسی سے ملتا جلتا مذہبی فکر کا مولود فساد ہے جو نفاذ شریعت اور جہاد و قتال کے زیر عنوان اور کفر، شرک کی سوچ سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اگر ہم اسکا موازنہ اس شدت پسندی سے کریں تو ہمیں یہ زیادہ خطرناک اور ملک پاکستان کے لیے زیادہ نقصان دہ نظر آتا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دشمن تھا جس سے پوری قوم آگاہ تھی اور انکے خلاف یکجا تھی۔ لیکن یہاں سارا کھیل جذبات کا ہے۔ یہاں مرکز و محور حضور ﷺ کی ذات سے نسبت ہے حضور نبی کریم ﷺ کی ذات ایسی ذات ہے جس کے لیے ہر کلمہ گو مسلمان رنگ و نسل، زبان، ذات کی تفریق کے بغیر اپنی جان مال عزت و آبرو سب کچھ حضور نبی کریم ﷺ کی خاطر لوٹانے کو تیار رہتا ہے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عام لوگوں کے جذبات سے ایک گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ہمارے اہل دانش اور اربابِ اقتدار مذہبی افکار کے آزادانہ اظہار کے لیے بھی اُسی طرح حساس ہوں، جس طرح وہ سیاسی افکار کے معاملے میں حساس ہیں۔ علم کی دنیا میں ہنگامہ و احتجاج اور جبر و استبداد کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس امر کو یہاں نہ روکا گیا تو یہ خطرناک صورتحال اختیار کر جائے گا۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ ناموس رسالت ﷺ اور ختم نبوت ﷺ کا مسئلہ عوام الناس و کج فہم لوگوں کے بحث وتمحیص کے مقام نہیں۔ بدقسمتی سے اس نہایت اہم اور حساس مسئلہ پر سُنی سُنائی باتوں پر عمل کر کے “فتوی بازی” اور شرانگیز افواہ سازی کے کارخانے سرگرم ہیں۔ جو اپنے غیر حقیقی و بلادلیل مؤقف سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو “کافر و گستاخ” کے لقب سے نوازتے ہیں اور مسلمانوں میں تشدد پسندی و انتہا پسندی و لعنت وملامت کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو کہ ازروئے قرآن و حدیث قابل قبول عمل نہیں ہےاور مخصوص لوگ اپنے ذاتی اختلافات کو ناموس رسالت کے مسئلہ سے جوڑ کر نفرت کا بازار گرم کر رہے ہیں_اور ایسے لوگوں کے فالوور بھی اندھی تقلید کی وجہ سے اس نفرت کی آگ کو بڑھاوا دینے کیلئے اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ جسکے خطرناک مناظر ہمیں رواں سال دیکھنے کو ملے۔ نواز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ اگر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو پاکستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
اگر کوئی شخص توہین رسالت ﷺ کرتا ہے تو “ریاست” اس شخص کا “جُرم ثابت” ہونے پر اسے سزائے موت دے گی۔ اسی طرح ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر بھی پاکستان میں قانون موجود ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرایا جائے۔ کسی بھی فرد واحد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کو (چاہے اس نے گستاخی کی بھی ہو) قانون ہاتھ میں لے کر قتل کر دے۔ امام احمد رضاخان رحمہ اللہ تعالی کا بھی یہی ماننا ہے کہ “گستاخ کے قتل کا حکم صرف بادشاہِ اسلام ہی دے سکتا ہے”۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک کی حفاظت فرمائے اور اسے ہر قسم کی انتہا پسندی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔