تحریر : شاہ بانو میر
قومی ترانہ وہ انعام ہے جو غیور اور کامیاب قومیں اپنے تشخص کو حاصل کرنے کے بعد حاصل کرتی ہیں٬ تاریخ 1947 میں بدلی تو پاکستان بنا ٬ پھر سانحہ پشاور ایک اور تاریخ رقم ہوئی ٬ اس بار اس سانحے میں ہمارے فوجی جوان کام نہیں آئے ٬ کہ جن کی شہادتوں کو ہم نے روزمرہ کے معمولات سمجھ کر ان پر افسوس کرنا سوچنا چھوڑ دیا ہے٬ نہ کروڑوں کی تعداد میں عوام نامی کمزور مخلوق کام آئی ٬ کہ جس کی حادثاتی شرح اموات ہمارے لئے کسی قسم کے ذہنی تناؤ کا باعث نہیں بنتی٬ کیونکہ بیچارے جی کر کونسا زندگی کی آسائشات سے لطف اندوز ہو رہے تھے٬
اچھا ہے خس کم جہاں پاک اس بار دشمنوں نے کچھ انہونی کر دی٬ جن کی چبھن جس کی کسک آج بھی ہر حساس انسان اپنے ضمیر میں محسوس کرتا 141 وہ معصوم جن کا قصور صرف یہ تھا کہ دشمن سمجھتا تھا ان کے بڑوں نے ان کے معصوموں کو ہلاک کیا ٬ دوسرا تاثر شائد یہ بھی تھا کہ مستقبل میں فوجیوں کے یہ بچےّ بھی اپنے بڑوں کی طرح ان پر اندھا دھند بمباری کریں گے
لہٰذا اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کیلیۓ کل ہونے والے حادثے کا آج بغیر کسی جواز کے سدباب کر ڈالا ٬ پاکستان حادثات کی آماجگاہ بنا ہوا اس خطےّ کا حساس ترین مقام ہے آپریشن ضربِ عزب کا قہر ٹوٹا تو کن پر؟ جو خود نازک نازک کونپلیں تھیں٬ اچانک دن کی روشنی جیسے ان کی سفاکی دیکھ کر تاریکی بن گئی٬ عجیب و غریب خونیں کھیل کھیلا گیا٬ ایسا کھیل کہ جس کی مثال آج تک دنیا کی تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہے
بربریت کی ایسی داستان رقم کی گئی کہ جس کو جو جو نسل سنے گی اشکبار ہوگی٬ ستم بالائے ستم کہ وہی ہمارا سیاسی مخصوص رویّہ ٬ ان بچوں کو شہید کیا گیا٬ یہ تمانچہ ہے جو دشمن نے سرعام ہمارے منہ پے رسید کیا ہے٬ خوبصورت بھولے بھالے الہڑپن کی عمر میں دنیا سے جانے والے والدین کو جیتے جی مار گئے٬ یہ احساس کیسا جان لیوا ہے کہ ان کے جگر گوشے بغیر کسی جرم کے ان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ چھین لئے گئے٬ تحفظ فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری تھی٬
جس میں ناکامی ہوئی مداوہ معاوضہ ؟ ہرگز نہیں ان کا خون آپ کی سادہ لوح رعایا کی طرح بے مول نہیں ہے٬ یہ وطن کے معمار تھے آپ کا سرمایہ تھے والدین کی کل کائنات تھے٬ آپ کی نگاہ میں ہو سکتا ہے٬ کہ یہ بچے کچھ عرصہ بعد دیگر حادثات کی طرح ذہن سے محو ہو جائیں ٬ لیکن تاریخ کی یہ انہونی تبدیلی آپکو کبھی کہیں سے تو کبھی کہیں سے اس تاریخی واقعے کی یاد دلاتی رہے گی
1947 میں ایک انہونی تبدیلی آئی جس نے ہمیں پاکستان دیا ٬ آج اسی پاکستان پے قربان ہو ہو کر نہ تھکنے والے اس ہجوم نے حساس ترین بیش قیمت جواہرات کی قربانی دی٬ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان شہیدوں کو ان کی قیمتی قربانی کے عوض ان کی ماوؤں کے مطالبے کے تحت اعلیٰ تمغات عطا کئے جائیں
اور غازیوں کو ستارہ جرآت تا کہ دس سال بعد بھی ان ماؤں کے ان جگر گوشوں نے اسی وطن کی حرمت پے قربان ہونے کیلیۓ اپنے اپنے بابا کے نقشِ قدم پے چلتے ہوئے افواجِ پاکستان میں شمولیت اختیار کرنی تھی ٬ شہادت تو تب بھی مقدر تھی٬ لیکن اس شہادت کے وقت کیلیۓ پالنے والی ماں ذہنی طور پے تیار ہوتی ہے ہر قربانی کیلیۓ٬ وہ جری جوان اس کا فخر بنتا ہے کہ وہ مادرِ وطن کی حرمت پے قربان ہوا ہے
لیکن ادھ کھلے یہ پھول ماؤں کو کسی طور بھولنے نہ پائیں گے ٬ تا کہ دشمن نے جو کاری وار کیا ہے سیکڑوں والدین پر ٬ اس کا کچھ تو ازالہ ممکن ہو٬ اس مطالبے کے علاوہ ایک اور مطالبہ ہے میرا ہر طرف شاہد صاحب کی نظم کا چرچا ہے بتا آیا ہوں دشمن کو کہ اُس سے تو بڑا ہوں میں اس کا حرف حرف دل کو چِیرتا ہے٬ کاٹتا ہے ٬ لہو ابُلتا ہے ٬ بے بسی پر اور بے حسی پر میرا مطالبہ ہے کہ تاریخ نے جب یہ رخ دکھایا کہ اب بڑوں کی بجائے بچوں نے ہمیں بچانے کیلیۓ قربانی دے دی تو اس تبدیلی کو اب ہر شعبہ فکر میں نمایاں ہونا چاہیے٬
ہر سرکاری تقریب پر قومی ترانے کے بعد اس نظم یا اس “” یاد “” کو ایک منٹ کیلیۓ بجایا جائے علامتی قومی ترانے کے طور پر٬ عجیب لگے گی آپ سب کو یہ بات لیکن میں سمجھتی ہوں کہ غیرت کا اور اپنے اس ناقابل تلافی نقصان کو ہمیشہ یاد رکھنے اور خود کو مزید بہتر کرنے کیلیۓ ہمہ وقت ان 141 شہیدوں کی شہادت کو ہر ہر موقعہ پے یاد کرنا ہمارے لئے ازحد ضروری ہے٬
نئی نسلیں جب دوسرے قومی ترانے کی وجہ پوچھیں گی تو وہ اس ملک کے نظام کو تبدیل کر کے انشاءاللہ دوبارہ ایسے المناک تاریخی المیہ کو رونما نہیں ہونے دیں گی٬ دوسرا قومی ترانہ قومی غیرت کو جگانے اور مُردہ ذہن جگانے کے لئے تریاق کا کام کرے گا٬ دوسرا قومی ترانہ نئی تاریخ بنے گا ٬ پاکستان میں حادثاتی تاریخیں تو بنتی مٹتی رہتی ہیں٬ کوئی قربانی اتنی پُراثر اتنی حساس ہے کہ وہ متقاضی ہوتی ہے
کہ اُسے طمطراق سے یاد رکھا جائے جو باوقار مہذب با شعور طرح دار اقوام کا وطیرہ ہوتا ہے٬ آئیے مل کر یہ مہم چلائیں ان بچوں کی قربانی کو کبھی نہیں بھولیں گے ٬ اور ہر اہم موقعے پے 1 منٹ کیلیۓ “” بڑا دشمن بنا پھرتا ہے “”” قومی ترانہ کےساتھ ضرور سنایا جائے یہ بہت ضروری ہے ٬ اگر ہم غیرت مند قوم کے طور پے اپنے اس نقصان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہتے ہیں٬
تحریر : شاہ بانو میر