تحریر : محمد ریاض پرنس
چند دن کی مصروفیات کے بعد جب قلم کو اٹھایا توپتہ چلا کہ حالات اس قدرت غمگین ہو گئے ہیں کہ کسی کو کیا بتائیں ہر شخص دھاڑی لگانے میں لگا ہوا ہے۔ ایک عام آدمی سے لے کر بڑے سیاستدان تک، بس اسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ میں نے آج اتنے روپے کی دھاڑی لگانی ہے چاہئے وہ جیسے بھی لگے۔ کسی کو مار کر یا کسی کا حق دبا کر، کسی کی جیب کاٹ کر یا کسی کے پیار کو دیکھ کر، ہمارے ملک کا سارے کا سارا سسٹم ہی خراب ہو چکا ہے ۔ہم میں سب سے بڑی خرابی پتہ ہے کیا ہے۔ ہم پاکستانی اب اس قدر ناکارہ ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہمارے ذہنوں میں اب صرف یہی بات گھس چکی ہے کہ ہم کام بھی کچھ نہ کریں اور ہماری جیب بھی گرم رہے ۔بس اسی لالچ نے ہم کو ساری دنیا کے سامنے رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔
پوری دنیا میں صرف ایک ہی بات نے سیاسی حالات کو اس قدر چمکا رکھا ہے کہ پیناما لیکس کے کرداروں کا کیا بنے گا ۔ پوری دنیا کی عوام کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں کہ جو لوگ اس میں شامل ہیں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔اس میں بہت سے ممالک کے لوگ شامل ہیں ۔اور جنھوں نے اس کو اچھا نہیں سمجھا وہ اپنے عہدوں سے بر طرف ہو کر عوام کے سامنے احتساب کے لئے پیش بھی ہو چکے ہیں ۔مگر جب ہمارے ملک کی بات آتی ہیں تو ہمارے حکمران پہلے تو مانتے ہی نہیں کہ وہ اس میں شامل ہیں اور جب ان کے بارے میں سب کو پتہ چل جاتا ہے تو عوام کے سامنے اپنے آپ کو سچا پیش کرنے کے لئے بہت سے موقف پیش کرتے ہیں۔اور کمیشن بنا دیے جاتے ہیں تاکہ اس کی چھان بین ہو سکے ۔اور دوسری پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کے لئے ان کو ہری چھنڈی بھی دیکھائی جاتی ہیں۔
اس وقت ہر طرف صرف ایک ہی آواز آرہی ہے ۔کیا موجودہ حکومت کا کیا بنے گا۔ کوئی بھی سیاست دان ملک کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہا ۔سب ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ پھینکنے کے لئے سرگرم ہیں ۔کسی کوبھی اس ملک کی عوام کا خیال نہیں ۔کوئی بھی اس ملک اور اس کی عوام کے بارے میں نہیں سوچ رہا سب کی نظریں بس کرسی پر لگی ہوئی ہیں ۔ کہ کب یہ حکومت جائے اور ہماری باری آئے ۔کسی بھی حکمران یا پارٹی کو اس ملک سے پیار نہیں بس سب اس کو لوٹنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کبھی وکی لیکس اور کبھی پنامالیکس کی شکل میں ہم کو ملتا رہے گا۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ملک کے حالات کیسے تھے اور اب کیسے ہو گئے ہیں ۔ہمارے ملک کی رونقیں ،ہریالیاں، سب کچھ ختم ہو کر رہ گئیں ہیں۔ آخر ہمار ا قصور کیا ہے۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ہمار ے ملک کے تمام سیاستدانوں کا احتساب ہو ۔مگر ایسا قدم کون اٹھائے گا۔ کون ان لوگوں سے احتسا ب کی بات کرے گا ۔ ہمارے کسی بھی ادارے میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ان لوگوں کا احتساب کر سکے ۔ ہمارے ملک کے اندر جتنے بھی ادارے ہیں اگر وہ اپنے معیار اور اپنی حدودر کے اندر رہ کر کام کریں تو کون ایسا کرے گا ۔کون ملک کو لوٹے گا اور کون ایسی گندی حرکت کرے گا۔ ایسا کرنے کے لئے اور ان کرپٹ سیاستدانوں سے حساب لینے کے لئے سب کو آگے بڑھنا پڑے گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارے ملکی حالات مزید خراب ہو جائیں گئے۔
یہ بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارے ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ کتنے روپے کا مقروض ہے ۔ ہر روز ہمارا ملک مقروض سے مقروض ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے سیاستدان خوشحال اور طاقتور ۔ہمارے ملک کا ہرعام آدمی دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے اور ہمارے سیاستدان دن بدن دولت مند ہوتے جا رہے ۔ہمارے ملک میں بے روزگاری ،لوڈشیڈنگ اور مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اس پراس پر کنڑول کرنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ۔وہ اس لئے کہ کوئی بھی حکمران ملک کو سنوارنے نہیں آتا بلکہ اس کو لوٹنے اور اس کی عوام کو پریشانیوں اور بے روزگاری کے جال میں پھنسانے کے لئے آتے ہیں۔
ہمارے ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کے بچوں کی آف شور کمپنیوں چل رہی ہیں ۔اگر یہی سرمایہ ہم پاکستان میں لگائیں تو ہمار ا ملک کتنی ترقی کرے گا۔ اور ہمارے ملک میں خوشحالی آئے گی ۔ اور دوسری بات ہمارے ملک کے بے شمار ایسے سیاستدان ہیں جو جب سیاست کے میدان میں آئے تو غریب اور آج کروڑپتی ۔یہ کیسے ہو گیا ۔کیا ان کا کوئی احتساب نہیں کرے گا۔جب ان سیاستدانوں کو اقتدار ملتا ہے تو ان کے بچے تو بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور ہمارے بچے ان کی لگائی گئی امیدوں کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور اپنا مستقبل تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔اور کرپٹ سیاستدانوں کے بچے جنھوں نے ملک اور اس کی عوام کو لوٹا ہوتا ہے وہ ملک کے واث بن جاتے ہیں۔پاکستانیوں اٹھو اور ان کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کے لئے ان کے خلاف آواز بلند کرو، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ سب سیاستدان مل کر چار دن کا واہ ویلہ کر کے سب کچھ گول مال کر جائیں گے۔اوران کا احتساب نہیں ہو سکے گا۔
تحریر : محمد ریاض پرنس
03456975786