انناس ایک لذیز اورمن پسند پھل ہے اور اب اس میں ایسے خامرے ( اینزائیم) دریافت ہوئے ہیں جو ادویات کو بے اثر بنانے والے جراثیم کو بھی مارسکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے ماہرین نے بعض ممالیوں کوڈائریا کے علاج میں انناس کو کامیابی سے استعمال کیا ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ انناس نے انسانی بیکٹیریا کو شکست دی جاسکتی ہے۔ میلبرن کی لاٹروبے یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق اینٹی بایوٹکس کا اندھا دھند استعمال ان بیکٹیریا کو ہرطرح کی دوائیوں سے مزاحم بنارہے ہیں اور ڈاکٹر بھی بے دریغ اینٹی بایوٹکس تجویز کررہے ہیں اس طرح بیکٹیریا بدل کر ’’سپر بگس‘‘ بنتے جارہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پوری دنیا میں جراثیم بہت چالاکی سے خود کو بدل کراینٹی بایوٹکس کو بے اثر کررہے لیکن انناس میں موجود اہم اجزا اس جنگ میں فتح دلاسکتےہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والے ایک سالہ سروے میں کہا گیا ہے کہ 2050 تک اینٹی بایوٹک سے مزاحمت والے جراثیم اور بیکٹیریا سے مرنے والوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے۔ اس لڑائی کو جیتنے کے لیے ہمیں یا تو نئی اینٹی بایوٹکس بنانی ہیں یا پھر ایسے قدرتی اجزا دریافت کرنے ہیں جو ہمیں ان ڈھیٹ جراثیم کے مقابلے میں فتح دلاسکیں۔
ماہرین کے مطابق انناس میں پائے جانے والے 3 اینزائم سے جانوروں کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو ختم کرکے ڈائریا کا علاج کیا گیا ہے اور اس طرح ڈائریا سے علاج کی ایک نئی راہ کھل سکتی ہے۔ ماہرین کی جانب سے ان 3 اینزائم کو مجموعی طور پر ’’بروملین‘‘ کہا گیا ہے اور یہ اب سے 80 برس قبل دریافت ہوئے تھے۔