تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
دشمن کو معلوم نہیں اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہ الفاظ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے تھے۔ جو انہوں نے 6 ستمبر 1965ء کو کہے تھے صدر مملکت اپنی قوم سے مخاطب تھے۔ صدر مملکت نے مزید کہا پاکستان کے دس کروڑ مسلمان اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے، جب تک کہ دشمن فوج کے توپوں کے دہانے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش نہ ہو جائیں۔ بھارت نے اس جنگ میں شکست کھائی تھی اس کا اعتراف بھارت کے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہار میں کیا گیا تھا۔بے شک کہ اس نے اس اشتہار میں اسے اپنی غلطی کہا ہے لیکن اس لفظ غلطی سے حقیقت کو نہیں چھپایا جا سکتا۔
یہ جنگ جس کی طر ف صدر ایوب خان نے اشارہ کیا تھا پاکستان نے شروع نہیں کی تھی ۔ یہ جنگ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر مسلط کی تھی۔ اسلام نے جہاں ظلم و زیادتی کی مما نعت کی ہے۔ وہاں کفر کے خلاف اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشادربانی ہے۔ اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہوں مگر جنگ میں پہل اور زیادتی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔6 ستمبر1965ء کو دشمن کو اپنی فتح کا پورا یقین تھا اور وہ سمجھ رہا تھا کہ اسے لاہور پر قبضہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی بھارت کی فتوحات کے بارے میں خبریں نشر کر رہے تھے۔
بی بی سی نے تو یہ خبر نشر کر دی تھی کہ لاہور پر بھارت کا قبضہ ہو گیا ہے۔اگلے روز یہی نشریاتی ادارے بھارتی افواج کا مضحکہ اڑاتے نظر آئے جو ایک پوری کور کے حملے کے باوجود بی۔ آر۔بی نہر عبور نہ کر پائی تھی۔پھر اس جنگ میں دونوں ممالک پورے کے پورے ملوث ہو گئے۔
جنگ پورے سترہ دن جاری رہی ۔دونوں طرف نقصان ہوا لیکن بھارت نے کیونکہ حملہ کیا تھا ،اور حملہ بھی شب خون تھا بزدلانہ حملہ اس لیے اسے اپنے مقصد سے ناکامی ہوئی ،اسے پسپاہونا پڑا، اس جنگ میں بہت سی باتیں ناقابل فراموش ہیں مثلاپاکستان کی عوام نے جنگ کے ان سترہ دنوں میں مکمل جذبہ ایثار کا مظاہرہ کیا۔یعنی ایک ہجوم قوم بنا ۔اتحاد ،ایمان،یقین،کا عملی مظاہرہ دنیا نے آسمان نے دیکھا ۔اوران سترہ دنوں میں پورے پاکستان میں قتل ، ڈکیتی ، چوری ، کی ایک بھی واردات نہیں ہوئی ۔یہ بات کتنی حیرت ناک ہے کہ قوم کے لٹیرے بھی قوم کے دھارے میں شامل ہو گئے ۔پاکستان ہے تو پاکستانی ہیں اس بات نے پوری قوم کو ایک کیا۔
سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر عمل کیا ۔جب فوج کے لیے گاڑیوں کی ضرورت پیش آئی تو مرسیڈز کاروں کی لمبی قطار سرحدوں پر نظر آئی ۔زخمیوں کے لیے خون کے عطیے کی اپیل کی جاتی تو ہسپتالوں کے باہر لمبی قطار یں لگ جاتیں۔ یہ کیسا جذبہ تھا جب حملہ کی خبر سن کر دیہاتی لاٹھیاں اُٹھاکر دشمن کا سر کچلنے کے لیے چل پڑے ۔ اسکوارڈن لیڈر ایم۔ایم عالم نے دشمن کے پانچ ہنٹر جہاز چند سیکنڈوں میں زمین بوس کر کے فضائی جنگ کی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا۔ دشمن کے ہوائی مستقروں پر کھڑے جہازوں کو تباہ کر دیا گیاا ور یوں فضائی برتری بھی ثابت کردی گئی۔
ہماری سمندری حدود کی پاسبان پاک بحری نے سمندری سرحدوں کا نہایت خوش اسلوبی سے دفاع کیا۔ اور دشمن کی دفاعی تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا7 اور8ستمبر کی نصف شب کو “دوار کا”کی مشہور بندرگاہ کو تباہ کر دیا۔ یہ حملہ کموڈور ایس ایم نور کی زیر نگرانی ہوا۔ “دوار کا” کی بندرگاہ پر دشمن کے ہوائی حملے کی خبر دینے والا راڈار نصب تھا۔ نیز یہ بندرگاہ بھارتی فضائیہ کے لئے رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی تھی۔ اس طرح پاک افواج نے بری ،بحری اور فضائی تینوں میدانوں میں بھارتی عزائم کو خاک میں ملا دیا۔اور یہ ممکن ہوا صرف اور صرف جذبہ ایمانی ،عوام کی بھر پور مدد کے۔
اس جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے جس نے پروپیگنڈے کے محاذ پر بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا شاعروں کے لکھے ہوئے اور گلوکا روں کے گائے قومی نغموں کو ریڈیو نے ملک کے گلی کوچے میں عام کر دیا۔ ریڈیو کے نیوز ریڈر شکیل احمد کو بھارت کا دشمن نمبر تین قراردیا گیا۔ کیونکہ وہ جنگی خبریں اتنے ولولہ انگیز طریقے سے پڑھتے تھے کہ سننے والوں کا لہو گرم ہو جاتا تھا۔23ستمبر1965ء کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے ذریعے جنگ بندی عمل میں آئی۔ اگرچہ جنگ ستمبر کو جیتے 50 برس سے زائد ہو چکے ہیں۔
ایک بار پھر بھارت ہمیں للکار رہا ہے۔اسے 65 کو یاد رکھنا چاہیے اور تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔جنگ نہ تو پاکستان کے لیے اور نہ ہی بھارت کے لیے فائدہ مند ہے۔بھارت ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھے۔اسے علم نہیں کہ وہ پھر کس قوم کو للکار رہا ہے۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال