تحریر : ایم ابوبکر بلوچ
پاکستان میں دسمبر کا مہینہ موسم سرما کی شروعات اور نئے سال کی آمد کے حوالے سے خاصا اہمیت کا حامل ہے لیکن گزشتہ سال سے ماہ دسمبراپنے اندر ایک درد بھری داستان سموئے ہوئے ہے کہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تلخ یادوں کا حصہ بن گیاہے اور یہ تلخی پاکستان کے علاوہ تمام مہذب قوموں اور انسانیت کے ذہنوں میں ہمیشہ باقی رہے گی جسکا ازالہ صدیوں ممکن نہیں۔سولہ دسمبر 2014کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں نے اس قدر شدت سے حملہ کیا کہ9اساتذہ، 3فوجی جوانوں سمیت کل تقریباً145 ہلاکتیں ہوئیںاور 110سے زائد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والے 132بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔پاک آرمی نے 950 بچوں ، اساتذہ کو بحفا ظت باہر نکالا اس موقع پہ ایک دہشت گرد نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جبکہ 6واصل جہنم ہوئے تھے۔یہ پاکستان کا سنگین ترین دہشت گردانہ حملہ تھا جس نے 2007میں کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔گذشتہ برس 16 دسمبر کو برپا ہونے والا قیامت صغریٰ کا منظر آج بھی ہمیں یاد ہے۔ مائوں کا تڑپنا،خوابوں کا ٹوٹنا ، معصوم بے گناکلیوں کا مسلنا ،وہ سب کچھ ہمیں آج بھی یاد ہے۔
قارئین کرام یہ المناک حادثہ اپنی جگہ لیکن اس عظیم سانحے نے ہماری پوری قوم کو متحد کیا اور ہمارے سیاستدان تمام تر اختلافات کے باوجود ایک میز پر بیٹھنے کو مجبور ہو گئے۔یہ سب دیکھنے میں ایک قوم کیلئے اچھا نقطہ آغاز ہے۔ اس واقعہ سے قبل پاکستان میں دہشتگردی عام تھی روزانہ سینکڑوں بے گناہ اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔گلی بازار کے علاوہ چرچ اور مساجد میں بم دھماکے ہوتے تھے نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی جان مال،پورے ملک میں امن و سکون ایک خواب سا بن کے رہ گیا تھا۔آرمی پبلک سکو ل کے معصوم شہداء کی قر بانیوں کے بعد پوری قوم نے ایک جسم کی مانند اپنے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف آگے بڑھنے کا فیصلہ کیااور محب وطن ہونے کا بے مثال ثبوت دیا۔آج کا پاکستان ایک بدلا ہو ا ملک ہے ہم میں سے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہے کہ دہشت گردی کے ناسور پہ کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہو چکی ہے اپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گرد بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔ اس سال 6ستمبر کو 6 ستمبر 1965کی یادیں تازہ کی گئیںہر ٹی وی چینل پہ قومی نغمے،تاریخی پروگرامز پیش کئے گئے۔
یوم آزادی ہو یا یوم دفاع ، اس مرتبہ شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تقاریب منعقد کی گئیں جنہیں عرصہ دراز سے اگنور کیا جا رہا تھا۔ہم سب کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہو گا یہ سب کریڈٹ پاک آرمی ، ہمارے عظیم سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے ، بلاشبہ جنرل راحیل شریف سپہ سالارانہ صلاحیتوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر اور مخلص انسان ہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحہ میں ملوث ملزمان کو پھانسی اوراپریشن ضرب عضب میں کامیابی جنرل راحیل شریف کے سچے پاکستانی اور محب وطن ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ابھی کچھ روز پہلے اسی ماہ اے پی ایس سانحہ میں ملوث 4 دہشت گردوں مولوی عبدالسلام ولد شمسی،حضرت علی ولد اول باز خان،مجیب الرحمان عرف علی نجیب اللہ ولد گلاب جان،سبیل عرف یحیٰ ولد عطاء اللہ کو پھانسی دی گئی۔
16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا یوم سیاہ ہے ۔ ابھی کچھ روز قبل 16 دسمبر کواس سانحے کو ایک سال مکمل ہوا تو آرمی پبلک سکول شہداء کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کی قرارداد منظور کی گئی،پاک آرمی کی طرف سے اے پی ایس شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک بہت ہی خوبصورت ملی نغمہ بھی پیش کیا گیا۔،، مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے،، اس ملی نغمے کے رائیٹر ،ڈائریکٹر میجر محمد عمران ہیں اور یہ نغمہ اے پی ایس کے ننھے منے طالبعلم آذان کی آواز میں گایا گیا ہے۔ اسلام آبادمیں 122 سکولز،کالجز کو اے پی ایس شہداء کے ناموں سے منسوب کر کے وفاق کی طرف سے باقاعدہ نوٹس جاری کیا گیا۔ 16 دسمبر کے دن وفاقی قیادت اے پی ایس شہداء کی عظمت کو سلام پیش کرنے پشاور گئی ،آرمی پبلک سکول میں باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی جس میںشہداء کے والدین، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے بھی شرکت کی اور اس موقع پہ شہداء کے بلند درجات کیلئے فاتحہ خوابی اور دعا بھی کی گئی۔
اس دن سانحہ پشاور کے لواحقین اور والدین نہایت غمزدہ تھے انکی گفتگو سے ان بچوں کو یاد کر کے پوری قوم کی آنکھیں نم تھیں مگر اس دن عظیم شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا جن کے لہو سے پوری قوم جاگ اٹھی اور متحد ہو کر دہشت گردی کو شکست دی لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ دہشت گرد اور انکے مددگار ابھی باقی ہیںمگر قوم کے حوصلے بلند ہیں۔ اس دن ہم سب نے دل و جان سے یہ تجدید عہد کیا ہے کہ ہم اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس ملک کا دفاع کریں گے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
نئے ملی نغمے کے چند خوبصورت اشعار
قلم کی جو جگہ تھی وہ وہیں ہے پر اسکا نام تک باقی نہیں ہے
قلم کی نوک پہ نقطہ نہیں ہے کوئی جو سچ ہو وہ بھلا جھکتا ہے کوئی
وہ جس بچپن نے تھوڑا اور جینا تھاوہ جس نے ماں تمھارا خواب چھینا تھا
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ،،
تحریر : ایم ابوبکر بلوچ