تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ میرا پوتا عالیان ہے جو گجرانوالہ سے میرے ساتھ چند دن گزارنے آیا ہے۔ پہلے تین دن سوچتے رہے اور آج اپنے تائو کے ساتھ وہ سینٹورس گیا تھا اس کا بھائی ریحان ہے اسے کسی نے بتایا کہ سینٹورس کو وارننگ دی گئی ہے اور وہاں دہشت گردی کی کاروائی ہو سکتی ہے۔ ریحان نے کہا نہیں دھماکے دن کے وقت ہوتے ہیں رات کو چلیں گے۔
ہماری اس نسل کو کس نے بتایا ہے کہ دہشت گرد دن کے وقت آتے ہیں شائد اس ١٦ دسمبر کو ہم نے ڈھاکہ کو بھلا کر اس نسل کو بتایا کہ دشمن ادھر ہی ہے اس کی لمبی داڑھی ہے بال دراز ہیں سر پر چترالی پٹی کی ٹوپی پہنے ہوئے ہے۔ ایک فلم میں اس حلئے کو دہشت گرد دکھایا گیا ہے۔
میں اس نسل کو بچانا چاہتا ہوں۔ یاد رکھئے جس کسی نے یہ فلم بنائی ہے اس نے اس قوم کے ساتھ زیادتی کی ہے ٦٠ سال تک ہمیں پڑھایا جاتا رہا ہے کہ موجودہ کشمیر کو ان قبائلیوں نے آزاد کرایا تھا۔ جہاد افغانستان میں اس حلیے کہ لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا حتی کے عربوں نے بھی یہی لباس فخر سے پہنے۔ ہم کہیں اپنے نئے دشمن خود ہی تو نہیں پیدا کر رہے۔
اس حلئے کہ لوگوں کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے خدارا اسے بند کیا جائے۔قوم کو بے وقوف نہ بنایا جائے کبھی ہم کہتے ہیں کہ ہمارا دشمن انڈیا ہے جو بلوچستان میں کراچی میں فتنے پھیلاتا ہے۔تو بتائیے یہ حلیہ ہندوستانی ہے۔خدا را چند بے راہرو لوگوں کی وجہ سے اہل دین کو فوج اور میرے بچوں کا دشمن نہ بننے دیا جائے مییں لکھ رہا ہوں اس لئے کہ مجھے دشمن سے بچوں کو بچانا ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری