تحریر: علی عمران شاہین
18 ستمبر کی صبح پشاور میں پاک فضائیہ کے ایک بیس پر 14 دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے نماز فجر کا وقت منتخب کیا کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ اس وقت انہیں اپنے مذموم عزائم میں زیادہ بہتر کامیابی مل سکتی ہے۔ حملہ آور فضائی اڈے کے اندر داخل ہو کر سیدھے مسجد کی جانب ہی لپکے اور سب سے پہلے نماز کی ادائیگی میں مصروف لوگوں کو گولیوں سے بھوننا شروع کر دیا۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی چار اطراف سے سکیورٹی فورسز نے ان کا گھیرائو کر کے انہیں مختصر سے علاقے میں ہی گھیر کر منٹوں کے اندر اندر ٹھکانے لگا دیا۔
پشاور میں اس حملے کا جیسے ہی کھوج لگانا شروع کیا گیا تو کھرا سیدھا افغانستان جا نکلا جہاں سے ان حملہ آوروں کو نہ صرف بھیجا گیا تھا بلکہ وہیں سے انہیں ہدایات بھی دی جا رہی تھیں۔ اب افغانستان میں پاکستان کے خلاف کون لوگ سرگرم ہیں؟ اس کے متعلق ہمیں بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت جسے امریکہ بھارت کے حوالے کرنا اور پاکستان کو دونوں طرف سے گھیرنا چاہتا ہے، اب بھارت کے ہاتھوں ہی میں کھیل رہی ہے۔
اس حکومت نے تو حال ہی میں کابل میں نام نہاد اور درباری علماء اکٹھے کر کے ان سے پاکستان کے خلاف ”جہاد” کا فتویٰ جاری کروایا۔ افغانستان کے لوگ اس بات سے اول دن سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان ہی ان کا دوسرا گھر ہے۔ آج بھی پاکستان میں 30لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین باعزت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے بڑے بڑے کاروبار ہیں بلکہ یہ افغان تو پاکستان کی معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں افغانستان کی درخواست پر اپنے ہاں مقیم ان افغان مہاجرین کے قیام کو مزید دو سال تک بڑھا دیا ہے۔
پاک افغان سرحد پر روزانہ 40 سے 50 ہزار باشندے آر پار آتے جاتے ہیں جن میں بھاری اکثریت تو افغانوں ہی کی ہوتی ہے۔ افغانستان کا سارا راشن پانی اول دن سے پاکستان سے جاتا ہے کیونکہ افغانستان میں تو فصلیں یا اجناس پیدا نہیں ہوتیں۔ بھارت اور امریکہ جانتے ہیں کہ افغانستان کا نظام حکومت پاکستان کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتا اور افغانستان کی کوئی بھی حکومت پاکستان کے ساتھ حالات خراب کر کے اپنا ملک ایک دن بھی نہیں چلا سکتی۔ سو انہوں نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف میدان میں اتارنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے شروع کر رکھے ہیں۔ عرصہ دراز سے امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر بڑا کردار دیا۔ بھارت نے بڑے پیمانے پر یہاں فوج بھی بھیجی لیکن تباہ کن اور پے در پے حملوں اور بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعدبھارتی فوج فرار ہو گئی یوں امریکی و اتحادی افواج کی جگہ بھارتی افواج کی تعیناتی کا منصوبہ تلپٹ ہو گیا۔ امریکہ کے پاس اب اس کے سوا کوئی دوسرا حربہ نہیں کہ وہ افغانستان میں بھارت کو مضبوط کرے۔ پاکستان پر افغانستان کے ذریعے دبائو بڑھائے اور پاکستان کو بے بس کیا جائے۔
اس سنگین صورتحال میں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ معاملات کو اتنی ہی گہری نظر سے دیکھ کر حل کرنے کی کوشش کریں جتنی ان کی ضرورت ہے۔ ہمارے دفاعی اداروں اور خاص طور پر پاک فوج نے ملک بھر میں کامیاب آپریشن لانچ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امن و امان بہت حد تک بحال ہوا ہے۔ بھارت کی طرف سے بلوچستان میں بھڑکائی گئی بغاوت آخری سانسیں لے رہی ہے۔ کراچی میں عوام سکون کا سانس لینے لگے ہیں۔ وہاں سے سندھ کی علیحدگی کی بھارت نواز تحریکیں قریب قریب ختم ہو گئی ہیں۔ قبائلی علاقہ جات پہلی بار پاک فوج اور حکومت کی عمل داری میں ہیں۔ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام 2009ء کے بعد سے سکھ کا سانس لے رہے ہیں کہ فوج نے طویل عرصہ سے ان کی حفاظت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ یہ آپریشن اور اس کے بعد امن و امان کو قائم رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن پاک فوج نے یہ کارنامہ بھی انجام دے کر دکھا دیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ملک بھر میں پھیلے فسادی پکٹس کی ہے جو بہت حد تک ختم ہو چکے ہیں۔
صرف کراچی کو ہی دیکھ لیں کہ جہاں کے بارے سب کا خیال تھا کہ اس شہر کو اب کوئی نہیں سنبھال سکے گا۔کراچی سے ہزاروں تاجر اور کاروباری طبقے کے لوگ فرار ہوئے تو بے شمار شہری یہ شہر ہی چھوڑ گئے تھے۔اب اسی شہر کے باسی ہی نہیں دنیا بھر کا میڈیا تسلیم کر رہا ہے کراچی کا امن اور روشنیاں تیزی سے لوٹ رہی ہیں۔یہ سب کچھ لوٹانے والے کون لوگ ہیں؟جی ہاں وہی پاک فوج کہ جو دن رات خون کی بازی لگا کر ہمارے لئے اس ملک کو پر امن بنا رہی ہیاس سب کو تو ہی دیکھ کرہمیںبھارتی اور مغربی میڈیا پر کوئی حیرانی نہیں ہوتی کہ جو اس وقت یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ پاکستان باغیوں کے نرغے میں ہے۔ دنیا کا سب سے بڑے نشریاتی ادارہ ہونے کے دعویدار برطانوی کارپوریشن کی ہر رپورٹ پاکستان کے خلاف زہر میں بجھے تیر کی طرح ہوتی ہے جس میں غیر محسوس انداز میں نہیں بلکہ کھلے ڈلے انداز میں بلا خوف و جھجھک پاکستان کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں بحالی امن کے خلاف ایسی ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ جنہیں سن پڑھ کر تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ 16ستمبر کی ایک ایسی ہی رپورت کا معمولی سا حصہ ملاحظہ کیجیے۔” پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ صوبہِ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال میں اِس سال واضح بہتری آئی ہے۔ دارالحکومت کوئٹہ میں پیش آنے والے بڑے فرقہ وارانہ حملوں، اغوا برائے تاوان اور مجموعی لاقانونیت میں کمی ہوئی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ صوبے کے دیگر حصوں میں صورت حال دراصل مزید خراب ہوئی ہے، اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے پوری پوری آبادیاں دربدر ہو گئی ہیں” یہ تو باہر کے دشمن کی باتیں ہیں لیکن کچھ ایسے ہی عناصر پاکستان کے اندر بھی موجود ہیں جو ملک سے زیادہ ملک دشمنوں کے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہسو ان حالات میں ہر ایک فرد کے لئے لازم ہے کہ اپنے دفاعی اداروں کے شانہ بشانہ ہر ملک دشمن فرد، ادارے اور سازشی عنصر کے خلاف ہر سطح پر میدان میں آئیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ دشمن کی سازش بہت گہری ہے، اس کا مقابلہ پاک فوج کے شانہ بشانہ چل کر ہی ہو سکتا ہے جو اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ہمارے سکون کا انتظام و انصرام کر رہے ہیں۔ پاک فوج کی کامیاب پالیسیوں سے دشمن کی بوکھلاہٹ صاف اور واضح ہو رہی ہے۔ا اسی پالیسی کو دیکھ کر ہم نے ہر سطح پر اپنے لئے نئی پالیسی مرتب کرنی ہے۔ یہ تو اللی کا شکر ہے کہ ہم ایک بہت بڑے مرحلے سے کامیابی سے نکل چکے ہیں۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ چند سال پہلے تک ہمارے ملک کے خاتمے او اس کی جگہ خطے میں نئے ملکوں کے قیام کے نقشے امریکی اداروںسے آیا کرتے تھے۔ وہ 2010 ء کی تاریخیں دیا کرتے تھے اور انہوں نے ہی 2014ء کو آخری حد قرار دیا تھا۔
لیکن اب وہی سب مانتے ہیں کہ پاکستان پہلے سے مضبوط تر ہے، معیشت گرداب سے نکل رہی ہے، دفاع کے میدان میں ہم پہلے سے کہیں آگے جا چکے ہیں۔ ہمارے مٹنے کے نقشے بنانے والے ہی اب اپنی نامرادی دیکھ کر زہریلی زبانیں نکالے کر سانپ کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ لیکن ان سب کا انجام بھی ہمارے اتحاد، ایمان اور تنظیم سے بہت جلد ہو جائے گا۔ہم اپنے لوگوں سے ہر سطح پر یہی گزارش کریں گے کہ وہ ملک کے ساتھ مخلص ہو جائیں اور اسے کسی بھی سطح پر نقصان پہنچانے کی کوششوں سے گریز کر کے اسے مضبوط کرنے والے بن جائیں تو انہیں بھی عزت و دوام ملے گا، وگرنہ ذلت و رسوائی اورتباہی اس ملک کے دشمنوں کا چاہے وہ کہیں بھی تھے، کل بھی مقدر تھی اور آج بھی بنے گی۔
تحریر: علی عمران شاہین