تحریر : ضیغم سہیل وارثی
طو یل وقفے کے بعد واپسی چاہتا ہوں امام غزالی رح کے ان ارشادات کے ساتھ، سب انسان مردہ ہیں ،زندہ ہیں جو علم والے ہیں،سب علم والے سوئے ہوئے ہیں ،بیدار وہ ہیں جو عمل کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں انسان نہیں؟سب انسان ہی تو ہیں ۔مگر یہ حقیت کے انسانیت مر رہی ہے ۔اس کو ثابت کرنے کی اگر ضرورت محسوس کروں تو سمجھیں راقم کے اندر بھی انسانیت نہیںہے انسانیت جب مر رہی ہے تو اس ہجوم میں چند زندہ ہیں،تو باظاہر سب سانس لے رہے ہیںمگر ان چند میں سے کچھ کی سانس بہت سوں کو مو ت کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔پھر ان چند میں سے کچھ اپنے شعور ،انسانی رویے ،اخلاق کی بنا پر زندہ ہیں ۔جن کو مر دہ کرنے کے لئے ہر طر ح کی کو شش جارہی ہے ۔اس کو شش میں کون کون شامل ہے تو عر ض کرتا چلوں کہ غیروں کے بجائے اپنے زیادہ حصہ ڈال رہے ہیں ۔ان علم والوں کو مردہ کرنے میں چند علم والے ڈر ،خوف سے سو ئے ہوئے ہیں،یا خاب غفلت میں ہیں ۔یا پھر کہہ سکتے ہیں کہ جان بو جھ کر آنکھیں بند کیے ہو ئے ہیں ۔کچھ جن کو خدا پر پختہ یقین ہے اور ان کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں نام اسی کا با قی رہتا ہے جس نے عملا انسانیت کی بہتری کے لئے ایسے کام اور کو شش کی ہو جن سے معا شرے میںبہتری آئے۔طرز زندگی اس لیول کو نہ چھوئے جس سے ہمارہ معاشرہ پوری دنیا کے لئے بدبودار مثال بن کر رہ جائے۔
معاشرے کی اصلاح کرنے والے باذوق ،اعلی ظرف اور درویش لوگ اپنا عمل واقف کر دیتے ہیں۔ وہ وہی ہو تے ہیں جو اپنی ذات سے باہر نکل کر پورے معاشرے کیلئے سوچتے ہیں ۔جب پورے معاشرے کے لئے بہتر سوچا جاتا ہے تو انا،ذاتی مفاد کو سامنے نہیں رکھا جاتا ۔وہ طیش میں آکر ذاتی انا کو سامنے رکھ کر غلط تول کرنے والے کو سر عام بازار میں برا کہتے ہیں بجائے یہ سوچنے کہ اس حرکات کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔اگر عہد اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے تو اس غلط تول کر نے والے کو پیار محبت اور اچھے اخلا ق کی طاقت سے زیر کر سکتے ہیں ۔اور ایسے ایک چراغ جلنے سے آغازہوتا مگر ،مگر علم والے اعلی ظرف والے ہی ایسا کر سکتے ہیں وہ نہیں کر سکتے جو بازار میں سر عام لمبی لمبی تقر یریں کر کے اہنے حلقہ احباب میں اپنے شعو ر کی تعر یف کے عادی ہوں ۔اب ایسا بھی نہیں ہے کہ عمل والے ہمیں نظر نہیں آتے ،بہت سی مثالیں درج کر سکتے ہیں ۔مگر یہاں پھر غور طلب بات یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہو تا ہے ۔اور کسی نے کیا خو ب کہا ہے کہ ہماری نصیحت کسی دوسرے پر تب اثر کرتی ہے جب ہماری سوچ ،نیت ،اور عمل پاک ہو ں۔معاشرے کی فلاح کے لئے بہت سے نیک اور پارسا لو گ مو جود ہ ہیں جن کے دعوے بہت بڑے ،پھر یہاںعقل مانتی نہیں ہے کہ کیا وجہ تبدیلی کیوں نظر نہیں آتی۔خاص طور پر علم ہو نے کے باوجود جہالت کا زور ہے۔
اس کی وجہ یہ سمجھ آتی کہ ہم عوام یہ سوچتے ہیں کہ مولوی نے اسلام سنبھال لیا ،حکومت نے انصاف قائم کر دیا ،پولیس نے چوڑ ی ڈاکے کنڑول کر لیے ہیں،اور علم ہمارے بچوں کو اسکول کالج سے مل جائے گا ۔کیا ہمارے ایک ایک فرد کی ذاتی ذمہ داری نہیں بنتی ؟یا وہ ذمہ داری سے دست بردار ہو جاتے ہیں صرف لوزمات پورے کر کہ مولوی اسلام سنبھال لے گا ،حکومت انصاف اور پولیس ڈاکے کو ،عام عوام والد ین اسکول کالج کے قائم کے بعد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی پہلی درس گاہ کیا ہے ۔معاشر ے میں بہتری لانے کے لئے ایک ایک فرد کیا کر سکتا ہے ؟۔برطانیہ جیسے ملک میں جہاں فیشن سے لے کر جد ید ٹیکنالوجی کا راج ہے ،وہاں پر نہ صرف اپنے آپ کو بلکے آس پاس کے لوگوں کو اسلام کی راہ پر لانا اور قرآن پاک کو لفظ با لفظ تر جمے کے ساتھ سمجھنے کی کو شش کرنا بہت ،بہت ہی غیر معمولی کا وش ہے ۔ایک طرف نئے فیشن کی بھر مار ہو اور عمر کا حصہ بھی ایسا ہو جس میں صرف اپنی ذات نظر آتی ہے ،ایسی صورت حال میں ایک عور ت ذات اسلامی کی دیوانی بن کر ایسے مقصد پر چل پڑے قرآن کی تعلیمات کے فروغ کے لئے خود سے قدم بڑھائے اور ایسا ماحول فراہم کر ئے آس پاس اور دوسر ے علاقے کی خواتین دلچسپی لے کر اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وقت نکالیں ،تو اس عورت ذات کی اس دور میں اور وہ بھی برطانیہ جیسے ملک میں کامیابی کو غیر معمولی کامیابی کہہ سکتے ہیں جو ایک زندہ ،مثال ہے۔
اس طرح معاشرے میں دنیی تعلیم کی فروغ کے لئے جو کو شش کی جاری ہے اس سے بڑا جہاد آج کے دور میں ہو نہیں سکتا ۔محتر مہ فرزانہ چوہدری صاحبہ جو بچپن سے برطانیہ میں رہ رہی ہیں مگر ان کی طر ز زندگی کو دیکھ کر ان کی ٹیچر محتر مہ فر خت ہاشمی جو پاکستان میں خواتین میں اسلامی تعلیمی فروغ کیلئے نمایاں نام ہے انہوں نے محترمہ فرزانہ چوہدری صاحبہ کو اپنی نظر سے پہچان کر کہ وہ بر طانیہ میں قرآن کی تعلیم کے معاملے میں یہ دوسروں کی فلاح کے لئے اچھا کا م کرسکتی ہیں۔اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایک استاد کا انتخاب غلط ثابت ہو ۔کچھ ہی عر صہ بعد اب محترمہ فر زانہ صاحبہ نے اپنے گھر میں ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ ہر ہفتے میں ایک دن ایک دن کلا س کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں قر یب اور مقامی شہری خواتین آتی ہیں اور قرآن پاک کو تر جمے کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ،اور ساتھ اسلامی تعلیم ،حدیث اور حضور پاک کی طر ز زندگی کے بارے درس دیا جاتا ہے ۔محتر مہ کر بقول انہوں نے ایسے کلاس کا آغا ز کیا تو اب صر ف چند عورتیں آتی تھیں اور اب تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے وہ اس وجہ سے کہ انہوں نے آہستہ آہستہ دلچسپی پیدا کی،
ایک بہت اچھی مثال دی گئی کہ اگر کوئی بہت تیز گا ڑی چلا رہا ہو تو اس کی تیز رفتای آ ہستہ آہستہ کم کی جاتی ہے اگر ایک دم بریک لگا ئی جائے کی تو نقصان کا حدشہ ہو تا ہے۔ اس طر ح خواتیں میں تر جمے کیساساتھ قرآن پڑھنے کا شو ق بڑھاتا گیا اس طرح وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئی ہیں۔اس طرح درس سے بر طانیہ جیسے ملک میں رہنے والوں کو ذہن میں رہتا ہے کہ اسلام نے ہم کو کون سا طر یقہ بتایا زند گی گزارنے کا اور اپنی اولاد کی کس طر تربیت کی جائے ۔ جو ذاتی زند گی میں مصروف رہتے ہیں پھر وہ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ان کی اولاد نافرمان ہے ۔محتر مہ صاحبہ کی اس کا وش کے بعد اب مقامی مسجد میں مکمل طور پر ایسی کلاس کے انعقاد کے لئے کو شش کی جارہی ہے ۔جس میں زیا دہ تعداد میں خواتین قرآن پاک کو تر جمے کے ساتھ سمجھ سکیں گئیں۔
اس طر ح کے ما خول سے پوری زند گی پر اثر پڑتا ہے اور زندگی کے با قی معاملات میں اسلام کے مطا بق فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے مگر ایسا تب ممکن ہو تا جب آہستہ آہستہ دلچسپی پیدا کی جائے ۔کیا ایک فرد کی کو شش سے تبد یلی نہیں آتی ؟،یا صرف ہم لمبی لمبی تقر یر یں کرتے ہیں ان کے اعمال ،عمل ،اور اخلاص اور ان کی ذات میں بہت تضاد ہو تا ہے طویل وقفے کے بعد واپسی چاہتا ہوں امام غزالی رح کے ان ارشادات کے ساتھ ،سب انسان مردہ ہیں ،زندہ ہیں جو علم والے ہیں،سب علم والے سوئے ہوئے ہیں ،بیدار وہ ہیں جو عمل کر تے ہیں۔
تحریر : ضیغم سہیل وارثی