تحریر : اختر سردار چودھری
شاعر، مزاح نگار، نقاد، محقق اور ماہرتعلیم لاور فگار کا حقیقی نام دلاور حسین تھا۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے قصبہ بدایوں میں پیدا ہوئے ۔دلاورنے شعر گوئی کا آغاز 14 برس کی عمر میں 1942ء میں کیا۔دلاورنے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے شہر بدایوں ہی میں حاصل کی تھی ۔مزید تعلیم کے لیے وہ آگرہ گئے ،جہاں کی یونیورسٹی سے پہلے ایم اے (اردو) پھر ایم اے (انگریزی) اور ایم اے (معاشیات) کیا ۔عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے کیا ۔ ان کی غزلوں کا اولیں مجموعہ ”حادثے ” 1954 ء میں شائع ہوا۔اس وقت وہ اپنا تخلص شباب لکھا کرتے تھے اور ان کی شاعری سنجیدہ تھی۔
مجھے ہنگامہ ہائے زیست سے ڈرنا نہیں آتا
کہ ہنگامے مری عمر رواں کے ساتھ چلتے ہیں
فگار صاحب کو صرف شاعری پر ہی نہیں نثر پر بھی عبور حاصل تھا ،مگر ان کی شہر ت ایک مزاح گو شاعر کے طور پر ہی ہوئی۔”حادثے ” کی اشاعت کے بعد دلاور حسین ، دلاورشباب سے دلاور فگار ہو گئے ۔اور اسی نام سے شہرت حاصل کی ۔پہلی مرتبہ جب انھوں نے دہلی میں اپنی نظم ”شاعراعظم” پڑھ کر سنائی تو ان کی مزاح گوئی کی دھوم مچ گئی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب انھیں ”شہنشاہ ظرافت” اور ”اکبر ثانی” جیسے خطابات سے نوازا گیا۔
میں نے کہا کہ یہ جو ‘دلاور فگار’ ہیں
بولے کہ وہ تو طنز و ظرافت نگار ہیں
ان کا دوسرا مزاحیہ نظموں، قطعوں اور رباعیوں کا مجموعہ ”ستم ظریفیاں” 1963 ء میں شائع ہوا۔ دلاور فگار 1968 میں پاکستان آگئے ۔کراچی میں رہائش اختیار کی ۔وطن چھوڑنے کا دکھ ان کو رہا، اس بارے ان کے دو شعر دیکھیں ۔
جو کل عزیز تھے ، وہ آج یوں ہیں بیگانے
کہ خویش و غیر میں کچھ امتیاز بھی نہ رہا
صرف مجھ کو ہی نہیں ترکِ گلستاں کا ملال
خود بھی مغموم ہیں اربابِ چمن میرے بعد
وہ کراچی کے عبداللہ ہارون کالج میں لیکچرار بھرتی ہوئے کچھ عرصے تک اردو پڑھاتے رہے ۔ اس وقت فیض احمد فیض یہاں کے پرنسپل ہوا کرتے تھے ۔ پاکستان میں بھی فگار صاحب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔اس سے پہلے بھارت میں بھی ان کی شہرت پھیل چکی تھی۔ اپنی شاعری میں انہوں نے اکبر الٰہ آبادی کو اپنا آئیڈیل بنایا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے پطرس بخاری ، رشید احمد صدیقی، احمق پھپھوندوی، وغیرہ کے اسلوب ،انداز کو بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا ۔اور خوب نام کمایا۔
ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن
ایک دو تین چار حدکر دی
”خوشبو کا سفر” ان کی 100 منتخب ملکی اور غیرملکی آفاقی منظومات کے انگریزی سے اردو میں تراجم پر مشتمل کتاب کا نام ہے ۔اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے ۔مثلاً ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور نظم Moving Starirs کے ایک اقتباس کا ترجمہ بعنوان ”چلتی سیڑھیاں” ملاحظہ فرمائیں
جیسے پت جھڑ میں نرم شاخوں سے
پتیاں نیچے گرنے لگتی ہیں
یونہی زینہ کے نقش میں اکثر
سیڑھیاں چلنے پھرنے لگتی ہیں
اگرچہ دلاور فگار صاحب کی وجہ شہرت ان کی مزاحیہ شاعری ہی قرار پائی، لیکن وہ ایک منفرد نعت گو بھی تھے اور نثر میں بھی اپنا مقام رکھتے تھے وہ خود اس بارے میں کہتے ہیں ”لوگ کہتے ہیں کہ میں طنز و مزاح نگار ہوں۔ گویا کہ طنز نگاری ،شاعری یا کم ازکم سنجیدہ شاعری سے الگ کوئی فن ہے ۔ جہاں تک میری طنز نگاری کا تعلق ہے ، یہ میری سنجیدہ شاعری ہی کی بنیاد پر مبنی ہوتی دوسری منزل ہے ۔ ظاہر ہے کہ بالاخانہ کو گراؤنڈ فلور سے الگ نہیں کیا جاسکتا”۔
دلاور فگارنے 25 جنوری 1998ء کو اس جہاں فانی سے رخت سفر باندھا اور ملک عدم سدھار گئے ۔وہ کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
میں شہر کراچی سے کہاں بہر سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مر جاؤں
اس شہر نگاراں کو جو چھوڑوں تو کدھر جاؤں
صحرا مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
دلاور فگار کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں انگلیاں فگار اپنی ۔ستم ظریفیاں۔ آداب عرض۔ شامت اعمال۔مطلع عرض ہے ۔سنچری۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ۔چراغ خنداں ۔کہا سنا معاف وغیرہ شامل ہیں حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے بعد انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
تحریر : اختر سردار چودھری