ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آ گیا۔ وہ لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہیں دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دُکان کے باہر فٹ پاتھ پر لیٹ گیا، لوگوں نے صبح آ کر دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔
اب ’’اہل ایمان‘‘ کا ’’جذبہ ایمانی‘‘ بیدار ہوا۔
بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کےلیے دیگیں چڑھا دی گئیں۔ یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا: ظالمو ! اب دیگیں چڑھا رہے ہو،اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرتا۔
ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تنگ آ کر اس نے خود سوزی کرلی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پر قبضہ ہو گیا۔ بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کو تیار نہیں ہوا، اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتےہوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔
فائدہ؟
کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد آ کر رہے گا؟
کیا ہمارا ’’جذبہ ایمانی‘‘ صرف مُردوں کے لیے رہ گیا ہے؟
ایک منٹ کو رکیے اور آنکھیں بند کر کے اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیے۔ اپنے پڑوسیوں پر، اپنے رشتےداروں پر، جو آپ کی گلی میں ٹھیلے والا ہے اس پر، جو ایک مزدور آپ کے محلے میں کام کر رہا ہے اس پر، جو آپ کے ہاں یا آپ کے دفاتر میں چھوٹے ملازم ہیں ان پر۔
یہ سب لوگ ہمارے کتنے قریب رہتے ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا کچھ بیت رہی ہے۔ ہمیں اس لیے نہیں معلوم کہ ہم ان کے قریب رہتے ہوئے بھی ان سے دورہیں۔ ہم نے کبھی ان کا احساس کیا ہی نہیں۔ کبھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا بھی نہیں، بلکہ شاید ہمیں ان ’’چھوٹے‘‘ لوگوں سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔
کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم ’’جوشِ ایمان‘‘ میں ایک اک گلی میں تین تین چار چار مساجد بنا دیتے ہیں، انہیں خوب سجاتے بھی ہیں، لیکن اسی گلی میں کئی غریب رات کو بھوکے سوتے ہیں ان کی طرف کوئی دھیان نہیں جاتا۔ کسی بیمار کے پاس دوائی خریدنے کےلیے پیسے نہیں ہوتے، اس کی مدد کو کوئی “صاحب ایمان” آگے نہی آتا۔
ہم سب کے ارد گرد ایسےہزاروں لوگ موجود ہیں جو مجبور ہیں، بےکس ہیں، غریب ہیں، جن پر ہم کبھی توجہ ہی نہیں دیتے۔ ان کو اپنے قریب کیجیے۔ ان کی جو ممکن ہو مدد کیجیے۔ اور کچھ آپ کے بس میں نہ بھی ہو تو کم از کم ان کی دل جوئی کیجیے۔
کیونکہ یہ وہ کام ہے جو ہم انفرادی حیثیت میں اور بحیثیت معاشرہ احسن طریقہ سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ ہمارا مذہب بھی اسلامی بھائی چارے، محبت، مساوات اور یگانگت کا درس دیتا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم ہر مسئلے کے حل کےلیے حکومت اور ریاست کی جانب نہیں دیکھنا، ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ ریاست اور حکومت نے ہمارے لیے کیا کیا، بلکہ یہ سوچنا ہے کہ ہم نے اپنی حکومت اور اپنی ریاست کے لیے کیا کیا؟
یہ وہ فطری رویے ہیں جن کو بروئے کار لا کر ہم اپنے ملک، اپنے معاشرے اور سب سے بڑھ کر اپنے اردگرد کے لوگوں کو ایک ایسا حسین چہرہ دے سکتے ہیں کہ جب اس حسین چہرے پر کسی کی نظر پڑے تو ہم معاشرے میں ہونے والی تمام ناانصافیوں اور ناہمواریوں کو بھول جائیں، اور یہی رویہ ہمارے ایمان کا بہترین جزو اور جذبہ ہے۔
نوٹ:یس اردونیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سید شرجیل احمد قری
بشکریہ: ایکسپریس