تحریر : انجینئر افتخار چودھری
گزشتہ روز نکیال میں پیپلز پارٹی کی ریلی پر زاد کشمیر مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما سرادر سکندر حیات کے بیٹوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک معمر کارکن چودھری منشی گجر شہید ہو گئے۔سردار سکندر حیات کی سیاسی زندگی کے عروج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تحریک نظام مصطفی میں وہ ایک جوان مرد کی حیثیت سے پورے پاکستان کی قیادت کرتے نظر آئے۔شستہ بیانی ان کا وصف رہا ہے۔مجھے مدینہ منورہ میں ان کے ساتھ تقریبا آٹھ روز گزارنے کا بھی موقع ملا ہے۔غالبا سال ١٩٨٤ تھا سردار صاحب نے پاکستانی مشن کو ہیڈ کیا تھا،اس وقت ان کے ساتھ سردار غلام مصطفی امین مختار ملک نواز کے علاوہ پارلیمانی پارٹی کے چند اور بھی اراکین تھے۔بعد میں جدہ میں پاکستان انجینئرز کمیونٹی کی تقریبات میں ان کا میزبان بنا۔کشمیری بھائیوں کی متعدد تقریبات جو عبدالطیف عباسی بھائی نے سجائیں وہاں بھی ملاقاتیں رہیں۔
اس دوران میں نے ان کی پاکستان سے محبت کو ان کے اظہار میں لازوال پایا۔سردار سکندر حیات میرے نزدیک ایک وقت سردار عبدالقیوم سے بھی بڑے لیڈر تھے خاص طور پر جب جب مجاہد اول نے تھرڈ آپشن کا ڈول ڈالا اس وقت سردار سکندر حیات کی نظریہ کشمیر پر بڑی جامد آواز اٹھی الحاق پاکستان کی آواز جو قائد اعظم کے خواب سے جڑی ہوئی تھی۔ سردار صاحب تحریک پاکستان کی پہلی صفوں میں شمار سردار فتح محمد کریلوی کے صاحبزادے ہیں۔ میں نے ہمیشہ انہیں ایک باوقار شخص پایا۔
کہتے ہیں انسان قسمت والا ہوتا ہے جو اپنی شان وقار جو اللہ نے اسے دیا ہو اسے اپنی قبر میں لے جائے۔اولاد کو اللہ پاک نے زینت الحیات بھی کہا ہے اور فتنہ بھی۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سردار سکندر حیات کو اللہ تعالی نے جو عزت شان اور شوکت دی اسے گھر کے چراغ نے آگ لگا دی ان کے قریبیوں نے ریلی پر حملہ کر دیا۔سردار عبدالقیوم خان جب اس دنیا سے گئے تو آسمان بھی رویا۔
زندگی میں سیاسی زندگی میں اتار چڑھائو بھی آیا خود سردار سکندر اور سردار قیوم آپس میں ٹکرائے بھی ۔لیکن ان دوونوں سرداروں کی اولاد کا موازنہ کیا جائے تو سردار عبدالقیوم اس میدان میں بازی لے گئے کہ انہوں نے اپنا سیاسی وارث عتیق احمد خان کی صورت میں چھوڑا جو میں سمجھتا ہوں پاکستان کی سیاست کرتے تو صف اول میں قدم جماتے لیکن اس کے مقابلے میں سردار سکندر نے جو اولاد کشمیری قیادت کے لئے دی ان سردار عتیق کے مقابلے میں زیرو نکلی۔اب میں اس مرد حر کی بات کروں گا جسے میں نے جدہ میں پہلی بار دیکھا مجھے کشمیری گجر برادری کے لوگوں نے ایک نوجوان سے ملوایا جو خوبصورت بھی تھا اور گفتگو کے فن سے بھی شناسائی رکھتا تھا۔جاوید اقبال بڈھانوی سے پہلا تعارف نوے کی دہائی میں ہوا جب آتش بھی جواں تھا اور اس کے جذبے بھی۔
بات آئی گئی ہو گئی۔سچ پوچھیں تو کشمیریوں سے میرا گہرا تعلق رہا ہے مطلوب انقلابی لطیف اکبر عبدالرشید ترابی الف ترابی سردار صاحبان سردار اعجاز افضل عبدالمجید ڈار ان سے یاد اللہ رہی اور اب بھی ہے۔ایک بار میں اپنے بھانجے ماجد مختار گجر کی مختصر سی بارات لے کر بنی حافظ صاحبزادہ اسحق ظفر صاحب کے ہاں پہنچا تو جاوید بڈھانوی میزبان کی صورت ملے میں نے استفسار کیا کدھر؟کہنے لگے آپ جدھر پتہ چلا جاوید بھی اسی گھر کے داماد ہیں جس کے ماجد ہوں گے۔
رشتے داری کا یہ خوبصورت بندھن گزشتہ آٹھ سال سے ہے۔میں نے بڈھانوی صاحب کو اپنی عمر سے بڑا پایا۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔مجھے فخر ہے کہ میرا کشمیریوں سے رشتہ بے پناہ رسیلا ہے۔نرگس اسحق ظفر ہمارے گھر آئی بہار آئی۔صاحبزادہ صاحب کا ساتھ زیادہ نہ چلا البتہ ان کی میت کو غسل دینے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا اس لئے کہ وہ میرے بہنوئی مختار گجر ممبر فیڈرل کونسل پیپلز پارٹی کے گھر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔
البتہ جس بات کی طرف میں اپنے قاری کو لے جانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک نو عمر نے سردار سکندر کے سنگھاسن کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ان کے صاحبزادے کو جاوید کے ہاتھوں بری شکست ہوئی اس سے پہلے جاوید ان سے چند سو ووٹوں سے ہارے۔لگتا ہے سردار سکندر کو سردار قیوم جیسا اینڈ نہیں ملے گا نہ اسے عتیق خان جیسا فرزند ملا اور نہ ہی وہ اپنے خاندان کا تاریخی اعزاز برقرار رکھ سکے۔اسے کھڈ گجراں سے اٹھنے والے متوسط طبقے کے ایک نوجوان جیالے نہ چاروںشانے چت کر دیا۔
بابا منشی کیسے مرا ؟جے آئی ٹی کیا نتیجہ نکالتی ہے ؟لیکن اتنا ضرور ہے بابے کی موت نے سردار سکندر حیات کے سیاسی تابوت میں آخری کیل پرسوں ٹھونک دی ہے۔میرے ایک صحافی دوست نے فون پر بتایا ایک خون سے کریلوی خاندان کا خون ہو گیا ہے۔مجھے آج انوکی پھر سے یاد آ گیا جس نے بھولو پہلوان کے بھائی اکی کو ستر کی دہائی میں چاروں شانے چت کر دیا تھا وہ جب لاہور اترا تو اس نے کہا میں ان کا خاندانی غرور خاک میں ملا دوں گا مجھے جاوید بھڈانوی انوکی دکھائی دیتا ہے۔اس بوڑھے گجر کی موت سے میں جاوید اقبال کی سیاسی زندگی کے چراغ کو جلتا ہوا دیکھتا ہوں۔
جاوید بہت اچھا ہے بس اس میں ایک کمی ہے کہ وہ انصافین نہیں۔سردار سکندر صاحب مجھے آپ کے سیاسی اختتام کا افسوس ضرور رہے گا۔انتہائی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی اولادیں ان کے نقش قدم پر چلتی ہی نہیں ایک قدم آگے رکھتی ہیں۔شائد سردار صاحب خوش نصیب نہیں ہیں۔سکندر کے خالی ہاتھ سنے تو تھے دیکھ آج رہا ہوں۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری